آہ! علی باپو عبد الستار صاحب از: محمد تعظیم قاضی ندوی آفتاب طلوع ہوتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ میں غروب ہوتا ہوں،روشنی منور ہوتے ہوئے یہ اطلاع دیتی ہے کہ مجھے بھی ختم ہونا ہے، روشن صبح یہ صدا لگاتی ہے کہ شام ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے بھی فنا ہونا ہے۔ ہر پھول […]
آفتاب طلوع ہوتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ میں غروب ہوتا ہوں،روشنی منور ہوتے ہوئے یہ اطلاع دیتی ہے کہ مجھے بھی ختم ہونا ہے، روشن صبح یہ صدا لگاتی ہے کہ شام ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے بھی فنا ہونا ہے۔ ہر پھول کھلتا ہی ہے مرجھانے کے لئے،ہر کوئی پیدا ہوتا ہے دنیا سے جانے کے لیے۔
عمرہ کی ادائیگی کے بعد میں صحنِ حرام میں بیٹھا تھا، کچھ ہی دیر میں حرم کے میناروں سے فجر کی اذان گونجنے لگی ، یہ روح پرور منظر میں کیمرے کی آنکھ میں قید کرنا چاہ ہی رہا تھا جس کے لیے میں نے موبایئل ان لاک کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اہل منکی وہاٹس ایپ گروپ پر جناب ساوڑا ابو محمد صاحب کا میسیج تھا، ان کا میسیج دیکھتے ہی یہ اندازہ ہوا کہ دیر رات کسی کے انتقال کی خبرہے۔ کیونکہ ابومحمد ساوڑا صاحب اپنی جماعتی خدمات کے ساتھ ساتھ شہر میں انتقال کی خبریں وغیرہ دینے کے لیے مشہور ہیں۔
پھر میں نے صوتی پیغام سنا تو انتقال ہی کی خبر تھی، کسی غیر کی نہیں اپنے کی تھی ، عام نہیں خاص کی تھی ، پرائے نہیں بلکہ گھر کی تھی ۔ میسیج سننا تھا کہ زمین پاؤں تلے کھسک گئی اور میں صحنِ حرم میں یادوں کی دنیا میں کھوگیا۔ خبر تھی سابق صدر منکی کمیونٹی جدہ ، میرے پھوپھی زاد بھائی جناب عبد الستار صاحب کے انتقال کی۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گۓ ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
یوں تو دنیا میں روزانہ کئی لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کئی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں لیکن چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے صفحات پر اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہیں اورمدتوں لوگ انہیں یاد کرتے ہیں۔ جناب مرحوم عبد الستار صاحب کی شخصیت بھی انہی میں سے ایک تھی جن کو اہالیانِ منکی کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔
وفات کی خبر سے دل بلک رہا تھا، غم وافسوس کی شدت سے شعلۂ جوالہ بھڑک رہا تھا، آنکھوں سے مسلسل آنسوؤں کی لڑی جاری تھی ، حرم کے اندر ہزاروں فرزندانِ توحید کی موجودگی میں خود کو میں تنہا محسوس کررہا تھا، یقین کرنا دشوار ہوگیا کیونکہ جو ہاتھ چند لمحوں پہلے موصوف کی صحت یابی کی دعاؤں کے لئے اٹھے ہوں اگلے ہی لمحے مغفرت کی دعا کے لۓ اٹھ گیے اور دعا کے دوران ان کے احسانات کو یاد کرنے لگا جس کا کنارہ نہیں مل پارہا تھا۔
مرحوم علی باپو عبد الستار صاحب اپنے تعلیمی مرحلے کی تکمیل کے بعد اپنے زندگی کے خواب سجائے تلاشِ معاش کے لیے گھر سے نکل پڑے۔ والدِ ماجد کے انتقال کے بعد انہوں نے کسبِ معاش کے لیے سب سے پہلے ممبئی کا رخ کیا، وہاں چند سال گذارنے کے بعد بحرین میں اپنی قسمت آزمائی جہاں پر انھوں نے کئی سال گزارے 1999-2000 میں جزيرة العرب کے شہر جدہ میں اپنا آخری پڑاؤ ڈالا اوربہتر معاشی استحکام کے حصول کے لئے تجارت کی بنیاد رکھی۔
مرحوم کا کمال ہی تھا اپنی تجارتی صلاحیت و مشغولیت میں ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر قومی اجتماعیت کے لئے جو خاموش کوشش کی ہیں وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔
جماعتی زندگی ہمارے اسلاف کی بڑی امانت ہے اسی امانت کی حفاظت کے لئے مرحوم علی باپو عبد الستار صاحب نے بہت سالوں پہلے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سعودی عرب کے جدہ شہر میں مقیم منکی کے احباب کو جماعتی نظام کے تحت جوڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور آپ جناب مستان باوافقہی صاحب کی سبکدوشی کے بعد اس جماعت کے بالاتفاق صدر منتخب ہوئے اور تقریباً 23 سالوں تک صدارتی عہدہ پر فائز رہے۔
مرحوم اپنے والدین کے اکلوتے تھے نہ کوئی بھائی نہ کوئی بہن مگر خدا گواہ ہے ہمارے خاندان کے کئ ایسی خواتین ہیں اور کئ ایسے افراد ہیں جن سے آپ کو بے انتہا محبت تھی اور ایک بڑے بھائ کی طرح دامے درمے قدمے سخنے اپنا فرض نبھاتے۔
وہ اپنے گھر کے بڑے تو تھے ہی مگر ہمارے خاندان والوں کے لیے بھی ایک سرپرست کے مانند تھے،معاشرتی مسائل ہوں یا کسی اور ضروری مجلسیں آپ کی موجودگی ضروری ر سمجھی جاتی تھی ، ہم چھوٹوں کے لیے شفیق والد اور بھائی سے بڑھ کر تھی۔
مرحوم کی والدہ میرے والد صاحب کی اکلوتی بہن تھی اور آپ میرے اکلوتے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
میرے والدہ کہتی ہے کہ جب سے میں شادی کر کے اس گھر میں آئی ہوں تب سے لیکر ان کے انتقال تک وہ مجھے ایک بھائی کی طرح مرا خیال رکھتے اور میری فکر کرتے تھے اپنے نیے گھر کے افتتاح سے قبل اُن کا بھی وہی مکان تھا جہاں اب ہم مقیم ہیں، اُس دور میں بھی کبھی لڑائ جھگڑے نہیں رہے بلکہ اتفاق اور محبت کے ساتھ رہتے تھے، اُن کو یہ فکر تھی اور یہ تڑپ تھی کہ اپنی طرف سے مری والدہ کو حرمین شریفین کی زیارت کرائی جائے اور اللہ نے آپ کو ذریعہ بھی بنایا اور میں سمجھتا ہوں بلکہ مجھے اُمید ہے اُن کی آخرت میں نجات کے لیے یہی کافی ہے۔
مرے مرحوم والد محترم کی بھی مالی اعتبار سے فکریں فرماتے رہے، اور ہمیشہ ایک والد کا درجہ دیتے، آپس میں ایسے ہم کلام رہتے ایسا محسوس ہوتا کہ ماموں بھانجہ نہیں بلکہ دو دوست آپس میں گفتگو کر رہے ہوں۔
آپ ہمیشہ مجھے بھی یہ احساس دلاتے کہ میں تمہارا بڑا بھائی ہوں میری بھی آپ کو تعلیمی و تربیتی اعتبار سے بڑی فکر لاحق رہتی، میری کامیابی پر خوش ہوتے اور ہرزندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتے۔
میں نے 2013 میں اپنے تعلیم کے ساتھ ہی صحافت میں قدم رکھنا شروع کیا اور سب سے پہلے سینکڑوں اہلیانِ منکی جو منکی اور گلف میں مقیم ہیں ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی اس کو وجود میں لانے کے بعد سے اخیر تک آپ ہمیشہ مری تحریروں سے خوش ہوتے، مختف راۓ پیش کرتے، جدہ میں منعقد ہونے والے پروگرامات کی تصویریں اور تفصیلات بہت اہتمام کے ساتھ ارسال کرتے تھے۔
مقامی تعلیمی اداروں کے ساتھ بڑی محبت کرتے، الہلال انگلش میڈیم اسکول کے ان بنیادی لوگوں میں ہیں جنہوں نے ابتداء سے اخیر تک ادارے کی ہر اعتبار سے فکریں کیں۔ ادارے کو ترقی کی منازل طۓ کرنے میں اپنا ہر ممکن تعاون پیش کیا۔
مدرسہ رحمانیہ سے آپ کو والہانہ تعلق رہا، مہتمم رحمانیہ قاضی شہر مولانا شکیل صاحب سکری ندوی کے بڑے اچھے دوست تھے، ہم نے اپنے مدرسہ رحمانیہ کے تعلیمی دور میں دیکھا ہے کہ آپ جب جب جدہ سے تشریف لاتے تو پہلے ہی دن صبح مدرسہ تشریف لاتے جس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ اُنھیں مدرسے سے کس قدر محبت تھی۔
مدرسے کے چھوٹے بڑے جلسوں میں وقت پر تشریف لانا اپنے تاثرات پیش کرنا، بچوں کی ہمت افزائی کرنا یہ سب آپ کی خصوصیات رہیں، آپ مدرسے کے اکثر جلسوں میں اسٹیج کی زینت بنے رہتے، چند ہی دنوں کی بات ہے مدرسے کے اسپورٹس ڈے کے موقع پر آپ بیماری کے اس عالم میں بھی آپ اسٹیج پر موجود تھے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو انعامات سے نوازا، کسے خبر تھی کہ یہ اُن کی زندگی میں مدرسے کا آخری اجلاس ہوگا۔
حسن معاشرت کے لئے گھر کی آل اولاد کے لیے والدین سے بڑھ کر کون ہمدرد ہوسکتا ہے۔ مرحوم اپنی بیوی بچوں کے لئے سراپا ہمدرد تھے، والدین کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔
آپ صوم و صلاۃ کے پابند تھے، مسجد عثمان بن عفان کے مصلی تھے۔ اپنے ساتھ اپنی سواری پر بٹھا کر نواسوں کو نماز لے جانا ان کا معمول تھا، آج بچے نماز جانے کے لیے سواری کے پاس نانا کے انتظار میں رہتے ہیں، کس جگر کے ساتھ ان معصوموں کو سمجھائیں کہ اب اُن کے نانا جان اس دنیا میں نہیں رہے۔
اُن کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ سامنے والا آپ کی پہچان میں رہے یا نہ رہے اگر ان سے کوئی ملتا تو آپ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے۔
جب سے انہوں نے منکی میں سکونت اختیار کی تب سے لیکر اخیر تک جماعتی زندگی سے جڑے رہے۔ چند ماہ قبل نئ کابینہ کے قیام کے لیے بھی انھوں نے بڑی فکریں کی اور آپ ایڈہاک کمیٹی کے ممبر رہے، آپ مرکزی ادارے کے رکن انتظامیہ بھی تھے، انتقال کے دو دن قبل جب خادمِ جماعت آدم جی نے میٹنگ میں شرکت کرنے کے لۓ ایجنڈا لے کر جب آپ کے گھر گیا تو آپ طبیعت میں سستی رہنے کی وجہ سے آرام فرما رہے تھے ان کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ سو رہے ہیں' پھر ان دونوں کی باتیں سن کر آپ اس عالم میں بھی اٹھے اور اپنی دستخط دینے کے لۓ تشریف لا ہی رہے تھے تب تک آدم جی جاچکے تھے، انھوں نے میٹنگ میں جانے کا ارادہ کر ہی لیا تھا جس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ ان کو ملی اداروں مرکزی اداروں سے کس قدر محبت رہی ہوگی۔
2019 میں جب اپنی والدہ محترمہ فاطمہ صغری سے منسوب صغریٰ کمپلکس کا منکی میں قیام عمل میں لایا تو شروع ہی سے اُن کی کوشش رہی کے اس کومپلکس میں چند ڈاکٹرس بھی اپنی خدمات انجام دیں جس سے عوام کو بہترین آسانی ہو تو انھوں نے اپنی کوششوں سے پہلے نمبر والی دکان پر ایک جنرل کلنک کے لۓ ماہر ڈاکٹر کو موقع دیا، پھر چند مدت ہی میں دوسرے نمبر پر ایک اور ڈاکٹر کو موقع دیا، پھر تیسرے نمبر پر ایک اور کو موقع دیا۔ ان کو یہ فکرلاحق تھی کہ عوام کو ہمارے وطن عزیز ہی میں کچھ ایسی کلینکس دستیاب ہوں کہ پھر باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے اور انھوں نے اپنے ارادوں میں کامیابی بھی دیکھی اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے ہوے دیکھا۔۔۔ صرف اتنا ہی نہیں ادھر چند مہینوں میں ان کو یہ بھی فکر لاحق ہو رہی تھی کہ کومپلکس کی اوپری منزل کو بھی جلد تعمیر کیا جاۓ جہاں پر صرف ایک چھوٹا اسپتال ہو، حاملہ عورتوں کو بہتر خدمات دی جائے اور اس تعلق سے وہ کوششیں بھی کر رہے تھے، بھٹکل کی معروف لیڈی ڈاکٹر شمس نور کو انھوں نے دسیوں مرتبہ دعوت دی ہے کہ وہ منکی میں تشریف لائیں یہاں خدمات انجام دیں جس سے ہماری عورتوں کو بہت فائدہ ہوگا وغیرہ، امید ہے کہ ان کا یہ خواب بھی اگلے سالوں میں ضرور پورا ہوگا۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرماۓ ان کے درجات بلند فرماۓ اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور تمام پسماندگان، لواحقین دوست احباب وغیرہ کو صبر جمیل عطا کرے آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں