اسی لئے مغربی قوم اور وہ طبقہ جو مغربیت کا شیدائی ہے اسے یہ مغالطہ بھی ہوا ہے کہ اب ان کی کسی سوچ کا مقابلہ دنیا کی کسی اور سوچ اور فکر سے نہیں کیا جاسکتا ۔ جبکہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ٹکنالوجی ایک کھیل ہے اور کھیل میں ہمیشہ کسی نہ کسی کو فتح و شکست کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔یہی وہ ضد ہے کہ جب ایران ،پاکستان ، افغانستان،الجزائر،ترکی،مصراور شام وغیرہ میں کچھ لوگ ان کے جیسا نہیں سوچنا چاہتے تو یہ لوگ جبراً انہیں ایسا سوچنے پر مجبور کررہے ہیں ۔یہاں پر یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ دنیا کی تاریخ میں چاہے وہ گمراہی اور ہدایت کا معاملہ ہو یا علم اور ٹکنالوجی کے عروج اور ترقی کا ہمیشہ ایک کثیر تعداد کی نمائندگی ایک قلیل گروہ نے کی ہے ۔ ایسا اس لئے بھی ہو تا ہے کیوں کہ اکثریت جو دیکھتی ہے اسی پر یقین کرتی ہے ۔
مغربی عوام کی نئی نسل جو خود بھی اپنی مصروفیت اور اخراجات سے اتنا پریشان ہے کہ اسے اپنے خاندان تک کے بارے میں بھی ٹھیک سے پتہ نہیں ہوتا کہ کون کب اور کہاں کیا کررہا ہے ۔انتشار اور افراتفری کا یہ عالم ہے کہ معصوم اور نوخیز بچے اپنے ساتھی طالب علم ،ٹیچر اور ماں تک کو گولیوں سے بھون کر خود کو بھی ہلاک کر ڈالتے ہیں ۔حال ہی میں لاس اینجلس ایر پورٹ پر ایک شخص کی فائرنگ اس کی تازہ مثال ہے ۔ہو یہ رہا ہے کہ مغربی عوام اور نوجوانوں سے رسمی آزادی ،انصاف ، مساوات اور اتحاد کی بات تو کی جاتی ہے اور یہ بات سننے اور سمجھنے میں اچھی بھی لگتی ہے ۔مگر مغرب نے اس کا پائیدار حل بھی ٹکنالوجی کے ذریعے ہی ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔چونکہ ایک صدی سے وہ اپنے آباء اجداد کو اسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتے بھی آئے ہیں اور کسی حد تک ان کے رہنماؤں نے سیٹالائٹ اور کمپیوٹر کے ذریعے انہیں وہ جنت بھی دکھائی جو وہ دیکھنا چاہتے تھے اس لئے9/11 سے پہلے تک وہ اپنے معاشرے اور خاندان کے تئیں کسی حد تک مخلص اور ایماندار بھی رہے ہیں اور ان کی سوچ بھی رہی ہے کہ دوسری دنیا کے لوگ بھی ہماری ہی طرح کیوں نہیں بن جاتے تاکہ وہ ہماری طرح عیش و عشرت اور سکون کی زندگی بسر کرسکیں ۔مگر 9/11 کے بعد جب انہوں نے یہ جاننا چاہا کہ جن کے بارے میں ہم اچھا سوچ رہے ہیں آخر انہوں نے ہی ہمارے سینے میں خنجر کیوں پیوست کیا ،تو معلوم یہ ہوا کہ ہماری جمہوریت اور سرمایہ دارانہ تہذیب تو ان کے خون میں ڈوبی ہوئی ہے اور ہم نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے انصاف اور مساوات کا درس دینے کی بجائے خطرناک اسلحوں میزائلوں اور طیاروں اور ڈٖرون میزائلوں کی شکل میں لاشوں کے تابوت بیچے ہیں۔یا یوں کہہ لیجئے کہ 9/11 کے بعد معاشی بحران کا شکار بینکوں نے جب اپنے قرض وصولنے کی مہم میں شدت پیدا کی تو پھر انہیں احساس ہوا کہ شداد کی جنت تو بڑی مہنگی ہے ۔یوروپ میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو کی تحریک شروع ہوئی جسے سرمایہ داروں نے ناکام بنادیا ۔بینکوں سے قرض معاف کرنے کی اپیل کی جاتی ہے تو جواب آتا ہے کہ یہ تجارت ہے یہاں مساوات اور رحم کا معاملہ نہیں کیا جاتا۔تو پھر مساوات کہاں ہے ؟انہیں کون بتائے کہ کہ اصل مساوات صرف اور صرف اسلام میں ہے ۔مسلمانوں کے رسول محمد عربی ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے لوگو آج کے بعد جہالت کی تمام رسمیں منسوخ کی جاتی ہیں ۔میں اپنی طرف سے لوگوں پر اپنے چچا بنی عباس کا قرض معاف کرتا ہوں تم بھی اپنے قرض داروں کو معاف کردو کیوں کہ اب تم آپس میں بھائی بھائی ہو اور بھائی کیلئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کو تکلیف میں مبتلاء کرے ۔موجودہ ملکی اور عالمی سیاست میں دور جہالت کے انہیں سرمایہ داروں کا دبدبہ ہے جنہوں نے لوگوں پر قرض تھوپ کر انہیں ہر طرح سے اپنا غلام بنالیا ہے۔مگر آج یہ لوگ اتنے طاقتور اور ان کی سازشیں اتنی وسیع ہو چکی ہیں کہ یہ لوگ ملکوں اور ملکوں کے حکمرانوں تک کو خرید اور بیچ رہے ہیں تاکہ ان کی لبرل اور منافع بخش فحش تجارت کو فروغ حاصل ہوتا رہے ۔مگر جب کوئی فیڈل کاسترو،ہیوگو شاویز اور اوبامہ کی شکل میں ان کی سازشوں کو سمجھتا ہے تو انہیں خاموشی کے ساتھ جان ایف کینیڈی اور صدام حسین کے حشر کی یاد دلادی جاتی ہے ۔ امریکہ کے موجودہ صدر انہیں عالمی سرمایہ داروں کے شکنجے میں ہیں۔
سرمایہ داروں کی شکل میں شیطانی مافیاؤں کا یہ وہ گروہ ہے جو ایک زبردست خزانے کا مالک ہے اور چھوٹی چھوٹی صنعتوں ،کل کارخانوں اور دوکانوں کو کارپوریٹ اور مال کلچر میں تبدیل کرکے پوری دنیا کی دولت کے مالک بن کر ہر شخص کو اپنا غلام بنا کر اپنے جیسا سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔یہی وہ طاقتیں ہیں جنہوں نے ماضی میں الجزائر،ترکی ،پاکستان اور ایران وغیرہ میں فوجی بغاوت کروائی اور حال میں مصر کی جمہوری حکومت کے خلاف مصری فوج کی دہشت گردی کے بعد دہشت گردی کے عنوان پر بھی سوال کھڑا کردیا ہے کہ اصل دہشت گردی کیا ہے ؟اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہے کہ طالبان افغانستان میں رائے شماری کے عمل میں شریک کیوں نہیں ہونا چاہتے تو اس کا جواب عام فہم لوگ بھی دے سکتے ہیں اور اس کیلئے کسی کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ صرف خوبصورت آواز میں جمہوریت جمہوریت اور مساوات مساوات کا سماں باندھ دینے سے کوئی سیاسی انقلاب کبھی رونما نہیں ہو سکتا ۔جبکہ پر امن تحریک بھی ایک زبردست جدو جہد،قربانی ،مزاحمت اور قائدانہ صلاحیت کی محتاج ہے ۔موجودہ جمہوریت کے تعلق سے ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ یہ جدید تعلیم یافتہ اور مہذب دور کی دریافت ہے اور اب اس کا کوئی متبادل نظام عمل میں نہیں آسکتا ۔جبکہ یہ سچ نہیں ہے ندوہ اور شورائیت کا تصور دور جاہلیت میں بھی پایا جاتا تھا اور کم سے کم اس دور میں لوگ کسی بھی مسئلے کے تئیں سنجیدہ اور مخلص تھے اور اپنے سردار اور قائد کے فیصلے کا احترام کیا کرتے تھے ۔اس کے برعکس بدتمیزی بد اخلاقی بد عہدی کا معاملہ تو ایساہے کہ اپنے مفاد کیلئے کب کون کس طرح اپنی سیاسی وفاداری فروخت کردیگا کہا نہیں جاسکتا۔اور ایس نظیر انسانی تاریخ میں صرف موجودہ لبرل جمہوری طرز سیاست کیلئے ہی خاص ہے ، جہاں ہندوستان سے لیکر امریکہ تک سیاسی تحریکیں کارپوریٹ سیکٹر کمپنیوں کی طرح ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرکے پارلیمنٹوں اور اسمبلیوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بناتی ہیں۔گجرات میں مودی نے اپنی اسی سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے سردار پٹیل کے مجسمہ کی تعمیر پر ڈھائی کروڑ کے بجٹ کا منصوبہ بنایا ہے جیسا کہ مایا وتی نے لکھنوء میں امبیڈکر پارک اور ہاتھیوں کے مجسمے بنانے کیلئے عوام کے ہزاروں کروڑ خرچ کرڈالے ۔خبر ہے کہ بہار میں مودی نے جو ریلی کی ہے اس پر دس کروڑ کا خرچ آیا ہے ۔اس طرح راہل گاندھی کو وزیر اعظم تسلیم کرنے کیلئے ہندوستان کی عوام کو کتنے ہزار کروڑ کی قیمت چکانی ہوگی اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے ۔اس کے بعد بھی ملک کے اخبارات میں چرچا ہے اور اہل دانش کو وزارت عظمیٰ کے ان دونوں دعویدار وں کی اہلیت پر شک ہے کہ ملک کی قیادت کے اہل ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جنہوں نے ہزاروں کروڑ کی رقم خرچ کرکے پارلیمنٹ پر قبضہ کیا ہے کیا ان سے کسی شرافت اور ایمانداری کی امید کی جاسکتی ہے ۔ایسے میں استعماری قوتیں جو پوری دنیا کی صنعت و تجارت پر قابض ہیں اور پوری دنیا کی دولت سمیٹ لینے کے جنون میں جائز اور ناجائز کی تمیز بھی نہیں کرتی ہیں ان کیلئے ان بد عنوان اور لالچی سیاسی رہنماؤں کو خرید کر اپنی مرضی کے قانون پاس کروالینا بھی کچھ مشکل نہیں ہے؟مگر جہاں عوام کی اپنی اکثریت ریا کاری اور بدعنوانی میں مبتلاہو کر بے حس اور بے شرم ہو چکی ہو اس کی طرف سے بھی کسی انقلاب کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ۔کہیں نہ کہیں اپنے اسی آزادانہ اور لبرل خیالات کی وجہ سے یہ طبقہ خود بھی بد عنوان اور بد معاش حکمرانوں اور سیاست دانوں کا معاون و مدد گار ہے۔ترکی ،مصر ،ایران ،تیونس ،پاکستان اور شام وغیرہ میں اسلام پسند حکومتوں کے خلاف جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں یہ اسی جدید اور لبرل خیالی تعلیم یافتہ دہشت گردوں کی طرف سے ہے اور یہی اصل دہشت گردی ہے جس نے پورے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔مگر عالم اسلام کا مسلمان اب لبرلزم سوشلزم اور امپیرلزم کے سحر سے باہر آچکا ہے اور اس مقصد کیلئے قافلہ حجاز میں ہزاروں حسینؓ قطار میں ہیں۔ ان کیلئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کی قیادت کون کرے ۔ان کا نصب العین یہ ہے کہ امن اور انصاف کیلئے ظالم کو ظلم سے روکنے کی روایت زندہ ہو جائے ۔جس دن طاقت کا یہ محور بدل گیا ظالموں کی گرفت کمزور پڑجائے گی اور دہشت گردی کے موجودہ معنی بدل جائیں گے ۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں یہ سب کیسے ہوگا ؟ہمارا جواب یہ ہے کہ جو اس دنیا کا کاروبار چلارہا ہے اس نے عرب کے ایک تنہا یتیم (ﷺ) نوجوان کی تحریک کو عالمی تحریک میں کیسے بدل دیا ؟ کون یقین کر سکتا ہے کہ بنو علی اور بنو عباس کے خاندان پر مشتمل چند افراد دنیا کی طاقتور مملکت بنی امیہ کاخاتمہ کردیں گے جبکہ ایک زمانے تک انہوں نے تباہی غربت اور جلاوطنی کی زندگی گزاری ہو ۔کون گمان کرسکتا ہے کہ زوال پذیر خلافت اسلامیہ میں ایک جانباز سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کا ظہور ہوگا مگر یوروپ کے پچیس بڑے بادشاہ باہم مل کر بھی اس مجاہد کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔کون یقین کرسکتا ہے کہ جہالت اور توہم پرستی کی شکار قوم یہود و نصاریٰ میں نیوٹن اور آئنسٹائن جیسے سائنسداں بھی پیدا ہونگے اور یہ قوم سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا میں امامت کا درجہ حاصل کرلے گی اور جن ایجادات کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔کیا یہ بھی کسی معجزے سے کم ہے کہ عرب کے سوکھے ریگستان میں تیل کے چشمے پھوٹیں گے ؟جو اللہ پانی سے آگ پیدا کرسکتا ہے ۔مٹی سے امن کیوں نہیں ۔ابو تراب کی کوششیں رائیگاں نہیں ہو سکتیں۔
جواب دیں