علامہ اقبال دور اندیش و مستقبل شناس شاعرو مفکر

ایک دن جب حسب دستور تلاوت کر رہے تھے تو انکے والد ان کے پاس آئے اور فرمایا ’’جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ یہ قرآن تم ہی پر اتر رہاہے یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے ‘‘ علامہ اقبال کی والدہ محترمہ امام بی بی ایک دین دار اور عبادت گذار خاتون تھیں اس لئے انہوں نے بھی انکی مذھبی اور اخالقی تربیت نمایا حصہ لیا۔ ابتدائی تعلیم اسکاچ میشن ہائی اسکول سیالکوٹ ۱۸۹۱ ؁ء حاصل کرتے اسکول کے مدرسین میں ایک مولوی سید میر حسن مدرس عربی اور فارسی تھے۔ علامہ اقبال نے عربی اور فارسی کی زبان دانی اور شعرو سخن کا جوذوق پیداہواوہ انہی بزرگ کی تعلیم اور صحبت کا نتیجہ تھا۔ یہ عقیدت مندی عمر بھر قائم رہی ۔ چنانچہ گورنمنٹ جب ڈاکٹراقبال کو سر کا خطاب دینا چاہا تو انہوں نے اس شرط پر اسے قبول کرنے پر امادگی ظاہر کی کہ انکے استاد مولوی سید میر حسن صاحب کو بھی شمش العلماء کا خطاب عطاکیا جائے جسے منظور کرلیا ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال میں ذہانت کا مادہ خداداد تھا۔ علامہ اقبال نے میٹریکوشن سے (۱۹۹۳)انٹر میڈئیٹ (۱۸۹۵) اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور (۱۸۹۷)پھرایم اے (فلسفہ ) (۱۸۹۹)ڈگری حاصل کرنے کے بعد انگلستان (۱۹۰۵)میں روانگی ہوئے ۔قیام انگلستان کے مصارف زیادہ تر ان کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد نے برداشت کئے ۔ علامہ اقبال نے پی ایچ ڈی میونخ یونیور سیٹی جرمنی ۱۹۰۷ء فلسفہ میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری بھی لی ۔اور پھر لاہور پلٹ آئے اور وکالت شروع کی کچھ عرصہ تک کالج کی پروفسری بھی کی سماجی اور سیاسی مسائل میں دلچسپی لیتے رہے ۔ ۱۹۳۱ ؁ء میں مسلمانوں کے نمائندہ سے لندن گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی ۔علامہ اقبال فارسی اور اردو دونوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے ۔اردوادب میں اقبال وہ واحد شاعر ہیں جن کی شاعری ایک مخصوص شعری حکمت عملی کونمایا کرتی ہے ۔مرز اسداللہ خاں غالب کے بعداگر کوئی اردو کے شاعر تھے تو وہ ڈاکٹر علامہ اقبال ہی تھے ۔
علامہ اقبال کی اردو شاعری کو فکری اور موضوعاتی اعتبار سے تین ادوار مین تقسیم کیا جاسکتاہے ۔ اردو کی روایتی شعرا کی طرح علامہ اقبال نے بھی شاعری کی ابتدا غزل سے کی اور داغ بذریعہ خط و کتابت اصلاح بھی کی لیکن وہ ایک صاحب فکر انسان تھے ۔انکی فکری پرواز داغ کی غزل کی محدود دائیرے میں مقید نہیں رہ سکتی تھی ۔ انکی شاعری کا پہلا دور سفر انگلستان ۱۹۰۳ ؁ء پر ختم ہوتاہے ۔ اس دور میں انکا کلام وطنیت اور قومیت کے جذبات کا آئینہ دار ہے ۔ دوسرا دور انکے قیام انگلستان سے شروع ہوتا ہے ۔ علامہ اقبال نے یوروپ کی سیاست اور مغربی سامراج کی ریشہ دوانیوں کابغور مطالعہ کیا تھا ۔ نتیجتاًانہوں نے وطنیت اور قومیت کو عالم انسانیت کیلئے مضمر سمجھا اور انسان کی نجات کے لئے اسلامی اخوت ، رواداری ، اور جذبہ عملی کی تعلیم دینا شروع کی ۔تیسرے دور میں وہ ایک فلسفی مفکر اور حکیم کی حیثیت سے سامنے آتے تھے۔ 
شروع میں علامہ اقبال نے ہندستانی قوم میں اپنی نظموں کے ذریعہ حب الوطنی کو فروغ دیا جس سے آزادی کی قومی جدو جہد میں بڑی قوت ملی ۔ایسی نظموں میں تران�ۂہندی (۱۹۰۴)،ہمالہ ، ترانہ ملی ، تصویر درد ، ہندوستانی بچوں کا گیت ، اور نیا شوالہ وغیرہ کافی مشہور نظمیں ہیں ۔وطن کی موجودہ صورت حال کی اندوہناک تصویر علامہ اقبال نے اس طرح پیش کی ہے ۔
رلاتاہے تیرا نظارہ اے ہندوستان مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا افسانہ سب فسانوں میں
اور حال کے آئینے میں مستقبل کے اندیشے کی پشین گوئی کوئی اس طرح کرتے ہیں ۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندستاں والوں 
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ان اشعارکی کربناکی اس بات کی شاہد ہے کہ محمد اقبال کے سینے میں حب الوطنی کا جذبہ کتنا شدید تھا۔وطن کے طئیں محبت اور وطن کے بزرگ حستیوں کے طئیں عقیدت کا نظرانہ پیش کیا ۔علامہ اقبال وطن سے دور جب رہتے تھے تب بھی وہ اپنے دل و دماغ میں اپنے وطن کو فراموش نہ کرسکے ۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمار 
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا
مذھب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ، ہندوستاں ہمارا
مذہب انسانیت جو کہ اقبال کا مذہب تھا اس لئے علامہ اقبانے انسانیت کے قافلے کی رہنمائی کی اور وہ دوسروں کو بھی یہی تعلیم دیتے تھے ۔علامہ اقبال اتحاد اور قومی یکجہتی کے حامی تھے ۔ یہ نظریہ صرف فلسفیانہ نہیں بلکہ عملی بھی تھا ۔علامہ اقبال کو ۱۹۲۳ ؁ء میں جب ’’سر ‘‘ کا خطاب دیا گیا تو علامہ اقبال صاحب کی عزت افزائی لاہور کے مسلمانوں،سکھوں ، اور ہندوؤں کی طرف سے انکو ایک عظیم الشان پارٹی مقبرہ جہاگیر میں دی گئی ۔جس میں نہ صرف لاہور کے معززین بلکہ پنجاب کے محتلف شہروں کے اکابر اور اہل علم ، اکثر انگریز حکام بلکہ خود گورنر پنجاب شریک ہوئے ۔اس پارٹی میں اقبال صاحب نے انگریزی زبان میں ایک دل چسپ تقریر کی جس سے پہلی مرتبہ لوگوں کے کانان کی مشہور تصنیف ’’پیام مشرق ‘‘ سے آشنا ہوئے جس کو وہ جرمن شاعر گوئٹے کے جواب میں لکھ رہے تھے۔ علامہ صاحب سیاست میں اپنے احباب کے اسرار سے ۱۹۲۶ ؁ء میں لاہور کے حلقہ پنجاب سے کونسل کی ممبری کے لئے امید وار کھڑے ہوئے اور ۳۰۰۰ ووٹوں سے اپنے حریف کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کی ۔کونسل کی ممبری کے زمانے انہوں نے اہم ملکی اور قومی خدمات انجام دیں۔
یہ تیرا یقین محکم تیری ہمتوں کی جاں ہے 
تیرے بازوؤں کی قوت تیرے عزم کا نشاں ہے
توہی راہ ، توہی منزل ، توہی ،میر کارواں ہے
یہ زمین بھی ہے تیری یہ آسماں تیرا ہے
’’سارے جہاں سے اچھاہندوستاں ہمارا‘‘کہ متعلق مہاتما گاندھی ۱۹۳۸ ؁ء میں رسالہ جوہر (دہلی) کہ خصوصی شمارے اقبال نمبر کے ایڈیٹر کے نام خط لکھتے ہیں۔
اتنا کہہ سکتاہوں کہ جب انکی مشہور نظم ’’ہندوستاں ہمارا‘‘ پڑھی تو میرا دل بھر آیا اور برودا جیل میں سیکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔اس نظم کے الفاظ مجھے بہت میٹھے لگے اور یہ خط لکھتا ہوں تب بھی وہ نظم میرے کانوں میں گونج رہی ہے ۔
ایک اور موقع پر مہاتماگاندھی نے اردو ہندی کے نزاع کو نپٹانے کی غرض سے ترانہ ہندی کاحوالہ دیتے ہوئے اس ترانے کو ہندستان کی قومی زبان کا نمونہ کہا تھا ۔انہوں نے کہا تھا ۔’’کون ایسا ہندوستانی دل ہے جو اقبال کا ، ہندوستاں ہمارا ،سن کر دھڑکنے نہیں لگتا۔اگر کوئی ایسا دل ہے تو میں اسکی بد نصیبی سمجھوں گا‘‘۔
ہندوستان کو آزادی ملنے پر بھی گاندھی جی نے پراتھنا سبھا کے آخر میں یہ ترانہ گایا تھا۔’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیررکھنا ‘‘ دہراتے ہوئے دعا کی تھی کہ ہم آئندہ مسائل کو حل کرنے کے لئے کبھی تلوار نہ اٹھائیں گے۔
یہی نہیں علامہ اقبال نے نوجوانوں کو حوصلہ افضائی کے لئے اپنے مجموعۂ کلام میں سرائے ہیں بطور نمونہ کچھ قارئین کی نظر پیش خدمت ہے ۔
محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے 
ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظرآتی ہے انکو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نو مید ، نومیدی زوال علم عرفاں ہے 
امید مرد مومن ہے ، خداکے رازدانوں میں 
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر 
تو شاہین ہے بسیراکر پہاروں کے چٹانوں میں
یہی نہیں ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنے بیٹے جاوید کے نام خط میں لکھا وہ ہم نوجوانوں کے لئے بھی ایک پیغام ہے کہ ؂
دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ، نئے صبح و شام پیدا کر
میں شاخ تاک ہوں ، میری غزل ہے میراثمر
میرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر 
میراطریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
علامہ اقبال بچوں کے لئے بھی بہت اچھے اچھے نظم لکھے جیسے کہ ’’بچے کی دعا‘‘
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمانہ میری 
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری 
علامہ اقبال ایک علمی ادبی اور عملی شخصیت کے حامل تھے انکے اخلاق و اطوار پرکشش تھے یہی سبب ہے کہ ا نکے مداحوں چاہنے والو کا ایک وسیع حلقہ تھا ۔مسلمان تو مسلمان دوسرے مذہب اور فرقے کے لوگوں کے ساتھ مرد عورتوں کے حلقوں میں بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔سچ تو یہ ہے کہ اقبال فکری اور عملی دونوں جہتوں سے ہندوستانی قوم کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یک جہتی کے لئے بے حد کوشاں اور نہایت متمنی رہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا ، نہ کوئی بندہ نواز
ڈاکٹر علامہ اقبال کی مشہور تصانیف میں :علم الاقتصادکی اشاعت ۱۹۰۳ ؁ء ، اسرار خودی ۱۹۱۵ ؁ء، رموزے بے خودی ۱۹۱۸ ؁ء ، پیام مشرق ۱۹۲۳ ؁ ء ، بانگ درا ۱۹۲۴ ؁ء ، زبور عجم ۱۹۲۷ ؁ء ، جاوید نامہ ۱۹۳۲ ؁ء ، ضرب کلیم ۱۹۳۶ ؁ء ، بال جبرئیل۱۹۳۵ ؁ء ، ارمغان حجاز ۱۹۳۸ ؁ء سر فہرست ہیں ۔
علامہ اقبا ل کے بیٹے کے نام جاوید اقبال جن کی ولادت ۱۹۲۴ ؁ء اور بیٹی منیرہ ۱۹۳۰ ؁ء میں ہوئی ۔والدہ جاوید (سردار بیگم)کا انتقال۱۹۳۵ ؁ء میں اور والد علامہ اقبال شیخ نور محمدکا انتقال سیالکوٹ ۱۷ /اگست ۱۹۳۰ ؁ء کو ہوا ،اور والدہ محترمہ امام بی بی کا انتقال ۹/نومبر ۱۹۱۴ ؁ء میں ہوا۔ علامہ اقبال صاحب نے والدہ مرحومہ کی یاد میں شعر لکھتے ہیں۔ 
آسماں تیری لحد پر شبنم آفشانی کرے 
سبز نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 
علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور فکر اور تدبر و تفکر کرتے گذاری، قرآن مجید پڑھتے ،قرآن مجید سوچتے ، قرآن بولتے ، جوں جوں انکا مطالعہ قرآن پڑھتا گیا انکے فکر سب بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی ۔اقبال کی کلام کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکا کلام ہمارے جانے پہچانے شعرا سے بہت کچھ مختلف ہے اقبال کا کلام ہمارے شعور واحساس قلب و وحدان اور اعصاب میں حرکت و حرارت سوج و گداز درد و تپش پیدا کرتا ہے اور پھر ایک ایسا شعلہ جوالہ بن کر بھرک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت زنجیر پگھل جاتی ہے۔ فاسد معاشرہ اور باطل قدر و ں کی ڈھیر جل کر فنا ہو جاتے ہیں ۔علامہ اقبال کویہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی فطری شعری سلیقہ کو انسانیت اور اسلام کے مفاد میں استعمال کیا انکے لئے شعر و ادب کی شہ نشیں پر نمایا جگہ حاصل بہت آسان تھا جیسا کہ انکے بہت سے معاصرین سے بھی کیا مگر اس سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تمام شعری و فنی صلاحیتیں اسلام اور انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیں۔اس طرح علامہ اقبال نے برصغیر ہند و پاک اور فارسی بولنے والے ممالک ایران و افغان کے لاکھو نوجوانوں میں اسلام پر اعتماد و اعتقاد کو بحال کیا ۔شاعر انقلاب شبیر حسن خاں جو ش ملیح آبادی نے انکے فکر و فن کے محاکمہ یہ کہتے ہوئے کہا تھا کہ اقبال ایک سمندر تھے اور کوشش کرکے انہوں نے خود کو ایک دریا میں تبدیل کرلیا تھا ۔تاہم علامہ اقبال اور فکر وفن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انکی شاعری نے اردوشعریات کو بے حد متا ثر کیا ۔دراصل علامہ اقبال کا دل ایک دیوان عام تھا۔ جس میں بچوں ، بڑوں، وطن ، اسلام اور دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی ۔اقبال کا علم اور کتابوں کے ساتھ وہی تعلق تھا جو ایک پیاسے انسان کا ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے سے ہوتاہے۔علامہ اقبال ایک عظیم شاعر تھے ۔ اس لئے یہ بات کہنے میں مجھے جھجھک نہیں کہ علامہ اقبال ہندوستان کا سب سے بڑا قومی ایوارڈ ’’بھارت رتن ‘‘ دیئے جانے کے حقدار ہیں لیکن بد قسمتی سے حکومت نظر انداز کرتی چلی آرہی ہے ۔
جمعرات ۲۱/اپریل ۱۹۳۸ ؁ء کوایک عظیم شاعر علامہ اقبال نے اس دور فانی سے کوچ کیا اور لاہور (پاکستان )کی بادشاہی مسجد کی بائیں جانب تدفین ہوئی۔ رب العالمین انکی مغفرت فرمائے۔ درجات کو بلند کرے اور علیین میں جگہ عطافرمائیں۔(آمین)
نچورتھی کئی صدیوں کی شخصیت تری 
بھلاسکے گی نہ یہ خاکِ عنبریں تجھ کو

«
»

فرانس پھرلہولہان!

غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے