علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیس، منظر اور پس منظر

فضل الرحمٰن، لکھنؤ

سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ کے روبرو جاری سماعت پر سبھی کی نگاہیں مرکوز
مسلمانوں کے تعلیمی و ثقافتی تشخص سے وابستہ عدالتی فیصلہ کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کا مقدمہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت والی سات رکنی بنچ کے سامنے زیر سماعت ہے جس پر پوری دنیا کی علیگ برادری سمیت باشعور مسلمانوں اور دیگر لوگوں کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ گزشتہ 9؍ جنوری کو شدت سے انتظار کیے جانے والے معاملہ کی سماعت کا آغاز سات رکنی بنچ کے سامنے ہوا اور میڈیا میں اس کے تمام پہلو سامنے آنے لگے، کچھ تو مقدمہ کی سماعت میں فریقوں کی جانب سے کی جانے والی بحث کی رپورٹنگ کی صورت میں تو کچھ مختلف میڈیا پلیٹ فارموں پر متنوع اور متضاد آراء کی صورت میں، جس کے باعث میڈیا کو معاملہ کو منفی رنگ دینے اور مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کا موقع بھی ہاتھ آگیا۔ سماعت کی اگلی تاریخ 23؍ جنوری مقرر کی گئی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مسلم اصلاحی تحریکوں میں دلچسپی رکھنے والے افراد اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی داغ بیل عظیم مصلح اور دانشور سرسید احمد خاں نے ڈالی تھی ۔ انہی کی ہمہ جہت کوششوں اور فکری و عملی جدوجہد سے علی گڑھ میں 24؍ مئی 1875ء کو مدرسۃ العلوم کی بنیاد پڑی جسے دو سال بعد محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کا نام دیا گیا۔ یہی کالج ایک طویل جدوجہد اور تحریک (1898 تا 1920) کے بعد 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے ایک یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔ اس سلسلہ میں سنٹرل لیجسلیچر میں ایک قانون لایا گیا اور محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج کے تمام کورسیز، اس کی تمام املاک، عملہ کے اراکین اور طلباء یونیورسٹی کا حصہ بنے۔ 17؍ دسمبر 1920ء سے یونیورسٹی نے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس جدوجہد میں ایک اہم کردار 1886ء میں قائم ہونے والی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے بھی نبھایا جس نے گرلز کالج کے قیام کی بھی راہ ہموار کی۔
اس پورے معاملہ پر اے ایم یو کی تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے اور اے ایم یو کے شعبہ تاریخ کے استاد پروفیسر محمد سجاد کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ قانونی پہلوؤں سے اس آئینی مسئلہ کا جائزہ لے رہا ہے جس پر کوئی تبصرہ فی الحال نہیں کیا جا سکتا، لیکن جہاں تک مسلمانوں کے ذریعہ اے ایم یو کے قیام کی تاریخ کا تعلق ہے تو اس بات کو 1967ء میں عزیز باشا آف مدراس بنام حکومت ہند مقدمہ میں بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے اور اس کے تاریخی تسلسل کا حوالہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے محض اس بنیاد پر اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ نہیں مانا کہ یہ پارلیمنٹ میں لائے گئے مرکزی قانون کے تحت قائم کردہ یونیورسٹی ہے اور ملک کی آزادی کے بعد اب یہ ایک سنٹرل یونیورسٹی ہے جس کا خصوصی ذکر آئین ہند میں قومی اہمیت کے حامل کے ادارے کے طور پر کیا گیا ہے۔ عزیز باشا کے مقدمہ میں کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے دستور ہند کے آرٹیکل 30 کے تحت قائم ہونے والی کوئی سنٹرل یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتی، جس کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ موجودہ سات رکنی بنچ کو کرنا ہے اور ہمیں فیصلہ کا انتظار کرنا چاہیے۔
پروفیسر سجاد نے کہا کہ اگست 1920 میں سنٹرل لیجسلیٹیو کونسل میں اے ایم یو کے بل پر اپنی بات رکھتے ہوئے سر محمد شفیع نے کہا تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا مجوزہ یونیورسٹی کو خاطر خواہ مالی تعاون دے گی جو ایک تعلیمی ادارے کے طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سود مند ثابت ہوگی۔
پروفیسر سجاد کے بقول برطانوی راج میں پاس ہونے والے ایکٹ کے تحت اے ایم یو کورٹ کے سبھی اراکین مسلم ہی ہوا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد 1951ء میں ایک ترمیمی بل آیا اور غیر مسلموں کو بھی اے ایم یو کورٹ کا ممبر بنایا جانے لگا، جو ملک کے سیکولر کردار کا عکاس تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد اس وقت ملک کے وزیر تعلیم اور ڈاکٹر ذاکر حسین اے ایم یو کے وائس چانسلر تھے۔
اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم اور عزیز باشا کیس
1965ء میں اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کی گئی جس سے اے ایم یو کورٹ، گورننگ باڈی کے بجائے ایک ایڈوائزری باڈی بن گئی اور ایگزیکیٹیو کونسل کے اراکین اور وائس چانسلر کی تقرری صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ کی جانے لگی۔ اس کے علاوہ مسلم طلباء کے لیے دینیات کی لازمی تعلیم کو بھی ختم کردیا گیا۔ اسی کے دو سال بعد اکتوبر 1967ء میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے مشہور ایس عزیز باشا کیس میں یہ فیصلہ دیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ملک گیر تحریک چلی اور بالآخر 1981ء میں مرکزی حکومت نے ایک ترمیمی ایکٹ لاکر یہ کہا کہ اے ایم یو مسلمانوں کے ذریعہ قائم کردہ ادارہ ہے اور یہ مسلمانوں کے تعلیمی و ثقافتی ترقی کے لیے کام کرے گا۔
ا ے ایم یو ترمیمی ایکٹ آنے کے بعد اقلیتی اداروں کے سلسلہ میں مختلف عدالتوں سے کئی فیصلے صادر ہوئے جن کی روشنی میں اے ایم یو نے 2005 میں میڈیکل کے پی جی کورس میں مسلم طلباء کے لیے 50 فیصد ریزرویشن نافذ کر دیا۔ابھی تک اے ایم یو نے نہ تو داخلہ میں اور نہ ہی ملازمتوں میں مسلم امیدواروں کے لیے ریزرویشن نافذ کیا تھا۔ 2005 میں میڈیکل پی جی کورس میں ریزرویشن نافذ کرنے کے فیصلے کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس میں جسٹس ارون ٹنڈن نے 4؍ اکتوبر 2005 کو عزیز باشا کیس میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بنیاد بناکر نہ صرف اے ایم یو کے ریزرویشن کے فیصلے کو رد کردیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔اس طرح انہوں نے اے ایم یو ترمیمی ایکٹ 1981 کو نظر انداز کر دیا۔ اس کے خلاف اب سپریم کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہے جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ اے ایم یو اولڈبوائز ایسوسی ایشن، اے ایم یو لائرس ایسوسی ایشن سمیت 7 اپیلوں پر سات رکنی بنچ سماعت کر رہی ہے۔
اس سلسلہ میں اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، لکھنؤ چیپٹر کے صدر ڈاکٹر شکیل قدوائی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم طلباء و طالبات میں جدید تعلیم کی ترویج و اشاعت میں اے ایم یو کا کردار سبھی پر واضح ہے۔ اے ایم یو اور اس سے قبل ایم اے او کالج کے قیام کے لیے غیر مسلموں نے بھی خطیر رقومات دی ہیں۔ ان سب کا مقصد مسلمانوں کی جدید تعلیم کے لیے قائم ہونے والے ادارے کی تاسیس میں اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اے ایم یو مسلمانوں کی امنگوں کا مرکز ہے اور ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر اور حقائق کی بنیاد پر اے ایم یو ایکٹ اور دستور ہند کی شقوں کی تشریح کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اے ایم یو کو اس کا حق دلانے کے لیے تمام فریق مضبوطی سے کیس لڑ رہے ہیں۔ امید ہے کہ 1968 کے فیصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ درست تجزیہ کرے گا اور اس کے تضادات کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی دستور کے آرٹیکل 30 کی معنویت پر بھی اقلیتی کردار کے حامی فریقوں کے وکلاء نے مضبوطی سے اپنے دلائل رکھے ہیں۔ آئین کی اس دفعہ میں اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے یعنی انتظام و انصرام کا حق دیا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے انصاف کرے گی۔
اے ایم یو کے تعلیم یافتہ مشہور انگریزی صحافی اور کالم نگار مسٹر وجیہ الدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اے ایم یو کی صد سالہ تقریب میں اے ایم یو برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ’’مِنی انڈیا‘‘ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان میں کثرت میں وحدت کا ایک نمونہ ہے اور اس کے انوکھے کردار کا تحفظ حکومت ہند کی ذمہ داری ہے، حالانکہ حکومت ہند نے سپریم کورٹ میں اپنے سابقہ حلف نامہ (جو یو پی اے حکومت کے دور میں داخل کیا گیا تھا) کو 2016ء میں واپس لے کر نیا حلف نامہ داخل کرکے اپنی منشا اور اپنی نیت ظاہر کردی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم نے اے ایم یو کے بارے میں جو بات کہی تھی اسے برت کر دکھانا چاہیے۔ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی مخالفت کرنے والوں کو اے ایم یو کی تاریخ پڑھنی چاہیے۔ اے ایم یو کے پہلے گریجویٹ ایشوری پرساد تھے، اے ایم یو میں مذہب و زبان، جنس و علاقہ کے نام پر کوئی تفریق نہیں کی جاتی اور ہاسٹل ہو یا لائبریری، کلاس روم ہوں یا چائے خانے، رائڈنگ کلب ہو یا ڈبیٹنگ کلب، ڈائننگ ہال ہوں یا کھیل کے میدان، سب جگہ سبھی باہم شیرو شکر رہتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ عدالت عالیہ اے ایم یو کے تشخص کی حفاظت کرے گی۔
حکومت ہند کی ریزرویشن پالیسی اور مفاد عامہ کا نعرہ
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے باعث ابھی تک یہاں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی ریزرویشن نافذ نہیں ہے، جس کا ذکر سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ کے سامنے گزشتہ 9؍ جنوری کو شروع ہونے والی بحث میں حکومت ہند کے سالیسٹر جنرل مسٹر تشار مہتا نے کیا۔ مسٹر مہتا نے حکومت ہند کا موقف رکھتے ہوئے کہاکہ مرکزی حکومت نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کا تائیدی حلف نامہ اس لیے واپس لیا کیوں کہ سابقہ حکومت کا حلف نامہ ‘مفاد عامہ کے خلاف’ تھا اور ایس سی، ایس ٹی ریزرویشن کی عوامی پالیسی کی نفاذ کی راہ میں یہ رکاوٹ ہے۔مہتا نے کہا کہ اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینے سے یہاں مسلم طلباء اور ملازمین کو 50 فیصد ریزرویشن ملنے لگے گا اور ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور ای ڈبلیو ایس کے امیدوار ریزرویشن نہیں پائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اے ایم یو قومی اہمیت کا حامل تعلیمی ادارہ ہے۔ کوئی بھی یونیورسٹی جسے قومی اہمیت کا ادارہ قرار دیا گیا ہو وہ اقلیتی ادارہ نہیں ہوسکتا، بھلے ہی اس کا قیام یا اس کا انتظام و انصرام اقلیتوں کے ذریعہ کیا گیا ہو۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2018ء میں قومی کمیشن برائے درج فہرست اقوام کے چیئرمین اور آگرہ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رام شنکر کٹھیریا نے ریزرویشن پالیسی کے حوالے سے اے ایم یو کو نشانہ بناتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ اے ایم یو کو ریزرویشن پالیسی نافذ کرنی پڑے گی، الّا یہ کہ وہ یہ ثابت کردے کہ وہ ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ ہے۔
سپریم کورٹ میں بی جے پی حکومت کی جانب سے نیا حلف نامہ داخل کرنے اور اس طرح کے بیانات کے بعد سے کچھ نام نہاد افراد نے بھی اے ایم یو کے نام پر سرخیاں بٹورنی شروع کردیں۔ دلت اسکالر مسٹر دلیپ منڈل نے حال ہی میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ اے ایم یو کو وقت رہتے ایس سی ایس ٹی ریزرویشن لاگو کردینا چاہیے تھا اور اب تو اس کا اقلیتی کردار ختم ہونے والا ہے ۔
57 برسوں کی قانونی رسہ کشی
اے ایم یو کے ایکٹ میں 1951ء اور 1965ء میں ترامیم کی گئیں۔ 1967ء میں ایس عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کے ذریعہ آئینی دفعات کی محدود توضیح نے یونیورسٹی کا اقلیتی کردار چھین لیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تاریخی مقدمہ میں اے ایم یو فریق بھی نہیں تھا۔
جہاں تک ریزرویشن کا معاملہ ہے تو اے ایم یو میں فی الحال صرف انٹرنل یعنی داخلی کوٹا ہی نافذ ہے۔اے ایم یو میں داخلہ کے خواہشمند امیدواروں کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے: انٹرنل اور ایکسٹرنل۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے امیدوار جب یہیں پر دوسرے کورس میں داخلہ چاہتے ہیں تو انہیں انٹرنل گردانا جاتا ہے، جن کے لیے 50 فیصد کوٹا طے ہے۔کسی بھی کورس میں داخلہ یا یونیورسٹی میں ملازمت کے لیے مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں دیا جاتا۔داخلوں میں صرف انٹرنل کوٹا ہی نافذ ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ اے ایم یو داخلے اور ملازمتوں میں مسلم امیدواروں کو ریزرویشن دینے لگے گا بے معنی بات ہے۔ اے ایم یو کو اپنی مخصوص شناخت و کردار اور قیام کے اہداف و مقاصد کے تحفظ کا چیلنج درپیش ہے۔ سپریم کورٹ کی بڑی بنچ معاملہ کے سماعت کر رہی ہے جس کے سامنے صرف اے ایم یو کے اقلیتی کردار کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل 30 کی معقول توضیح و تشریح بھی کرنی ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

«
»

اب انھیں ڈھونڈ چراغ ِرخِ زیبا لے کر

نماز کے احکام کو قرآنی آ یات کی روشنی میں سمجھئے اور ان کا حق ادا کیجئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے