اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھیں، اور پھر ان کی وضاحت فرمائی کہ جو آدمی کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے، مگر اس کو کرنہیں پاتا، اللہ تعالیٰ اس کی ایک کامل نیکی لکھ دیتے ہیں اور اگر ارادہ کرکے اس کو کر گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ نیکیاں اس کی لکھ دیتے ہیں، اور اگر وہ برائی کا ارادہ کرتا ہے مگر اس کو کرتا نہیں (اللہ کے خوف سے) تو اللہ تعالیٰ اس کی بھی ایک کامل نیکی لکھ دیتے ہیں، اور اگر وہ ارادہ کرکے اس کو کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک برائی لکھ دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
ایک برائی پر ایک، لیکن اچھائی پر سات سو گنا اجر: محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ کے فرمان کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نیک عمل کا ارادہ کرنے پر بھی ایک نیکی ہے، اور گناہ کا ارادہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس گناہ سے بچنے پر بھی ایک نیکی ملتی ہے۔ ایک گناہ کرنے پر صرف ایک برائی تحریر کی جاتی ہے، لیکن ایک نیک عمل کی ادائیگی پر دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ خلوص وللٰہیت کے جذبہ سے سرشار ہوکر اس سے بھی زیادہ بندہ اجر وثواب کا مستحق بن سکتا ہے۔
انسان کے اعمال کی اقسام: ۱) پہلی قسم وہ ہے جو انسان کے صرف دل میں آئے۔ ظاہر ہے کہ انسان اس پر قابو رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس پر کوئی اجروثواب یا عذاب نہیں ہے، یعنی اگر کسی شخص کے صرف دل میں کسی اچھے یا برے کام کے کرنے کی بات آئی، لیکن کوئی ارادہ نہیں ہوا تو اس پر نہ کوئی اجروثواب ہے اور نہ ہی کوئی پکڑ۔ ۲) اگر نیک کام کرنے کی بات دل میں آئی اور اس کا ارادہ بھی ہوگیا تو وہی حدیث میں مذکور ہے کہ کسی شخص نے نیک کام کے کرنے کا ارادہ کیا مگر اس پر عمل نہیں کرسکا تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک نیکی کا ثواب عطا فرمائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے ارادہ کیا کہ وہ صدقہ کرے گا، مگر پھر وہ صدقہ نہیں کرسکا تو وہ شخص ارادہ کرنے پر بھی ایک نیکی کے اجروثواب کا مستحق بنے گا۔ ۳) اگر کسی شخص نے ارادہ کرنے کے بعد نیک کام کرلیا تو پھر اس کو دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اجرو ثواب ملے گا۔ ۴) اگر کسی شخص نے برائی کا ارادہ کیا مگر اس نے اللہ کے خوف کی وجہ سے اس برائی سے اپنے آپ کو بچا لیا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ ایک نیکی عطا فرمائے گا۔ مثلاً یتیم کا مال ہڑپ کرنے کا ارادہ کیا مگر اللہ کا خوف اِس ارادہ کی تکمیل سے مانع بن گیا تو اُسے اللہ کے خوف کی وجہ سے اِس برائی سے بچنے پر ایک نیکی ملے گی۔ لیکن اللہ کے خوف سے نہیں بلکہ اس گناہ پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے وہ گناہ نہیں کرسکاتو پھر وہ اس فضیلت کا مستحق نہیں ہوگا بلکہ اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی۔ مثلاً ایک شخص ڈانس پارٹی میں شرکت کے لئے جارہا تھا مگر راستہ میں گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہوسکا تو اس گناہ کے ارتکاب نہ کرنے کے باوجود اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی۔ ۵) اگر کسی شخص نے گناہ کا ارتکاب کرلیا تو اس کے نامہ اعمال میں ایک برائی لکھی جائے گی، جس نوعیت کا گناہ ہوگا اسی نوعیت کی سزا بھی ملے گی۔
اعمال صالحہ پر اجر وثواب کی کثرت کیوں؟ گزشتہ امتوں کے مقابلہ میں آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت کے لوگوں کی عمریں بہت کم ہیں، جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگوں کی عمریں ۶۰ سے ۷۰ سال کے درمیان ہیں۔ (ترمذی وابن ماجہ) پہلی امتوں کے اعمال کی برابری کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کے لئے نیک اعمال کا اجروثواب بڑھایا ،چنانچہ ایک نیکی پر دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اجروثواب کا وعدہ کیا گیا جیسا کہ پوری انسانیت کے نبی کا فرمان بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پاک کلام میں متعدد مرتبہ نیکی پر اجروثواب کی کثرت کے متعلق اصول کو بیان فرمایا ہے۔
ہماری مختصر وقیمتی زندگی: ۶۵ سال کی زندگی کو معیار بناکر اگر ہم اپنی زندگی کا حساب لگائیں اور بالغ ہونے سے قبل کی زندگی کے تقریباً ۱۵ سال کم کردیں تو صرف ۵۰ سال کی زندگی بچتی ہے۔ ۶سے ۸ گھنٹے روزانہ سوکر زندگی کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ سونے میں نکل جاتا ہے۔ زندگی کا تقریباً ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ کاروبار یا ملازمت وغیرہ میں لگ جاتا ہے۔ زندگی کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ جو ہمارا سونے میں لگتا ہے، اس کو عبادت بنانے کے لئے ساری مخلوق میں سب سے افضل اور سارے نبیوں کے سردار نبی اکرم ﷺ کا فارمولہ یہ ہے کہ : جو شخص عشاء کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھے، گویا اس نے آدھی رات عبادت کی اور جو فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے گویا اس نے پوری رات عبادت کی۔ (مسلم) کاروبار یا ملازمت میں لگنے والے زندگی کے ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ کو عبادت بنانے کے لئے شریعت اسلامیہ نے یہ اصول وضابطہ بنایا کہ: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو، ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (مسند احمد) ہم اپنی زندگی کے مابقیہ قیمتی حصہ کا صحیح استعمال کرلیں تو ان شاء اللہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ٹی وی، واٹس اپ، فیس بک، موبائل اور انٹرنیٹ پر ہماری مصروفیات دن بدن بڑھتی جارہی ہیں حتی کہ اللہ کے گھر یعنی مساجد بھی موبائل کی ٹون سے محفوظ نہیں ہیں۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ نئی ٹکنولوجی کا استعمال صرف جائز مقاصد کے لئے کریں، اور نئی ٹکنولوجی میں ہماری مصروفیت قرآن کریم کی تلاوت اور نماز وغیرہ کی ادائیگی سے رکاوٹ کا سبب نہ بنے ۔
ہماری زندگی کا اصل مقصد: ہماری زندگی کا اصل مقصد اللہ کی عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کاحصول اور ا س کی خوشنودی کی بدولت جہنم سے نجات اور ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہونا ہے۔ جنت کیا ہے؟ جنت کی نعمتوںکا تصور بھی انسان کی طاقت سے باہر ہے جیساکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ چیزیں تیار کررکھی ہیں، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا ہے نہ کانوں نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے، اگر جی چاہے یہ آیت پڑھ لو: ’’ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی تازگی اور سرور کے لئے کیا چیزیں پوشیدہ کرکے رکھی گئی ہیں۔‘‘ (بخاری) جہنم کیا ہے؟ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلہ میں سترواں حصہ ہے (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں)۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! (کفار اور گناہگاروں کے عذاب کے لئے تو) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا : دنیا کی آگ کے مقابلہ میں جہنم کی آگ انہتر گنا بڑھ کر ہے۔ (بخاری) اللہ تعالیٰ ہمیں دنیاوی فانی وقتی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کی تیاری کرنے والا بنائے۔
چند آیات قرآنیہ جن میں نیکی پر اجروثواب کی کثرت مذکور ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا کہ نیک عمل پر اجروثواب میں کثرت ہے لیکن ایک برائی پر ایک ہی برائی کی سزا دی جائے گی ، اگر اس گناہ یا برائی سے سچے دل سے معافی نہیں مانگی گئی۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شرک جیسا سب سے بڑا گناہ بھی دنیا میں سچی توبہ کرنے سے معاف ہوجاتا ہے۔ یہاں اختصار کے پیش نظر صرف چند آیات پیش خدمت ہیں: ۱) جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کرتے ہیںان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اُگائے اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے۔ اللہ بہت وسعت والا اور بڑے علم والا ہے۔ (سورۃ البقرہ ۲۶۱) ۲) اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتاہے۔ اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے کئی گنا کردیتا ہے۔ اور خود اپنے پاس سے عظیم ثواب دیتا ہے۔ (سورۃ النساء ۴۰) ۳) جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا، اس کے لئے اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ہے اور جو شخص کوئی برائی لے کر آئے گا تو اس کو صرف اسی ایک برائی کی سزا دی جائے گی اور ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ (سورۃ الانعام ۱۶۰) ۴) جو کوئی نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر بدلہ ملے گا۔ (سورۃ النمل ۸۹) ۵) جو شخص کوئی بھلائی کرے گا، ہم اُس کی خاطر اس بھلائی میں مزید خوبی کا اضافہ کردیں گے۔ (سورۃ الشوریٰ ۲۳)
چند اعمال صالحہ جن پر بڑے اجروثواب کا وعدہ ہے:
۱) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسجد حرام میں نماز کی ادائیگی ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ (مسند احمد وصحیح بن حبان) کسی بھی شخص پرپوری زندگی میں ایک لاکھ نمازیں فرض نہیں ہوتیں۔ مگر مسجد حرام میں ایک نماز کی ادائیگی پر پوری زندگی کی نمازوں سے زیادہ اجروثواب ملے گا۔ ۲) مسجد نبوی میں ایک روایت (صحیح مسلم) کے مطابق ایک ہزار، جبکہ دوسری روایت (ابن ماجہ) کے مطابق پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملے گا۔ جیسا خلوص ہوگا ویسا ہی اجروثواب کا مستحق ہوگا ان شاء اللہ۔ ۳) شب قدر کی عبادت ہزار مہینوں یعنی ۸۳ سال کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔ (سورۃ القدر) ۴) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رمضان کی عمرہ کی ادائیگی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ (مسلم) ۵) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی اجروثواب میں ۲۷ درجہ زیادہ ہے۔ (بخاری ومسلم) ۶) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز فجر کی جماعت کے ساتھ ادائیگی کے بعد سورج نکلنے تک اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے، پھر دو رکعات نفل پڑھتا ہے تو اسے حج وعمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ (ترمذی) ۷) نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے قرآ ن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ایک نیکی ہے او رایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک حرف ہے بلکہ" ا" ایک حرف ہے، "ل" ایک حرف ہے اور" م" ایک حرف ہے۔ (ترمذی) ۸) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایک دن میں سبحان اللہ وبحمدہ سو مرتبہ پڑھا اس کے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردئے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری) ۹) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ہر روز ہزار نیکیاں کمانے سے عاجز ہے؟ حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا، ہزار نیکیاں کمانے کی کیا صورت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سو بار سبحان اللہ پڑھ لیا کرو، اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی، یا ہزار خطائیں مٹادی جائیں گی۔ (مسلم) ۱۰) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک ہوکر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔ (بخاری ومسلم)
الحمد للہ! ہم ابھی بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لئے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔لہذا ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔‘‘ (سورۃ النور ۳۱) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کہہ دو کہ: ’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، یعنی گناہ کررکھے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘ (سورہ الزمر ۵۳)
جواب دیں