ترتیب و اضافہ: عبدالعزیز
سورہ الزمر ۳۵ سے مشرکین کو دعوت دی تم نے خدا سے بدگمان اور مایوس ہوکر شرک و شفاعت کے جو چور دروازے نکالے ہیں یہ تمہاری نجات کی راہ نہیں کھولیں گے بلکہ تمہاری نامرادی میں اضافہ کا سبب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فلاح کی راہ یہ بتائی ہے کہ صدق دل کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو اور قرآن کی پیروی کرو جو اللہ نے تمہاری ہدایت کیلئے اتاری ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اے نبی! کہہ دو میرے بندوں سے جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تمام گناہوں کو معاف کر دے گا، وہ بڑا غفور رّحیم ہے“ (۹۳-۳۵)
صاحب تدبر قرآن اس آ یت کی روشنی میں لکھتے ہیں:
”شرک و شفاعت کے عوامل میں سے ایک بڑا عامل خدا سے مایوسی یا بدگمانی بھی ہے۔ اس مایوسی و بدگمانی کے متعدد پہلو ہیں جن کی وضاحت ان کے محل میں ہوچکی ہے۔ از آنجملہ یہ بھی ہے کہ مشرک کو خدا کی رحمت و مغفرت پر بھروسہ نہیں ہوتا، اس وجہ سے وہ اپنے تصور کے مطابق خدا کے کچھ فرضی مقربین تراشتا ہے اور ان کی عبادت کرکے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ خدا کے ہاں اس کے سفارشی بن کر اس کی مغفرت کرا دیں گے۔ اس وہم میں جو لوگ مبتلا ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے یہ پیغام دلوایا کہ ان سے کہو کہ ’اے میرے بندو؛ جنھوں نے اپنی جانوں پر گناہ یا شرک کرکے زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے مایوس ہوکر تم دوسروں کا سہارا نہ پکڑو اور اسی سے مغفرت کے طالب بنو، اللہ بڑا ہی غفور رحیم ہے۔ اس کے جو بندے اس کی طرف اخلاص کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں وہ ان کے ہر قسم کے گناہ معاف کر دیتا ہے‘۔
اس آیت کا لب و لہجہ دلیل ہے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو فی الواقع اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ نہ ہر شخص خدا تک رسائی کا اہل ہوتا اور نہ ہر شخص کی بات کو خدا لائق التفات سمجھتا۔ اس غلط فہمی کے سبب سے وہ دوسرے وسائل و وسائط کا سہارا لیتے ہیں؛ حالانکہ خدا کے متعلق اس قسم کا خیال اس سے مایوسی اور بدگمانی کے ہم معنی ہے جو کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے“۔
’روح القرآن‘ کے مفسر مولانا ڈاکٹر اسلم صدیقی سورہ الزمر کی ۳۵ویں آیت کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے:
قریش کو تنبیہ:
آیت کے شروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ لوگوں سے یہ بات کہیں۔ اس کے فوراً بعد اے میرے بندو! کہہ کر خطاب فرمایا گیا ہے۔ صاحب تفہیم القرآن اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے ان الفاظ کی عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ”اے میرے بندو“ کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا سب انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بدترین معنوی تحریف اور اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہئے۔ جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سن کر جھوم اٹھے گا، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہوا جاتا ہے، کیونکہ قرآن تو از اول تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ قرار دیتا ہے۔ اور اس کی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود بندے تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے رب نہیں بلکہ رسول بناکر بھیجا تھا اور اس لئے بھیجا تھا کہ خود بھی اسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے آسکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفارِ قریش کے درمیان کھڑے ہوکر ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکایک یہ اعلان کردیا ہوگا کہ تم عبدالعزیٰ اور عبد شمس کی بجائے در اصل عبد محمد ہو۔ اعاذناللہ من ذالک۔ (تفہیم القرآن)
غلط فہمی کا ازالہ:
اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ کفار میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جنھوں نے دورِ جاہلیت میں بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کیا تھا، بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل کیا تھا اور بہت سی عزتوں کے فانوس بجھائے تھے۔ جب انھیں ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور اسلامی تعلیمات کو انھوں نے غور سے دیکھا اور سنا تو وہ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و دعوت سے تو متاثر ہوئے لیکن یہ بات ان کے ذہن میں نہیں آتی تھی کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد بھی ہمارے بہت بڑے بڑے گناہ کیسے معاف ہوجائیں گے۔ ہم اسلام لاکر ایک طرف تو اپنے قبیلے سے کٹ جائیں اور ان تمام مصائب کا نشانہ بنیں جسے مسلمان اسلام لانے کی وجہ سے برداشت کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے گناہ بھی معاف نہ ہوں تو پھر اسلام قبول کرنے سے کیا فائدہ۔
بعض لوگوں کا گمان یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی عظیم اور اتنی بلند ہے کہ اس تک کسی کی رسائی ممکن نہیں۔ کم از کم گنہگار تو وہاں کسی طور بار نہیں پاسکتے۔ یہ سوچ کر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت سے مایوس ہونے لگتے۔ اس مایوسی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ان کے ذہن میں آتا کہ ہم ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے یہاں سفارشی بنائیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں۔ اس طرح سے شاید ہماری مغفرت کا کوئی سامان ہوسکے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے ان دونوں غلط تصورات سے نکالنے کیلئے اس آیت کریمہ کا نزول فرمایا۔ یا عبادی کہہ کر انھیں حوصلہ دیا کہ تم نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں، اس کے باوجود تم میرے بندے ہو۔ فرق اتنا ہی ہے کہ تم فرماں بردار بندے نہیں بلکہ نافرمان بندے ہو، جس طرح کوئی شخص نافرمان ہوکر بھی اپنے نسب کا انکار نہیں کرسکتا، اسی طرح کوئی شخص نافرمان ہوکر بھی اپنی عبدیت کا انکار نہیں کرسکتا۔
تم نے گناہوں کے ارتکاب سے اپنے اوپر بہت زیادتی کی کہ جس خالق نے تمہیں تخلیق کیا، تمہیں پروان چڑھایا، تمہیں اعضاء و جوارح دیئے، تمہیں قوتِ عقل سے نوازا، مختلف نعمتیں تمہیں عطا کی جاتی رہیں۔ کیا اس کا یہ نتیجہ ہونا چاہئے تھا کہ اسی کے عطا کردہ اعضاء و جوارح اور عقل و شعور کو تم اسی کی نافرمانی میں استعمال کرو۔ اس کی بے شمار نعمتیں پاکر تم بجائے شکر کے کفرانِ نعمت کرو۔ اس طرح تم نے اپنے جسم کے ایک ایک جوڑ اور اپنی عقل و دانش کی ایک ایک لہر پر ظلم توڑا اور زیادتی کی؛ لیکن ان سب کے باوجود تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جب کوئی شخص اپنی عبدیت کے احساس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ جب وہ سب دروازے بند کرکے اللہ تعالیٰ ہی کے دروازے پر آبیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ معاف فرما دیتا ہے، کیونکہ وہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے“۔ (یو این این)
جواب دیں