مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق مٹی سے کی، وہ مٹی جس کو جس قدر اوپر اچھال دیں، وہ زمین پر آکر ہی گرے گا، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد بنی نوع انسان کے درمیان توالد وتناسل کا جو سلسلہ چلا اور چلتا آرہا ہے اور قیامت تک چلتا رہے گا، وہ ایک حقیر قطرہ ہے، جو ناپاک بھی ہے اور گھٹیا بھی، اس طرح انسان کی فطرت اور سرشت تو یہی ہے کہ وہ اپنے کو کسی حال میں بڑا نہ سمجھے اور ہر آن، ہرلمحہ اللہ کی بڑائی کا اقرار کرتا رہے، یہ بات اس کی عادت اور فطرت بن جائے اور شیطانی مکر ووساوس سے اس کی زندگی پاک رہے، اس کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی کہ بچہ جب بیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جائیں، تاکہ بچے کے دل کے سادے کاغذ پر اللہ کی بڑائی، رسول کی رسالت، نماز وفلاح وکامیابی کی اہمیت اور اللہ کے علاوہ کسی اور کے معبود نہ ہونے کا خیال ثبت ہوجائے، پھر جب بڑا ہو اور اذان کے کلمات سن شعور میں پہونچ کر سنے تو اللہ کی بڑائی اور اس کے معبود مسجود ہونے کے احساس کے ساتھ نماز کے لئے چل پڑے، اللہ سے فلاح وکامرانی طلب کرے اور اعلان کردے کہ اے اللہ! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو ہی سب سے بڑا ہے، جماعت کے کھڑے ہونے کے لئے اقامت میں کہے جانے والے الفاظ اس احساس کو مضبوط اور ان امور پر شعور کو پختہ کرتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے نماز میں اللہ اکبر کی تکرار اللہ کی بڑائی کے تصور کو قلب ودماغ میں راسخ کرتا ہے، عیدین کی نماز سے قبل تکبیر تشریق کا ورد، سماجی طورپر اللہ کے سب سے بڑے ہونے کا اعلان، جنازہ کی نماز میں چار تکبیر، دشمن کے چلے جانے سے خوش ہونے کے بجائے ذہن میں اللہ کی بڑائی کو راسخ کرنے کا ذریعہ اوراپنے سے بڑے قد وقامت والے جانور کے ذبح کے وقت بھی اللہ اپنی کابڑائی کا خیال بندوں کے دل ودماغ میں باقی رکھنا چاہتے ہیں، مبادا ایسا نہ ہو کہ اپنی بڑائی کا خیال آجائے اور جانور کا گوشت حرام ہوجائے، اس وقت بھی بسم اللہ اللہ اکبر پڑحنے کا حکم اسی وجہ سے ہے کہ تم طاقتور اور قوی نہیں ہو، طاقت ور اور قوی تو صرف اللہ رب العزت ہے اور وہی سب سے بڑا ہے۔اس یقین اور عقیدہ پر استقامت اس قدر ضروری ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر اس چیز کو منع کردیا جس سے بڑے ہونے کا شائبہ بھی پیدا ہوتا ہو، اس بنیاد پر لوگوں سے بے رخی برتنے اور زمین پر اکڑ کر چلنے کو منع کیا گیا اور اعلان فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (سورۃ لقمان:۸۱)
اپنے کو بڑا سمجھنا اس قدر قبیح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہرغرور وتکبر کرنے والے سے پناہ چاہی (سورۃ المومن:۷۲) اللہ رب العزت نے یہ بھی اعلان کیا کہ جو لوگ میری بندگی سے تکبر کرتے ہیں وہ جلد ہی رسوا وذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے، یہاں پر ہمیں حضرت لقمان علیہ السلام کی وہ نصیحت بھی یاد رکھنی چاہئے جسے اللہ رب العزت نے سورۃ لقمان آیت نمبر اٹھارہ میں ذکر کیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں سے تکبر کے ساتھ اپنا چہرہ مت پھیرنا اور زمین پر اکڑ کر مت چلنا، اللہ اکڑ کر چلنے والے متکبر کو پسند نہیں کرتا، اپنی رفتار معتدل رکھنا، آواز پست رکھنا، کیوں کہ تمام آوازوں میں سب سے بُری آواز گدھے کی ہے، اسی مفہوم کی ایک دوسری آیت سورۃ بنی اسرائیل میں ہے کہ زمین پر اتراتے ہوئے مت چلا کرو، اس لئے کہ تم اپنے اس عمل کی وجہ سے نہ تو پہاڑ کی بلندی تک پہونچ سکتے ہو اور نہ ہی زمین کو پھاڑ سکتے ہو، یہ کام تمہارے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔
اونچی آواز سے بولنا، زمین پر اکڑ کر چلنا اورٹخنہ سے نیچے پاجامہ اور ازار کا رکھنا تکبر کی علامت کی وجہ سے ممنوعات میں داخل کیا گیا ہے، جہاں کبر نہیں پایا جائے وہاں زور سے بولنے کی اجازت دی گئی،اس فہرست میں صرف مظلوم آتا ہے، ورنہ اللہ کے نزدیک زور سے بولنا بھی ایک نا پسندیدہ عمل ہے
تکبر کرنے والے کے لیے اللہ رب العزت نے مختلف قسم کے عذاب رکھے ہیں، ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چھوٹی چیونٹیوں کی طرح شکل میں جمع کیا جائے گا، ذلت ورسوائی ان پر مسلط ہوگی، جہنم کی طرف ان کو لے جایا جائے گا، آگ ان کو گھیرلے گی اور جہنمیوں کا پیپ وغیرہ اسے پینے کو دیا جائے گا۔
اسی طرح بخاری ومسلم کی ایک روایت میں ایک ایسے شخص کا واقعہ نقل کیا گیا ہے جو تکبر کی وجہ سے کپڑا گھسیٹ کر زمین پر چلتا تھا، اسے اللہ رب العزت نے زمین میں دھنسا دیا اور وہ مسلسل دھنستا چلا جا رہا ہے اور قیامت تک دھنستاہی رہے گا، ایک دوسری روایت میں چند لوگوں کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخیوں کی فہرست میں متکبرین کو بھی شامل کیا ہے، ایک جگہ ارشاد فرمایا: حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
تکبر نفس کا دھوکہ ہے جو انسان کو سرکشی اوردوسروں کو حقیر سمجھنے پر ابھارتا ہے اس کا یہ عمل اس قدر دراز ہوتا ہے کہ اس کا نام متکبرین میں لکھا جاتا ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے، یہ سخت عذاب اس لیے ہے کہ تکبر اللہ کی چادر ہے، ساری بڑائی اور عظمتیں اسی کے لیے سزا وار ہیں، اب اگر کوئی اللہ کی چادر میں گھسنے کی کوشش کرے گا تو اللہ اس کو ذلیل وخوار اور رسوا دنیا میں کر دیں گے، اور آخرت میں جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے اس کے منتظر ہیں۔
اللہ ورسول کے ساتھ کبر تو یہ ہے کہ اللہ کی بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع وطاعت سے جان بوجھ کر گریز اور سمعنا واطعنا کی جگہ بنی اسرائیل کی طرح سمعنا وعصینا کہے، یعنی سن تولیا، لیکن اس کے خلاف کریں گے، مان کر نہیں دیں گے، اس کے علاوہ کبر کی ایک شکل عہدے، منصب، دولت اور اثر ورسوخ پر بھی اترانا ہوا کرتا ہے اور اس اترانے کی بنیادی وجہ وہی عجب اور اپنے کو بڑا سمجھنا ہوتا ہے ایسے لوگوں کے پاس کبر دوڑ کر جاتا ہے اور وہ اپنے کو بڑا سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے چال، چلن بود وباش، نشست وبرخواست اور گفتگو تک میں کبر کے اثرات وافر مقدار میں پیدا ہو جاتے ہیں، اور وہ بھول جاتا ہے کہ تکبر نے عزازیل کو ذلیل ورسوا کر دیا اور لعنت کا طوق اس کے گلے میں پڑگیا۔اسے اپنے ”میں“ کی فکر ہوتی ہے، مجھ سے کیوں نہیں پوچھا گیا، میرا خیال کیوں نہیں رکھا گیا، میری رائے کیوں نہیں مانی گئی، یہ سب تکبر کے ہی مختلف مظاہر ہیں۔
تکبر سے ملتی جلتی ایک چیز عجب ہوتی ہے، تکبر میں اپنے کو بڑا دوسرے کو حقیر سمجھا جاتا ہے، عجب میں آدمی خود پسندی میں مبتلا ہوجاتاہے، اپنے کاموں کی خود تحسین کرتا ہے، پیٹھ تھپتھپاتا ہے، کہنا چاہیے کہ عجب، کبر سے الگ ہونے کے باوجود کبر کی پہلی منزل ہے، کیوں کہ خود پسندی خود ستائی کے بعد وہ مرحلہ آجاتا ہے، جس میں اپنا سب کچھ بڑھیا اور دوسرے کا کم تر نظر آنے لگتا ہے، یہی کبر ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے کہ تواضع اگر ریا اور دکھاوے کے لیے ہو تو وہ بھی کبر ہے، کیوں کہ وہ تواضع اس لیے اختیار کرتا ہے کہ دنیا اسے متواضع اور منکسر المزاج کہے، حالاں کہ وہ حقیقتا ایسا نہیں ہے، وہ بازی گروں کی طرح لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے، اس کا یہ عمل کبر کے ساتھ دھوکہ دہی سے مل کر اور بھی قابل تعزیر وسزا ہوجاتا ہے، پروفیسر لطف الرحمن کا یہ شعر بے ساختہ قلم پر آگیا۔
عجب طرز انا ہے یہ خاکساری بھی
قریب سے جو دیکھا تو خدا نکلا
یا پھر یہ شعر
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
اس موقع سے سورۃ والنجم کی اس آیت (۲۳) کو ضرور یاد رکھنا چاہیے، جس میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر ارشاد فرما دیا ہے کہ تم اپنے کو مقدس نہ سمجھا کرو، تقویٰ والوں کواللہ خوب جانتا ہے، سورۃ کہف میں ہے کہ وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں۔
تکبر کے اس مرض کا واحد علاج حقیقتا تواضع انکساری ہے جو صرف اللہ کے لیے کیا گیا ہو، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ، جو اللہ کے لیے جھکا اللہ اس کے درجات بلند کرتے ہیں، یہاں ”للہ“ کا لفظ خاص طور سے قابل غور ہے کہ یہ تواضع اور انکساری صرف اللہ کے لیے ہوکسی اور کے ڈر اور خوف سے نہ ہو، دنیاوی افسران، حاکموں اور قائدین کے ڈر سے تواضع اختیار کرنا مفید مطلب نہیں اور نہ ہی اس سے کبر ختم ہوگا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ تواضع، جھکنا، رفعت وبلندی کے حصول کا قدرتی اصول ہے، اونچی سڑک پر چڑھنے کے لیے کمر جھکا کر چڑھنا ضروری ہے، یہی حال پہاڑ پر چڑھنے والوں کا ہوتا ہے،سائیکل اوپر چڑھائی ہو تو جھک کر پیڈل مارنا ہوتا ہے اور نیچی سڑک پر آنا ہو، پہاڑ سے اتر نا ہو، سائکل کو ڈھلان میں لے جانا ہو تو غیر متوازن اور ان بیلنس ہونے کے خوف سے اکڑ کر اُترا جاتا ہے، پیڈل ماری جاتی ہے، اگر اترنے والا ایسا نہ کرے تو وہ غیر متوازن ہو کر کھائی میں جا گرے گا۔
ہم سب کو قدرت کے اس نظام کو سمجھنا چاہیے، اللہ کی بڑائی کے علاوہ اپنے نفس کی ساری برائیوں کو ختم کرنا ہوگا، اللہ کی بڑائی کا خیال بندوں کو آپس میں احترامِ آدمیت سکھاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، اللہ رب العزت ہم سب کو اس احساس کے ساتھ زندگی گذارنے کی توفیق دے کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور اللہ رب العزت کے نزدیک ہمارا شمار فقیروں اور محتاجوں میں ہے۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔
جواب دیں