اللہ کے محبوب اورصالح بندوں کی صفات قرآنی آیات میں پڑھئے

ابونصر فاروق

(۱)     رب نے پوچھا اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا ؟o  اُس نے کہا، میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں بشرکو سجدہ کروں جسے تونے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہےo رب نے فرمایا اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے۔oاوراب روز جزا تک تجھ پر لعنت ہے۔o اُس نے عرض کیا، میرے رب یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کی مہلت دے جب کہ انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔oفرمایا اچھا تجھے مہلت ہے۔oاُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے۔oوہ بولا میرے رب جیسا تونے مجھے بہکایا اسی طرح اب زمین میں  ان کے لئے دل فریبیاں پیدا کر کے اُن سب کو بہکا دوں گا۔oسوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے اُن میں سے خالص کر لیا ہو۔oفرمایا یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔o بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں اُن پر تیرا بس نہ چلے گا،تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں گے۔oاور اُن سب کے لئے جہنم کی وعید ہے۔ o یہ جہنم(جس کا وعدہ ابلیس کی پیروی کرنے والوں سے کیا گیا ہے)اُس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لیے اُن میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ (المائدہ: ۲۳تا۴۴)
    بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ جب آدم زمین پر آئے تو اُن کا اور اُن کی اولاد کاجانی دشمن بن کر شیطان بھی زمین پر آیااور اُس کا مقصد یہ تھا اور ہے کہ پوری انسانی آبادی کو گمراہ کر کے اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر دے اور اس طرح جہنم میں پہنچا دے۔شیطان کا یہ منصوبہ او راُس کا مشن صرف اُن لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے جو قرآن کو معنی اور مفہوم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔جو ایسا نہیں کرتے وہ شیطان کی چالوں سے بچ ہی نہیں سکتے اور جہنم کی آگ اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔شیطان نے انسانوں کے ایک بڑے گروہ کو اپنا شاگرد بنا کر اُن کے ذریعہ مسلمانوں میں یہ بات مشہور کرنی اور پھیلانی شروع کر دی کہ قرآن کو معنی اور مطلب سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔بے سمجھے بوجھے پڑھتے رہو ہر ہر حرف پر دس دس نیکی ملے گی۔مسلمانوں میں ایک بہت بڑی جماعت اسی شیطانی منصوبے کو کامیاب بنانے میں لگی ہوئی ہے۔
    قرآن کی آیات، تعلیم، ہدایات اور احکام سے غافل اور انجان لوگ جانتے ہی نہیں ہیں کہ اللہ کیسے بندوں کو پسند کرتا ہے، اُن کو اپنا ولی بتاتا ہے اور اُن کو دنیا کے ہر غم اور خطرے سے محفوظ رکھتا ہے۔اور کتنے ایسے نمازی، حاجی اورعبادت گزار مسلمان ہیں جو اللہ اور رسول کے نزدیک مومن اور مسلم ہیں ہی نہیں۔اُن کی نمازیں، عبادتیں اور حج و عمرہ اُن کو جہنم میں جانے سے نہیں بچا پائے گا، اس لئے کہ دراصل وہ شیطان کے ساتھی ہیں۔
(۱)     جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے،یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو،اور خوش ہو جاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیاہے۔oہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہوگے تمہیں ملے گااور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔oیہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ (ح -م- السجدہ:۰۳تا۲۳) یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کے مال و اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پربھروسہ کرتے ہیں۔
(۲)    اے لوگو جو ایمان لائے ہو،میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟oایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ oاور وہ دوسری چیزجو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح،اے نبیؐ اہل ایمان کو اس کی بشارت د ے دو۔(الصف:۰۱،۱۱اور۳۱)
    اللہ کا اصلی دین لوگوں تک پہنچے،وہ اس پر عمل کر کے جنت کے حقدار بنیں اور جہنم کی آگ سے بچیں اس کی جتنی کوششیں کی جارہی ہیں اُن کا تعاون کرنے اور اس مقصد کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی جان بھی کھپائی جائے اور اس راہ میں اپنا مال بھی خرچ کیا جائے یہی اصل کامیابی کی تجارت ہے۔ یہ کام کیسے کیا جائے گا اس کا طریقہ اس آیت میں بتایا جارہا ہے۔

 

(۳)    اور اُس شخص سے اچھی بات اورکس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔oاور اے نبی نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں،تم بدی کو اُس نیکی سے دور کر و جو بہترین ہو۔تم دیکھو گے کہ جس کے ساتھ تمہاری عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ oیہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں۔اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔oاگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو،وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(ح م السجدہ:۳۳تا۶۳)
    ہر ایمان کا دعوے دار سب سے پہلے زندگی کا ہر عمل شریعت کے مطابق کر کے اپنے نیک ہونے کا ثبوت دے۔اُس کے ساتھ جو لوگ برائی کریں وہ اُن کا جواب اپنے حسن سلوک سے دے۔بدلہ اور انتقام لینے کی کوشش نہ کرے۔حالانکہ شیطان اکسائے گا اور غصہ دلائے گا کہ سامنے والے سے بدلہ اور اُس کے ہوش ٹھکانے لگا دو۔لیکن اللہ کا نیک بندہ شیطان کی اکساہٹ محسوس کر کے توبہ استغفار کرے گا اور اللہ سے مدد مانگے گا۔اور پھراللہ نیک بندے کے دشمن کے دل میں اپنے بندے کے لئے محبت پیدا کر دے گااور یہی مومن و مسلم کی سب سے بڑی خوش نصیبی ہے۔    
(۴)    جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال۔جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں، ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔(آل عمران:۴۳۱)
     یہاں جو بات کہی گئی تھی اُس میں غصے کو پی جانے اور قصور معاف کرنے کے ساتھ ساتھ مال خرچ کرنے کو کہا گیا یعنی اللہ کے جو محتاج، مجبور اورمعذور بندے ہیں اُن کی اپنے مال سے مدد کرو اور اُن کی خیر خواہی کرتے ہوئے اُن کا سہارا بنو تو اللہ تمہارا سہارا بن جائے گا۔
(۵)    ……اے لوگو جو ایمان لائے ہو جو کچھ مال و متاع ہم نے تم کو بخشا ہے اُس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔(البقرہ: ۴۵۲)
    اس آیت میں بتایا گیا کہ اللہ جو حکم دے رہا ہے اگر اُس پر عمل کرتے ہوئے اپنا مال خرچ نہیں کرو گے اوراپنا مال دوسروں کے لئے چھوڑ کر چلے جاؤ گے تو تمہارایہ مال آخرت میں تمہارے کسی کام نہیں آ ئے گا۔آخرت میں مال نہیں خرچ کرنے والے ظالم کودوستی اورسفارش فائدہ نہیں دے گی۔
(۶)    بیشک نیک لوگ(جنت میں)شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں کافور کی ملاوٹ ہوگی۔oیہ ایک بہتی ہوئی نہر ہوگی جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے اُس کی شاخیں نکال لیں گے۔oہ وہ لوگ ہیں جو(دنیا میں)نذرپوری کرتے ہیں اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف چھائی ہوئی ہوگی۔oاور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔o(اور اُن سے کہتے ہیں کہ)ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلارہے ہیں۔ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔oہمیں تو اپنے رب سے اُس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جس سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔(الدہر:۵تا۰۱)
    دنیا میں اللہ کی رحمت کے سائے میں رہنے والے نیک بندے جب دنیا سے لوٹ کر اپنے رب کے پاس جائیں گے تو مہمان کی طرح اُن کا استقبال ہوگا اور اُن کی مہمان نوازی کی جائے گی۔اُس انعام کی وجہ اُن کا یہ عمل بتایا جارہا ہے کہ اللہ سے محبت کا ثبوت پیش کرنے کے لئے وہ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے تھے۔اور اُن سے بدلہ توکیا شکریہ تک نہیں چاہتے تھے۔اور یہ عمل قیامت کے عذاب سے بچنے کے لئے کرتے تھے۔
(۶)    جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے ہم انہیں اپنے راستے دکھائیں گے،اور یقینا اللہ نیکو کاروں کے ہی ساتھ ہے۔(العنکبوت:۹۶)
    یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے لئے ایک اور انعام کا اعلان کر رہا ہے کہ جو لوگ دنیا کے تمام ضروری فرائض ادا کرتے ہوئے اللہ کے دین کے لئے بھی تن من دھن سے مصروف رہیں گے اللہ تعالیٰ اُن کا رہبر اور رہ نما بن جائے گا اورزندگی کے ہر قدم پر صحیح فیصلہ کرنے اور صحیح تدبیر کرنے میں اُن کی مدد کرے گا۔سوچئے جس کا مشیر کار، رہبرو رہ نما اور پیر و مرشد خود اللہ بن جائے اُس کو دنیاکے کسی کام میں نقصان اورگھاٹا ہو سکتا ہے۔
(۷)    اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے روکا تھاo جنت اُس کا ٹھکانہ ہوگی۔ (نازعات: ۰۴/۱۴) اللہ کے نیک اور محبوب بندے بننے کی ایک اور صفت یہاں یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ اپنے شوق اور خواہش کے غلام نہیں ہوتے ہیں بلکہ اللہ اور رسول کے احکام کی پیروی کرنے والے ہوتے ہیں۔
(۸)    جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں o جو اپنی گواہیوں میں سچائی پر قائم رہتے ہیں oاور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں oیہی لوگ عزت کے ساتھ جنتوں میں رہیں گے۔(المعارج:۲۳/۵۳)
    اللہ کا نیک اور محبوب بندے کی دو اور صفات یہاں بتائی جا رہی ہیں۔ایک یہ کہ وہ جب کسی کے ساتھ کوئی عہد و پیمان کرتے ہیں تو اُس کو ہر قیمت پر نبھاتے ہیں۔عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔جب کسی معاملے میں گواہی دینی ہو تو سچی گواہی دیتے ہیں۔ دنیا کے فائدے کے لئے کبھی بھی جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور یہ دونوں عمل کر کے اپنی نماز کو برباد ہونے سے بچاتے اور نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔جو لوگ نمازی ہو کر بھی ان دو نیکیوں سے محروم ہیں اُن کی نماز تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ہے۔
(۹)    یقینا جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، فرماں بردار ہیں، سچے ہیں، صبر کرنے والے ہیں،اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں،روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے اُن کے لئے  مغفرت(بخشش) اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔(الاحزاب:۵۳)
    اللہ کے نیک اور محبوب بندوں (مرد اور عورتوں)کی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کی بندگی میں، ایمان کے تقاضے پورے کرنے میں،اللہ کی فرماں برداری کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔صبر کرتے یعنی آفت اور مصیبت میں ڈٹے رہتے ہیں، قدم پیچھے نہیں ہٹاتے۔ ہر حال میں اللہ کے آگے جھکے  اور فریاد کرتے رہتے ہیں۔اپنی تدبیر اور دوسروں پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں بلکہ ا للہ کے سہارے رہتے ہیں۔ہمیشہ دل کھول کر صدقہ اور خیرات کرتے رہتے ہیں، روزوں کا اہتمام کرتے ہیں، بے حیائی کا کوئی کام نہیں کرتے ہیں اور ہمیشہ ہر حال میں اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہتے ہیں،دنیا کے کام اور دھندے اُن کو اللہ کی یاد سے غافل نہیں کر پاتے۔ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ ہر طرح کے گناہ معاف کرنے اور بہترین اجر کا وعدہ کرتا ہے۔
(۰۱)    حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں،وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں،اُن سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمہ ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو،پس خوشیاں مناؤ اس سودے جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے،یہی سب سے بڑی کامیابی ہےo اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے،اس کی بندگی بجالانے والے،اس کی تعریف کے گن گانے والے،اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدہ کرنے والے،نیکی کا حکم دینے والے اور بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے، اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا یہ معاملہ کرتے ہیں) اور اے نبی مومنوں کو خوشخبری دے دو۔(التوبہ:۱۱۱/۲۱۱)
    ان آیتوں میں ایک ایسی بات بتائی جا رہی ہے جو عام طور پر مسلمان نہیں جانتے ہیں۔وہ بات یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی آدمی کلمہ پڑھ کر مسلمان بنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں اپنے آپ کو بیچ دیتا ہے۔اُس کی جان،مال،کام کرنے کی صلاحیت،طاقت، لیاقت، قابلیت، سوچ، سمجھ،خواہش، ارادہ سب کچھ اللہ کی ملکیت بن جاتا ہے۔اُس کے پاس کچھ بھی اُس کا اپنا نہیں رہتا ہے۔اُس کا سب کچھ اللہ کی امانت بن جاتا ہے۔وہ اپنے آپ کا مالک نہیں بلکہ اللہ کی امانت کا امانت دار بن جاتا ہے۔اب اگر وہ زندگی کا کوئی کام بھی اللہ کے حکم کے خلاف کرتا ہے تو وہ امانت میں خیانت کامجرم کہلاتا ہے اوراللہ کے ساتھ دغابازی، غداری اور بے ایمانی کرنے کا مجرم بن جاتا ہے۔جو آدمی اللہ کی نگاہ میں مجرم بن گیا وہ اللہ کی رحمت، مغفرت، فضل اور برکت کا حقدار کیسے ہو سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ اُس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرے گا جیسے وہ اپنے کافر و مشرک اور منافق بندوں کے ساتھ کرتا ہے۔
     آدمی جب تک قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھے گا اور قرآن کے احکام کی پیروی نہیں کرے گا، نہ وہ مسلمان بن سکتا ہے نہ مومن، نہ متقی، نہ صالح بلکہ شیطان کا فوجی بنا رہے گا۔ خود بھی جہنم میں جائے گا اوراپنے گھر اور خاندان والوں کو بھی جہنم میں لے جائے گا۔کاش اس مضمون کر پڑھ کر لوگ اللہ کے کلام سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اللہ کے محبوب اورصالح بندے بن جائیں۔

 

 

«
»

انساں کے قول و فعل میں بڑھتا ہوا تضاد!

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی :تازہ سروے کے پریشان کن نتائج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے