اللہ کے عذاب سے بچو!

از: مولانا شمس الہدی قاسمی

میں اپنی اس تحریر کا آغاز حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی اْس کہانی سے کرنے جارہا ہوں، جسے باری تعالی نے قرآن حکیم میں تسجیل کرکے ہمیشہ کے لیے ثبت کردیا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام اللہ تعالی کے پیارے نبی اور بندے تھے، جن کو اللہ تعالی نے باشندگانِ "سدوم" کو راہ راست دکھانے اور ان کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ "سدوم" فلسطین کا ایک شہر تھا، جو "بیت المقدس" اور "اردن" کے درمیان، "بحر میّت" (Dead Sea) کے جنوب میں واقع تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنی زندگی کے اکثر شب وروز "اہالیانِ سدوم" کو احد وصمد اللہ کی عبادت وبندگی، اچھے اعمال پر عمل پیرا ہونے اور ایک پاکیزہ زندگی گزارنے کی پوری جدّ وجہد اور اخلاص کے ساتھ دعوت دیتے رہے۔ آپ علیہ السلام "اہالیانِ سدوم" کو وعظ ونصیحت کرتے رہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام اور اوامر ونواہی کو چیلنج نہ کر?ں اور پاک پروردگار کے بیان کردہ حدود سے تجاوز نہ کریں۔ آپ علیہ السلام نے "باشندگانِ سدوم" کو یہ بھی نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی جنسی تسکین کیلیے عورتوں سے شادی کریں اور ان کو شریک حیات بناکر ایک صاف ستھری زندگی گزاریں۔
بہر حال، "سدوم" کے بدنصیب اور ناپاک باشندوں نے ان کی ایک نہ مانی، انھوں نے تعلیمات ربّانی کو رد کردیا اور غیر فطری طریقے سے جنسی تسکین میں اس طرح ملوّث ہوئے کہ اپنے شہر میں تشریف لانے والے مرد مہمانوں کو بھی اپنی جنسی تسکین کے لیے بے عزت کرنے کے پیچھے پڑگئے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اْن کو ہم جنس پرستی سے روکنے کی بڑی کوشش کی، مگر اْس قوم نے آپ علیہ السلام کی کوششوں کو بارآور نہ ہونے دیا؛ بل کہ وہ قوم آپ علیہ السلام کو چیلنج کرنے لگی اور اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ کہنے لگی کہ اگر آپ (علیہ السلام) اللہ کے سچے نبی ہیں، تو اللہ تعالی ہم پر عذاب بھیجیں گے۔ 
آپ علیہ السلام اْس قوم سے اِس قدر حیران وپریشان ہوئے کہ آخر کار بارگاہِ خداوندی میں دستِ دعا دراز کرکے، اپنے قادر مطلق، اللہ سے اْس قوم پر عذاب کے بھیجنے کی درخواست کردی۔ پھر وہی ہوا، جو ہونا تھا۔ آپ علیہ السلام کی دعا قبول ہوگئی۔ اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو حکم دیا کہ رات میں کسی وقت اْس شہر (سدوم) کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ جب اللہ تعالی کا عذاب آیا؛ تو اِس طرح آیا کہ پورا شہر الٹ دیا گیا۔ اْن پر پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ پورا شہر تباہ وبرباد ہوگیا اور صفح? ہستی سے مٹادیا گیا۔ یہ سب اْن ناپاک اہالیانِ سدوم کے بدترین اور قبیح فعل کی وجہ سے ہوا۔ (اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے)
"ہم جنس پرستی" کے حوالے سے دنیا کے متعدد ممالک کی موجودہ صورت حال، اہالیانِ سدوم سے کچھ مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی کتاب، قرآن حکیم کی یہ کہانی ہم جیسے بہت سے افراد کے ذہن ودماغ میں گردش کر رہی ہے کہ کہیں کسی وقت اللہ کا عذاب نہ آجائے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا پیارا وطن: ہندوستان ہم جنس پرستی کے حوالے سے صاف ستھری تصویر رکھتا تھا؛ کیوں کہ ہم جنس پرستی کو ہندوستان میں ایک جرم (Crime) گردانا جاتا تھا؛ مگر چند لوگوں کی درخواست کو پیش نظر رکھ کر، ملک کی عدالت عظمی نے بروز جمعرات، 6/ستمبر 2018 کو یہ فیصلہ سنایا کہ برضا ورغبت اگر دو بالغ افراد ہم جنس پرستی کرتے ہیں؛ تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ یعنی اس جرم عظیم کو سرے سے جرم کی ہی فہرست سے ہی نکال دیا؛ جب کہ برطانوی دور سے ہندوستان کیقوانین کی دفعہ 377 کے تحت ہم جنس پرستی ایک جرم تھا، جس کی سزا عمر قید، یا پھر دس سال تک قید اور جرمانے کی بھی ادائیگی تھی۔ ذیل میں منسوخ دفعہ 377 ملاحظہ فرمائیں:
377. Unnatural offences: Whoever voluntarily has caal intercourse against the order of nature with any man

«
»

تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ ارتداد کے دہانے پر….

مشرق کاجنازہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا دھوم سے نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے