عالمِ اسلام یا عالمِ شیعت و سنّیت؟

پھر اچانک مجھے مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ کا تحریر کردہ ایک جملہ کہیں پڑھا ہوا یاد آیا کہ احیائے اسلام کی پاداش میں اگر کوئی غیرمسلم حکومت قید وبند کی سزادیتی ہے تو مسلم حکومت پھانسی سے کم پر راضی نہیں ہوگا۔ مجھے یہ جملہ پڑھ کر کچھ عجیب سا لگا تھا ، مگراس جملے کو تعمیماتی نقطۂ نظر سے دیکھنے پر آج جب شام ومصر کی سڑکوں پر بہہ رہے خون، کفن میں لپٹی ہوئی معصوموں کی قطار در قطارلاشوں پرنظرپڑتی ہے اورفوج کی ظلم وبربریت کی روداد سامنے آتی ہے تو اندازہ ہوتاہے کہ مولانا مودودیؒ نے بالکل سچ کہا تھا۔ دمشق اور قاہرہ میں جو کچھ ہورہا ہے اور جس طرح ایک مسلمان فوج اپنی مسلمان رعایا پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اس نے انسانیت کو شرمسارہی نہیں انسانیت کے مفہوم کو بھی ختم کردیا ہے۔ یوں تو پوری دنیا ظلم وستم کی ناقابلِ یقین واقعات سے بھری پڑی ہے مگر کوئی ملک اپنی ہی رعایا پر اس قدر بھیانک ظلم وستم ڈھائے اور کیمیکل وزہریلی گیسوں کی مدد سے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے ، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ ہمارے سامنے یہودیوں کے ہولو کاسٹ کاواقعہ ضرور ہے ، مگر کسی مسلمان ملک میں مسلمانوں پر ہورہے رونگنٹے کھڑے کردینے والے اس طرح کے مظالم کی کوئی مثال ماضی قریب میں نظرنہیں آتی۔ 
ظالم کو ظلم سے روکنے اور مصیبت زدوں کی مدد کرنے کے تعلق سے کئی احادیث موجود ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس مشہور حدیث سے یقیناً ہم سب واقف ہونگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ سلم نے فرمایااپنے (مسلمان)بھائی کی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایک مظلوم کی مدد کرنا تو برحق(ٹھیک) ہے، لیکن ایک ظالم کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟ توآپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے دوسروں پر ظلم کرنے سے روک کر۔(بخاری: کتاب: 3 :جلد:43 :حدیث:624)یہ حدیث یااس طرح کی دیگر احادیث کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اصل تعبیر ہندوستانی مسلمانوں کی سرگرمیوں میں نظر آتی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو ، کوئی بھی ملک ہو جہاں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا ہو یا مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہوں تو ہندوستانی مسلمانوں کی روح کانپ جاتی ہے اور تکلیف سے وہ بے چین ہوجاتے ہیں۔ ان کے بس میں نہیں ہوتا ورنہ ہندوستانی مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں جاکر ظالموں سے مقابلہ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ معاملہ چاہے فلسطین میں اسرائیلی بربریت کا ہو، برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جارہے مظالم کا ہو، یمن میں ڈرون حملوں کے شکار بے گناہ مسلمانوں کا ہو یا پھر شام ومصر میں فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کا ہو۔ ان سب کی تکلیفوں کو ہندوستانی مسلمان نہایت شدت سے محسوس کرتے ہیں ۔ وہ اس بات کی تخصیص نہیں کرتے کہ ظالم کس فرقے یا جماعت سے ہیں یا مظلوم کس فرقے یا جماعت سے۔
چند سال قبل جب اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کئے تھے اور مہینہ بھر تک جاری جنگ میں مسلسل بمباری کرکے قتل وخون کا بازار گرم کیا تھا تو اس وقت بھی مسلمان اس ظلم پرتڑپ اٹھے تھے اور نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اس کے خلاف زبردست غم وغصہ پایا جارہا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل کو بری طرح ہزیمت اس لئے بھی اٹھانی پڑی تھی کہ حزب اللہ نے جانبازی وجوانمردی کا اس قدر عظیم مظاہرہ کیا جو ہر کسی کے توقعات سے بالا تھا۔ حزب اللہ کے اس فتح کاجشن پوری دنیا کے مسلمانوں نے منایا تھا۔ اس وقت کسی نے یہ بات نہیں سوچی تھی کہ حزب اللہ لبنان کا ایک شیعہ گروپ ہے اور اس کے جیالے شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح صدام حسین پر جب عراق کی سرزمین تنگ کی گئی تو بھی تمام مسلمانوں کی ہمدردیاں بغیر یہ دیکھے کہ ان کا تعلق سنی فرقے سے ہے ، ان کے ساتھ رہیں۔ یہی معاملہ کرنل معمر قذافی کے ساتھ بھی رہا اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ بھی ۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ ان کا مسلک کیا ہے اور وہ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں سب مسلمان تھے اور بحیثیت مسلمان وہ ان کی تکلیفوں اور مصیبتوں پر تڑپ رہے تھے۔ہم ایران کے انقلاب کی حمایت کرتے چلے آئے ہیں اور اسے اسلام کے حریت پسندوں کی فتح تصور کرتے ہیں۔ لیکن آج منظر اس کے بالکل برخلاف ہے۔ آج عالمِ اسلام میں انتشار اس قدر واضح ہوگیا ہے کہ اسے عالمِ اسلام کہا ہی نہیں جاسکتا ۔ لیکن آج عالمی طاقتوں نے اسلامی ممالک میں دراڑیں پیدا کردی ہیں کہ اب عالمِ اسلام ، عالمِ اسلام نہیں بلکہ عالمِ شیعیت وسنیت میں تقسیم ہوچکاہے۔
جس طرح شام میں خونریزی جاری ہے ، جس طرح مصر میں اخوان المسلمون پر فوجی قہر جاری ہے ،جس طرح عراق میں آئے دن بم دھماکے اور ہلاکتیں ہورہی ہیں ، جس طرح پاکستان میں مسجدوں میں گھس کر نمازیوں کو شہید کیا جارہا ہے اس سے تو مسلمانوں کے دل کا نپ کانپ جاتے ہیں کہ کیا یہ وہی مسلمان ہیں جنہیں اللہ کے رسول نے ایک جسم سے تشبیہ دی تھی کہ اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہو تو پورا جسم اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مسلمان جس طرح مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے اور مسلم ممالک میں جس طرح مسلمانوں کی خونریزی ہورہی ہے اس کی نظیر دنیا کے کسی بھی انسانی تہذیب میں نظر نہیں آتی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ شام اور مصر کے مسلمان چھ وقت کی نمازیں ادا کررہے ہیں ۔ پنج وقتہ نماز کے علاوہ ان کے معمول میں ایک نمازِ جنازہ بھی ہے ، جو وہ نہایت پابندی سے ادا کررہے ہیں۔ کیا مسلم ممالک کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام نہیں ہے کہ ان کے اندر سے دوست اور دشمن کی تمیز بھی اب ختم ہوگئی ہے۔ان کے اسلحہ کے ذخائر ، ان کے ٹینک، ان کے ہوائی جہاز دشمن ملکوں میں جانے کی جرأت نہیں کرتے ۔ یہ اپنے ہی عوام کا گلا کاٹنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ مصر میں فوج کس طرح نہتے مسلمانوں کو سزائے موت دے رہی ہے اورتو اور بنگلہ دیش میں جب اسلام پسند مظاہرے کرتے ہیں تو ان کے ساتھ فوج کاکیا رویہ ہوتا ہے اور ایک ایک دن میں کتنی لاشیں بچھا دی جاتی ہیں، اس کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ شام ومصر میں جو بھیانک منظر ابھر کر آرہا ہے ، وہ اسی بے حسی کا نتیجہ ہے جس کے عمومی طور پر تمام مسلمان ممالک کے حکمراں اور خصوصی طور سے عام مسلمان شکار ہیں کہ مسلمان مسلمان کا درد سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس خالص اسلامی معاملے کو مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے دیکھا جارہاہے۔
1967کی جنگ میں اسرائیل نے شام کی گولان پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ ساری دنیا مانتی ہے کہ اسرائیل کا یہ قبضہ غاصبانہ ہے اور اسے اسرائیل کو خالی کرنا ہے۔ لیکن حافظ الاسد اور ان کے صاحبزادے بشار الاسد نے اس سلسلے میں کوئی جنبش نہیں کی اور روس کی چھتر چھایا میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں کوشاں رہے اور اسرائیل کے قبضے سے گولان پہاڑیوں کو چھڑانا تو دور کبھی اسرائیل سے دوٹوک بات بھی کرنے کی زحمت نہیں کی۔ مگر اسی شامی حکومت نے اپنے ناجائز اقتدار کو بچائے رکھنے کے لئے شام میں جمہوریت کا مطالبہ کرنے والوں پر بمباری کی، کئی تاریخی شہر زمیں بوس کردئے ، بے بہا تاریخی نوادرات ملیا میٹ کردئے، ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو اب تک موت کے گھاٹ اتار اجاچکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ، اور اب انہیں پر وہ زہریلی گیس استعمال کی جارہی ہے جس کے استعمال پر پوری دنیا میں پابندی عائد ہے۔کیا دنیا کا کوئی ایسا خطہ آپ کی نظر میں ہے جہاں خانہ جنگی نے اتنی مکروہ شکل اختیار کی ہو؟ شمالی اور جنوبی کوریا بھی ایک دوسرے کو چیرڈالنے اور ایک دوسرے کو کچا چبا ڈالنے کی بات تو ضرور کرتے ہیں مگر ساری دنیا ان کے جنگ کا بس انتظار ہی کرتی رہ جاتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ابھی شروع ہوئی کہ ابھی شروع ہوئی۔ نہ لاطینی امریکہ میں ، نہ برِ اعظم افریقہ میں ، نہ ایشیاء کے کسی دیگر ملک میں آپ کوبرادر کشی کے اس طرح کے درندگی والے واقعات نظرآئیں گے کہ جسے دیکھ کر انسانیت پر سے یقین اٹھنے لگے۔ یہ صرف اسلام کے نام لیوا اور دینِ حق پر جاں نچھاور کرنے والوں کے درمیان اسفل السافلین کے جیتے جاگتے نمونے نظر آتے ہیں۔
آج امتِ مسلمہ جس بے وقعتی اور انتشار کے دور سے گزر رہی ہے اسے اللہ کے رسول نے سیلاب کا خس وخاشاک قرار دیا تھا۔ یعنی کہ مردہ گھاس پھوس کہ جس میں کوئی روح نہیں ہوتی ، نہ ہی کوئی نظم ونسق اور نہ ہی کوئی متعین منزل کہ جس کی جانب وہ محوِسفر رہے۔گزشہ 25برسوں کے بین الاقوامی حالات اور واقعات پر اگر ہم غائر نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل واضح طور پر نظر آئے گی کہ اسرائیل کے خلاف سر اٹھانے والوں میں سے کسی کا بھی سر ان کی گردن پر باقی نہیں رہا۔ چاہے وہ یاسر عرفات ہوں، چاہے صدام حسین ہوں، چاہے وہ کرنل معمر قذافی ہوں،یا کسی نہ کسی شکل میں اخوان المسلمون اورایران ہوں۔کیا اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ اسرائیل وامریکہ اپنے حواریوں کے ساتھ مسلم ممالک کو تہہ بالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور مسلم ممالک ہیں کہ وہ اسرائیل وامریکہ کی سازشوں کا بری طرح نہ صرف شکار نظر آتے ہیں بلکہ وہ اپنے ہی لوگوں کوختم کرنے کے لئے اسرائیل وامریکہ سے مدد بھی لے رہے ہیں؟۔اور یہ صرف اپنی بادشاہت اور چودھراہٹ بچانے کی خاطر ہورہا ہے۔ سعودی عربیہ جو آج پورے عالمِ اسلام کی توجہ کا مرکز ہے، مصر کے بارے میں اس کا جو رویہ منظرِ عام پر آیا ہے ، اس نے تو حرمین وشریفین کے تقدس کو بھی پامال کردیا ہے۔ لیکن اگر سعودی عربیہ کی بادشاہت یہ سمجھتی ہے کہ مصری فوجیوں کی مالی امداد سے یہ طوفان صرف مصرتک ہی محدود رہے گا؟ تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ جلد یا بہ دیر یہ صورت حال سعودی عربیہ میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اسرائیل وامریکہ کی دوستی اللہ کی دشمنی کے آگے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔اگر مسلمان اسی طرح اسرائیل اور امریکہ کی سازش کا شکار ہوتے رہے تو یہ بات لامحالہ کہی جاسکتی ہے کہ یہودیوں کا خدا ان کے لئے کچھ زیادہ ہی ایکٹیو ہے۔
شام اور مصر میں جاری مسلمانوں کی خونریزی کا اثر اگر ہم ہندوستانی مسلمانوں میں دیکھیں تو ہمیں واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں اس کے خلاف زبردست غم وغصہ پایا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی اور ممبئی میں شام ومصر میں جاری خونریزی کے خلاف احتجاج ا ورمظاہرے ہورہے ہیں۔ مگر اس کا کیا جائے کہ مجموعی طور پر عالمِ اسلام کو عالمِ شیعت وسُنّیت میں تقسیم کرنے کی سازش ہورہی ہے جس کا انجام نہایت بھیانک ہوسکتا ہے۔ہمیں اس معاملے میں امتِ واحدہ کے نقطۂ نظر سے سوچنا ہوگا اور مسلک وفرقے کی چہاردیواری سے نکل کر ان مظالمِ کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔

«
»

کب تک لٹتے رہیں گے مذہبی منافرت کے ہاتھوں؟

بانجھ پن…….(Infertility)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے