المیہ……..!

تقریب میں غیرملکی صدورسمیت دوسواہم شخصیات میں صدرِپاکستان ممنون حسین بھی شریک تھے۔عبداللہ عبداللہ نے حلف برداری کے دوران کہا کل کے حریف آج ایک ٹیم بن چکے ہیں اور وہ ایک ہوکر ملک کی ترقی کیلئے کام کریں گے۔
تقریب حلف برداری سے خطاب کے دوران ڈاکٹراشرف غنی احمدزئی نے طالبان اور حزبِ اسلامی کوباضابطہ طورپرمذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ افغانستان میں پختون روایات کے مطابق جرگے کے ذریعے اگرمذاکرات کئے جائی توکامیاب ہوسکتے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے کہ جن کووہ مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ٹھیک ایک ہفتے کے بعدامریکاکے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کے بعد۳۱دسمبر۲۰۱۴ء کے بعد امریکی فوج کوافغانستان میں رہنے کاقانونی جوازمل جائے گاتومذاکرات کی دعوت ایک سنگین تاریخی مذاق بن جائے گاکیونکہ افغانستان میں امریکی فوج کورہنے کیلئے اقوام متحدہ سے آخری بار۳۱دسمبر۲۰۱۴ء تک کامینڈیٹ ملاہے اوراب روس اورامریکاکے تعلقات انتہائی کشیدہ ہونے کی وجہ سے روس مزیداس مشن کی توسیع کوسلامتی کونسل سے منظورنہیں ہونے دے گاجس کی وجہ سے امریکاافغانستان کے اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کیلئے گزشتہ جنوری سے کوششوں میں لگاہواہے اورمعاہدہ طے پانے کے باوجودپچھلے دس ماہ میں وہ اپنے پروردہ ایجنٹ حامدکرزئی سے بھی معاہدے کی دستاویزپردستخط نہیں لے سکاجبکہ امریکانے دستخط نہ کرنے کی صورت میں افغان پولیس اورفوج کی تنخواہ دینے سے نہ صرف معذرت ظاہرکردی تھی بلکہ اپنی تمام فوج کونکالنے کابھی اعلان کردیاتھا۔امریکااورکرزئی کے درمیان اس معاہدے پردستخط کے معاملات پرشدیداختلافات پیداہوگئے تھے ۔
ادھردوسری جانب طالبان نے ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کوفوری مستردکرتے ہوئے کہاکہ یہ پہلے سے طے شدہ تھاکہ انتخابات کے نام پرافغان عوام کو بیوقوف بنایاگیااورطالبان نے پہلے سے لوگوں سے کہاتھاکہ یہ انتخابات افغان عوام کی خواہشات کے مطابق قطعاًنہیں ہوں گے کیونکہ ان انتخابات کافیصلہ پہلے سے واشنگٹن میں ہو چکاہے جس کاثبوت عبداللہ عبداللہ اوراشرف غنی کے درمیان اتحادی حکومت کی تشکیل ہے ۔اگراسی طرح دونوں کواقتدارمیں لاناتھاتوافغان عوام کے اربوں روپے کانقصان کیوں کیاگیا؟ طالبان ذرائع کے مطابق امریکی اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کے بعدان سے مذاکرات بے معنی ہوکررہ گئے ہیں بلکہ اس حکومت نے امریکاکااتحادی بن کراپنے اصلی چہرے سے پردہ اٹھادیاہے جبکہ طالبان اوردیگرمزاحمت کارافغانستان میں امریکااوراتحادی افواج کے قیام کے خلاف ہیں جس کونکالنے کیلئے ہم پہلے دن سے برسرپیکارہیں پھربھلاان سے مذاکرات کیسے ممکن ہے جس نے ایک غیرقانونی قبضے کی توسیع کی منظوری دی ہو۔افغان قوم متحدہے اورانشاء اللہ امریکی اوراس کے اتحادی دسمبرسے قبل بھاگ رہے ہیں اورآئندہ موسم بہارافغان عوام کیلئے واقعی بہارہوگاجب سارے افغانستان پرمجاہدین کی حکومت ہوگی۔
دوسری جانب حزبِ اسلامی نے بھی اشرف غنی کی مذاکرات کی دعوت کوسختی سے مستردکرتے ہوئے کہاکہ ہم اس سے قبل کئی مرتبہ امریکاسے مذاکرات کی دعوت کوردکرچکے ہیں جو افغانستان میں اس وقت قابض فریق ہے ۔ایک بھی افغان جب تک زندہ ہے غیرملکیوں کے خلاف جدوجہدجاری رہے گی۔اس پیشکش کاکوئی مقصدنہیں ہے ،ہم نہ صرف ڈاکٹر اشرف غنی کومتنبہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کرکے نہ صرف اس غاصب امریکاکوافغانستان میں مزیددس سال کیلئے افغان عوام کوشہیدکرنے کالائسنس دیاہے بلکہ افغانستان کے اندرلوگوں کے مذہب اورثقافت سے کھلواڑکرنے کی کھلی چھٹی بھی دی ہے جبکہ امریکی قبضے کے دوران عیسائی مشنری اوراین جی اوزنے افغان عوام کے اسلام اورایمان کونقصان پہنچانے کیلئے لاتعدادبارمکروہ کوششیں کی ہیں اوراب تواس معاہدے کے بعدان کے حوصلے مزیدبڑھ جائیں گے،اس لئے اس معاہدے کے بعداشرف غنی کی حکومت افغان عوام کے قتل میں براہِ راست شریک ہوں گے اوروہ بھی افغان عوام کے ویسے ہی دشمن سمجھیں جائیں گے جیساکہ امریکااوراس کے اتحادی ہیں البتہ اگروہ امریکا سے معاہدے پردستخط کرنے سے انکارکردیتے توان کے ساتھ نہ صرف حزبِ اسلامی بلکہ دیگرمزاحمتی گروپ بامعنی مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے اندرایک اسلامی اورفلاحی ریاست کے قیام کیلئے مشترکہ کوششیں کرسکتے تھے لیکن انہوں نے یہ موقع گنوادیاہے اس لئے امریکی فوج کوتوسیع دینے اوردوسری طرف مذاکرات دومتضادچیزیں ہیں۔
امریکانے افغانستان میں اپنے قانونی قیام کیلئے شراکت اقتدارکے ذریعے فی الحال اپنے مفادات کے مستقبل کی پہلی سیڑھی پرقم تورکھ دیاہے تاہم اصل امتحان افغانستان میں کابینہ کی تشکیل اورسیکورٹی کے انتطامات کوسنبھالناہے جب دسمبرسے قبل کئی ممالک کے فوجی افغانستان میں اپنامشن مکمل کرکے یہاں سے چلے جائیں گے توافغانستان میں طالبان اورحزب اسلامی کے حملے کیسے روکے جاسکیں گے اورکس طرح افغان فوج اورپولیس کومتحدرکھاجاسکے گاکیونکہ عبداللہ عبداللہ اوراشرف غنی کے درمیان طاقت کے حوالے سے رسہ کشی موجودرہے گی اوراس وقت کیونکہ امریکاکواسٹرٹیجک معاہدے پردستخط مطلوب تھے اس لئے شراکت اقتدارکادانہ ڈال کردونوں کو جال میں پھنسالیا،اب اگرمستقبل میں حالات قابوسے باہرہوتے ہیں توامریکاکیلئے دوبارہ انتخابات کراناکوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔جس طرح سابق افغان صدرچغہ پوش مسخرہ حامدکرزئی کوگزشتہ گیارہ سال امریکانے اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرکے پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات کوخراب کرایااسی طرح اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ کوبھی امریکااپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتارہے گاوگرنہ امریکاکی پالیسی توسب ہی واقف ہیں کہ امریکاکااپنے دوستوں کے شکارمیں نشانہ کبھی خطانہیں ہوتا۔ ادھر یہ اطلاع بھی آئی ہے کہ کرزئی اپنے مستقل قیام کیلئے عنقریب شملہ روانہ ہونے والے ہیں !
اس سے بڑانہیں المیہ کوئی کہ سعد 
مجھ کوامان نہ دے سکا میراہی اپناگھر

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے