تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
دومرتبہ مجھے اجودھیا جانے کا موقع ملا اور دونوں ہی بار شہیدبابری مسجد کی زیارت کا موقع ملا۔ یہ 1987کی بات ہے۔ چند گز کے فاصلے سے ہم نے مسجد کی عمارت دیکھی۔ علاوہ ازیں اجودھیا کے بعض مزارات پر حاضری کا موقع بھی ملا جن میں سے ایک قبرکے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ پیغمبرخدا حضرت شیث علیہ السلام کی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ مزار سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک مخدوش مسجد بھی ہواکرتی تھی جس میں جمعہ کی نماز اداکرنے آس پاس کی بستیوں سے مسلمان آتے تھے۔ یہاں ہم نے بھی جمعہ کی نماز ادا کی ہے۔ یہ جگہ اجودھیا اسٹیشن سے جنوب کی طرف ہے جب کہ پرانا شہر شمال کی جانب ہے۔اجودھیا پولس اسٹیشن کے عقب میں ایک تیس ہاتھ لمبی قبر ہے جس کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی ہے۔ اس شہر میں کئی صوفیہ اور زبرگان دین کی قبریں ہیں اور قدیم مسجدیں ہیں۔ اس شہر کو ہندووں کے بیچ بعد میں شہرت ملی مگر تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اجودھیا کی اپنی اسلامی تاریخ رہی ہے۔حالانکہ بدھ ازم کے حوالے سے بھی اسے یاد کیا جاتاہے۔ویسے ہم نے جب سے ہوش سنبھالا اجودھیا کا نام بابری مسجد۔رام مندر تنازعہ کے حوالے سے ہی سنا اور اب اس تنازعے کو حل کرنے کا فارمولہ سپریم کورٹ نے اس طرح نکالا ہے کہ مسجد کی زمین ہندووں کے حوالے کرنے کا حکم دیاہے جب کہ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لئے اجودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین دینے کو کہا ہے۔ اس طرح ہم نے تالا کھلنے سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے تک اس کیس کو انجام تک پہنچتے ہوئے دیکھا۔
مسجد کا بدل زمین نہیں ہوسکتی
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق مسجد کے عوض پانچ ایکڑ زمین قبول کی جائے یا نہیں؟ اس سوال پر مسلمانوں کے اندر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے زمین قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ ایک مسجد کے بدلے میں اگر پوری روئے زمین دیدی جائے تب بھی وہ خانہ خدا کا بدل نہیں بن سکتی۔ بورڈ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنظرثانی کی اپیل کی جائے کیونکہ کورٹ نے خود تسلیم کیا ہے کہ مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر نہیں ہوئی تھی نیز صدیوں تک اس مقام کا استعمال ایک مسجد کے طور پر ہی ہوتا رہا ہے۔ بورڈ کی منطق قابل قبول بھی لگتی ہے مگر عام مسلمانوں میں جہاں کورٹ کے فیصلے کے تعلق سے مایوسی ہے، وہیں بدل کے طور پر زمین قبول کئے جانے کے معاملے میں اختلاف بھی ہے۔ کلکتہ کے ایک بزرگ صحافی عبدالعزیزکہتے ہیں کہ میرے خیال سے جو زمین، ایک مسجد میں مورتی رکھنے اوراسے منہدم کرنے کے بدلے میں دی جائے وہ حق جگہ دینے کے بجائے باطل جگہ دینے کی پیشکش ہے۔اس زمین پر مسجد یا عبادت گاہ بنتی ہے تو باطل گاہ ہوسکتی ہے عبادت گاہ نہیں ہوسکتی۔محمدافتخار حسین رضوی کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے سے واضح ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑکر نہیں بنائی گئی۔ اب منہدم شدہ مسجد کی زمین بھی بی جے پی کی حکومت کے اشارے اور دباؤ میں اکثریتی طبقے دی گئی ہے۔
مسجد منتقل ہوسکتی ہے؟
ایک فیس بک یوزر ’فکر اردو‘کا فیس بک پر تبصرہ ہے کہ 5ایکر زمین قبول کرنا سودے بازی کی ایک قسم ہوگی۔ مسلمان خود اپنی رقم سے عالیشان وسیع عریض جدید ٹکنالوجی سے لیس بابری مسجد تعمیر کریں۔جب کہ دوسرے فیس بک یوزر سلیم سرفرازکا ماننا ہے کہ زمین لے لینی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین کوئی خیرات میں نہیں دی جارہی ہے۔ حق ملکیت تسلیم کرتے ہوئے زمین منتقل کی جارہی ہے۔ زمین تو لینی ہی چاہیے تاکہ سند رہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ یہ ایک غلط اور حقیقت سے بعید عقیدہ ہیکہ مسجد تاقیامت زمین سے لیکر آسمان تک مسجد ہی رہے گی۔ سب کی جانکاری میں ہے کہ عرب ممالک میں کتنی ہی مساجد دوسری جگہ منتقل کی گئی ہیں۔ کیا ہم عربوں سے زیادہ عربی قران و سنت جانتے ہیں؟ جب کہ محمدصادق نے سلیم سرفراز کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے فیس بک پرلکھا کہ”اسلام میں اوقاف کا معاملہ دیگر معاملات سے الگ ہے۔ مسجد، اللہ کی ملکیت ہے، اسے منتقل کرنے کا حق کسی کو نہیں۔ جو جگہ ایک بار مسجد ہو گئی وہ قیامت تک مسجد ہی رہیگی۔ مسجد صرف عمارت کا، یا صرف زمین کا نام نہیں، بلکہ تحت الثری سے لے کر آسمان کی بلندی تک وہ رقبہ مسجد ہی ہے۔“انھوں نے مزید تبصرہ کیا کہ ”یہ بھی سوچیں کیا صرف اسی 5 ایکڑ زمین کے لیے مقدمہ لڑا جا رہا تھا؟ اگر اسی حد تک بات ہوتی تو 5 نہیں، فریق مخالف آپ کو اس سے بھی زیادہ زمین دیدیتا مگر افسوس سب کچھ تسلیم کرتے ہوئے ہمیں محروم کر دیا گیا۔محمدصادق ے مطابق قران کہتا ہے’مسجدیں اللہ کی ملکیت ہیں‘۔ اسلامی قانون کی ہر کتاب میں یہ مسئلہ صاف صاف درج ہے۔ عرب ممالک میں کسی کام کا ہونا اس کے درست ہونے کی دلیل نہیں۔ اسلام کی دلیلیں قران و حدیث ہیں نہ کہ عربوں کا کوئی کام۔عربوں کی تعلیمی حالت سے اگر آپ واقف ہیں۔
زمیں لیں یا نہیں؟
فیس بک یوزر نورشادانی بستوی پانچ ایکڑ زمین کو پھندا مانتے ہیں کہ آگے چل کر ہر مسجد کو سیاسی فائدے کے لئے مندر میں بدلا جائے گااور بدلے میں زمین دیدی جائے گی۔عبدالرب کریمی بھی زمین لینے کے خلاف ہیں۔جب کہ رفیق الزماں مصباحی کی ایک الگ رائے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ5ایکڑ زمین لے لینا شریعت کے خلاف تو نہیں لیکن مصلحت کے خلاف ضرور ہے۔یہ دوسری مساجد کی منتقلی کا سبب بن جائے گا۔نیزبابری مسجد کا دعویٰ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔مہتاب عالم کہتے ہیں کہ ”زمین لے لینا چاہیے اور اس میں بابری مسجد کا ہو بہو تعمیر کر نا چاہیے۔ مسلمان اپنے پیسہ کا استعمال بابری مسجد کی کاپی کرنے میں خرچ کریں۔ اچھے سے اچھا انجینئر لائیں اور اسکا نام بھی بابری ہی رکھیں۔جب کہ صلاح الدین محمد فرہاد کا تبصرہ ہے کہ جنہیں لگتا ہے زمین لینا غلط ہے اور مسجد بنانا ناجائزہے، وہ نہ زمین لیں، نہ مسجد بنائیں اور نہ اس میں نماز پڑھیں۔ جنہیں لگتاہے زمین لینا اور اس زمین پر مسجد بنانا درست و جائز ہے، وہ زمین لیکر مسجد بنائیں، نماز پڑھیں، اور درس و تدریس کا انتظام بھی کریں۔
تاریخ خود کو دہراتی ہے
بابری مسجد ایک تاریخی حقیقت ہے اور مسئلے سے سب واقف ہیں۔ یہ معاملہ صرف ایک مسجد یا مندرکا نہیں ہے بلکہ بھگواوادیوں کی طرف سے مسلمانوں کو نیچا دکھانے کا ہے۔ آج وہ خود کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں سے آٹھ سوسال کی شکست وہزیمت کا بدلہ لے لیا ہے۔میرا یہ ماننا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے اتارچڑھاؤ آتے رہے ہیں اور بابری مسجد کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اسے صرف ایک مسجد کے معاملے کی طرح نہیں دیکھنا چاہئے۔ میں یہ بھی مانتاہوں کہ ایک وقت آئے گاجب سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی اصلاح ہوگی اور انھیں لوگوں کی اولاد کریگی جوآج مندرمندر کا شور مچارہے ہیں۔ دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور تاریخ خود کو دہراتی بھی ہے خواہ کسی دوسری شکل میں دہرائے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ جن مغلوں نے اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی اور بنوعباس کے مرکز بغداد کو تہہ وبالا کردیا، انھیں کی اولاد کبھی اسلام کی محافظ بن کر ابھرے گی؟کیا کوئی تصور بھی کرسکتا تھا کہ جن افغانوں نے داعیان اسلام کے سامنے سب سے زیادہ مزاحمت کی تھی، انھیں کی اولاد کبھی دوسپر پاور سویت یونین اور امریکہ کے خاتمے کا پیغام لائے گی؟ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا جو کردقوم اسلام سے مزاحم ہوئی تھی، اسی کا ایک فرزند صلاح الدین ایوبی بن کر قبلہ اول کو بازیاب کرے گا؟کیا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا کہ عہد تغلق تک جس کشمیر میں کوئی اسلام کا نام لیوا مشکل سے ملتا تھا، وہی اسلام کی قوت کا مرکز بنے گا؟ ہم مستقبل کونہیں جانتے۔ ہم غیب کا علم نہیں رکھتے مگر ہمیں یقین کامل ہے کہ حق غالب ہوگا اور باطل مٹ جائیگا۔ فی الحال اجودھیا کیس کے سلسلے میں ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اتمام حجت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سامنے، اس کے فیصلے کی خامیوں کو اجاگر کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ آج ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوگا مگرتاریخ کے صفحات میں سچائی ضرور درج ہوجائے گی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
جواب دیں