’’اکشے ترتیہ‘‘ کے دن کمسنوں کی بھی شادیاں ہوتی ہیں

راجستھان وہی ریاست ہے جہاں کے لوگ ابھی تک پتھر کے عہد میں سانس لے رہے ہیں وہاں صرف کمسن بچوں کو شادیوں کے بندھن میں ہی نہیں جکڑا جاتا ، ستی جیسی قبیح رسم بھی زندہ ہے ، چند سال پہلے ایک نوجوان خوبرو اور تعلیم یافتہ بیوہ کو شوہر کی چتا پر زبردستی بٹھا کر زندہ جلا دیا گیا پھر اسے ’’ستی دیوی مان‘‘ کر وہاں مندر بنادیا گیا اور پوجا شروع ہوگئی، اس ریاست کے دور دراز ریگستانی علاقوں میں بعض خاندان ایسے آباد ہیں جن کے یہاں آج بھی دختر کشی کا رواج ہے۔ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اسے کھاٹ کے نیچے دبا کر مار دیا جاتا ہے یا زندہ دفن کردیا جاتا ہے، وہاں بعض قبائل تو ایسے پائے جاتے ہیں جن کے یہاں کئی پشتوں سے لڑکی پیدا نہیں ہوئی کیوں کہ ماں کی کوکھ سے جنم لیتے ہی اس کا گلا دبا کر قصہ تمام کردیاجاتا ہے۔ یا ماں کے رحم میں ہی اس کی تصدیق کرکے حمل ضائع کرادیا جاتا ہے۔
ملک کی مختلف ریاستوں بالخصوص راجستھان میں ’’اکشے ترتیہ‘‘ ایک مقد س تہوار کی طرح منایاجاتا ہے جس میں خاص طور سے کمسن بچوں کی شادیاں رچائی جاتی ہیں۔ ریاستی سرکار کا دعویٰ ہے کہ اس نے دیگر سماجی برائیوں کے ساتھ ’’کمسنی کی شادی‘‘ پر بھی قابو پالیا ہے مگر ریاست کے مختلف علاقوں سے جو خبریں ہر سال ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں بچوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا ہے ۔ راجستھان وہی ریاست ہے جہاں سے بچپن کی شادی کے خلاف قانون’’ شاردا ایکٹ‘‘ کے محرک ہر بلاس شاردا تعلق رکھتے ہیں، اس ایکٹ کو نافذ ہوئے کئی دہائیاں گزرچکی ہیں پھر بھی پرانی رسم خوب پھل پھول رہی ہے۔
حالانکہ اس سے پہلے حکومت کی طرف سے اخبارات میں اشتہارات دیکر ، فلم شو اور دوسرے طریقوں سے کمسنی کی شادی کے مضر اثرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا رہا ہے مگر ان کوششوں کا کوئی نتیجہ آج تک برآمد نہ ہوسکا اور جاہل وتوہم پرست والدین اپنی من مانی کرنے میں نہ صرف آزاد بلکہ فخر بھی محسوس کرتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ آگ کے ساتھ پھیرے تو اس دنیا میں بس رسم کی بات ہے ورنہ دولہا ودولہن کا رشتہ آسمان پر طے ہوجاتا ہے اور شادی کا بندھن اس زندگی کے لئے نہیں جنم جنم یعنی ہمیشہ ہمیش کے لئے ہوتا ہے۔
اسی لئے ہندودھرم کے بعض ماننے والوں کے لحاظ سے بیوہ کی دوسری شادی پر پابندی عائد ہے اور بیوہ کو اپنے شوہر کی چتا کے ساتھ ہی ستی ہوجانا چاہئے۔عام لوگ اس طرح کے فرسودہ رسم ورواج اور سماجی لعنتوں سے پیچھا اس لئے بھی نہیں چھڑا پاتے کہ دھرم کے بعض ٹھیکیداروں نے انہیں مذہبی رنگ دے دیا ہے وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ماننے والے صدیوں پرانی ریتی رواجوں سے آزاد ہوں، وہاں کی پولس اور انتظامیہ کے دیگر ذمہ دار خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں اگر ان کی طرف سے بروقت مداخلت ہو اور قانون کی برتری کا عوام کو احساس دلایا جائے تو ہمارے معاشرہ کی متعدد برائیوں کا سدِ باب ہوسکتا ہے۔

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے