اکمل نذیر بہرائچی دور حاضر کا عظیم و گمنام شاعر

از قلم: محمد زبیر ندوی

 سرزمین بہرائچ (یوپی) گرچہ علم و ادب اور شعر و سخن میں کچھ خاص  مقام نہیں رکھتی، اور نہ ہی کوئی نمایاں علمی و ادبی یا دینی و اصلاحی کام اس سرزمین سے اب تک وجود میں آیا ہے؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ زمین اہل فضل و کمال اور اصحاب علم و ادب سے تہی دامن یا بانجھ ہے؛ بلکہ اس کی کوکھ سے حاملین علم و ادب، فکری و سیاسی اصحاب بصیرت اور ارباب شعر و سخن کی ایک بڑی تعداد نے جنم لیا ہے، گو کہ بیشتر کے نام و کام پردہ خمول میں پوشیدہ اور صحرائے گمنامی میں پریشاں ہیں، ان اصحاب علم وفضل، ارباب فکر و نظر اور شائقینِ شعر و ادب کی اگر تاریخ مرتب کی جائے تو اس کے لیے ایک وسیع دفتر درکار ہے؛ لیکن بقول غالب:

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

دور حاضر میں بساط عالم کے اس وسیع و عریض دامن کے خطۂ بہرائچ میں آج بھی ایک شخصیت موجود ہے جو اپنی ادبی زندگی، شعری بلندی، سخن نوازی، ادب پروری، بلند خیالی اور فکر و نظر کی عمدگی میں ایک شاہکار ہے، جنہیں شعر و سخن اور علم و ادب موروثی اور فطری طور پر حاصل ہے، جن کے ادبی نگارشات اور لسانی کمالات صرف فیس بک کی دنیا تک محدود ہیں حالانکہ انہیں منظر عام پر آنے کی ضرورت ہے، تاکہ ساری دنیا ان کے شعر و ادب سی مستفید ہو سکے، ان سے ہماری مراد گمنام و باکمال شاعر جناب *اکمل نذیر* صاحب ہیں۔

 اکمل نذیر صاحب کی پیدائش ١٩٧٢ء میں شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں ہوئی، آپ کے والد محترم جناب ماسٹر نذیر صاحب شہرِ بہرائچ کی نہایت علمی اور قابل قدر شخصیت تھی، آزاد اردو کالج سے منسلک تھے، اردو نثر نگاری میں کمال کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب سے کافی دلچسپی رکھتے تھے؛ بلکہ بعض اوقات عرب و مصر کے بعض احباب سے مراسلت بھی بزبان عربی  ہی کرتے تھے، حالانکہ ان کا اصلی کمال فن ریاضی میں تھا جس کے وہ گولڈ میڈلسٹ بھی تھے اور ہزاروں تلامذہ کے استاذ تھے۔

کہا جاتا ہے کہ "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات" اکمل نذیر خود بھی بچپن سے ذہین و فطین تھے ہی، والد بزرگوار کی صحبت و تربیت اور علمی وادبی نگہبانی نے نور علی نور کی کیفیت پیدا کر دی، آپ نے ابتدائی تعلیم ماڈرن مشن اسکول (موجودہ وقت میں مارنگ اسٹار اکادمی) بہرائچ میں پائی۔ ہائی اسکول اور انٹر کے امتحانات شہر بہرائچ کے مشہور کالج آزاد انٹر کالج سے پاس کیا، بی۔ اے اور ایم۔ اے کی ڈگریاں اودھ یونیورسٹی کے کسان پوسٹ گریجوٹ کالج بہرائچ سے حاصل کیں۔ اور سب میں نہایت اعلیٰ نمبرات سے کامیاب اور فائق رہے۔ 

اکمل نذیر صاحب نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں اپنا اصل موضوع تو انگریزی زبان وادب کو بنایا، انگریزی مصنفین کو پڑھنا اور ان کے شعر و ادب سے کسب فیض کرنا محبوب مشغلہ تھا، اسی دلچسپی نے اکمل صاحب کو اُردو شاعر سے پہلے انگریزی شاعر بنا دیا، آپ نے متعدد غزلیں اور کامیاب نظمیں انگریزی زبان میں لکھی ہیں، گویا انگریزی زبان و ادب آپ کے گھر کی چیز ہے، آپ کی بعض نظموں کو بے انتہا پذیرائی حاصل ہوئی، حتیٰ امریکہ جیسے ملک میں بھی آپ کی متعدد انگریزی نظمیں وہاں کے مقامی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، آپ کی بیشتر نظمیں اکمل نذیر کی فیس بک وال پر دستیاب ہیں، قارئین باتمکین بآسانی وہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

آپ کی انگریزی نظموں میں The clock tower of Bahraich. My father وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔

اکمل صاحب کی انگریزی شاعری کے بعد اردو شاعری بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے، راقم الحروف نے ابھی تک صرف پڑھا تھا کہ شاعر بنتا نہیں پیدا ہوتا ہے؛ مگر یقین کی منزل تک یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی، لیکن استاذ گرامی جناب اکمل نذیر صاحب سے ملنے اور بارہا صحبت یاب ہونے اور ان کے اشعار کو پڑھنے کے بعد یہ علم یقین کے درجے کو پہنچ گیا، کیوں کہ أکمل صاحب کا نہ کوئی استاد سخن ہے اور نہ ہی کوئی مصلح، لیکن فطری قوت سخن اور قادر الکلامی نے ان کے اشعار میں بلا کی روانی اور عجب تاثیر پیدا کر دی ہے؛ گو کہ اکمل صاحب شعراء میں غالب، الطاف حسین حالی، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض سے کافی متاثر ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے مگر مقلد محض نہیں ہیں۔ بلکہ فکر میں رنگا رنگی، جدت طرازی، وسعت و ہمہ گیری کی مختلف سرحدوں اور پہنائیوں کو سر کر لینے کی دھن میں لگے ہوئے۔

اکمل صاحب کی شاعری صرف غزلیات و خمریات ہی تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ قطعات نظمیں، مسدسات اور مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی اور آبلہ پائی کی سعادت آپ کو حاصل ہے۔

اشعار میں روانی کے ساتھ برجستگی بھی بلا کی ہے، شعر و ادب کی زبان میں یو سجھئے کہ آورد سے زیادہ آمد اور کھینچ تان کے بجائے فطرت ہی فطرت نمایاں ہے، جس قافیے یا بحر میں کہنے کا ارادہ کیا ہے تو ایسا کہتے چلے گئے ہیں گویا یاقوت و زمرّد کو لڑی میں پروتے ہوئے ایک شاندار قسم کا ہار بنا کر کسی ماہ وش و ماہ لقاء کی گردن ناز میں ڈال دیا ہے، جس غزل کو پڑھئے تو پڑھتے چلے جایئے، اشعار میں سمند تفکر کو دوڑائیے تو ایک طرف عشق مجازی کا جلوہ ہے تو دوسری جانب اس کی تہ میں پوشیدہ عشق حقیقی کے راز ہائے سربستہ، کیا مجال کہ بے کیف طبیعت کو کیف و سرور حاصل نہ ہو، اشعار میں کہیں دلاسہ ہے، تو کہیں دل سوزی ھے، کہیں دلربائی ہے تو کہیں دلبری ہے، کہیں ہجر کے شکوے ہیں تو کہیں وصل کی امیدیں ہیں، کہیں اپنی بیقرار طبیعت کا انفعال ہےاور کہیں فرحت و انبساط کا اظہارِ خیال، کہیں تاریخ کہنہ کی یاد ماضی ہے اور کہیں مستقبل کی صبح امید، کہیں تصوف و سلوک کی رمز شناسی و حق آگاہی ہے تو کہیں دار فانی کے ادبار و زوال کا درس عبرت، گویا آپ کی شاعری مرنجاں مرنج خصوصیات کی حامل ہے۔

شاعری دراصل فطرت کی عکاسی کا دوسرا نام ہے، شاعر فطرت شناس بھی ہوتا اور فطرت بیاں بھی، فطرت کا پیغام بر بھی ہوتا ہے اور مناظر فطرت کا عاشق زار بھی، غالباً اسی نکتے کو شاعر فطرت شناس علامہ اقبال مرحوم نے نہایت حسین انداز میں کہا تھا

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر

اکمل نذیر صاحب نے ہمیشہ لالہ و گل سے کلام کرنے کی کوشش کی ہے، ان کے پیغام کو سنا بھی ہے اور سمجھا بھی، اور اسی پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح لالہ و گل خوب رو اور نرم خو ہوتے ہیں ویسے ہی آپ کا لہجہ بھی خوب رو اور نرم خو ہے اکمل صاحب کو خود بھی اپنی اس اعلی صفت پر ناز ہے اور کہتے ہیں:

پوچھتے کیا ہو ہمارے ظرف کی اکملؔ یہاں
صحبت اغیار میں بھی لہجہ میعاری رہا

اسی غزل میں عام انسانوں کے جذبات اور خوابیدہ تصورات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

رکھ کے قدموں میں کسی کے وہ کلاہ آبرو
گوشہ دل میں چھپائے شوق سرداری رہا

منجمد تھا جن کی آنکھوں میں تمناؤں کا خوں
کس قدر دھندلا وہاں پر خواب بیداری رہا

شاعری انسانی قلوب میں اٹھنے والے جذبات بے کراں کو الفاظ کا لگام دینے کی مانند ہے، شعراء اپنے دور کے بہترین مؤرخ اور تہذیب و ثقافت کے امین ہوتے ہیں: غالبا اسی لیے ماجد دیوبندی کو کہنا پڑا

ماجد ہے مرا شعر مرے عہد کی تصویر
غالب کی غزل، میر کا دیوان نہیں ہے

اکمل نذیر صاحب کی شاعری بھی اس سے الگ نہیں ہے، انکی شاعری بھی دور جدید کی بہترین عکاس ہے۔ موجودہ دور میں حکومت کے مخصوص روئیے کو دیکھیے کس حسن و خوبی سے بیان کردیا ہے الفاظ کی ساحری کےساتھ اپنی بیزاری بھی نہایت عمدگی سے ظاہر کردی ہے چنانچہ کہتے ہیں:

ہزاروں بار بھی گر کر سنبھل گئے کچھ لوگ
تم ایک بار بھی گر کر سنبھل نہیں سکتے

بدلنے والے بدلتے ہیں ملک کی تقدیر
سوائے نام کے تم کچھ بدل نہیں سکتے

اکمل صاحب کی شاعری میں جذباتیت بھی ہے اور غزل نگاری کی بلندی بھی، جو شعر بھی کہتے ہیں وہ بیک وقت قلب و دماغ کی کشش کا باعث ہوتا، مثلا یہی غزل دیکھیے ایک ایک حرف موتی اور ایک ایک مصرع جبین ناز کا زریں جھومر معلوم ہوتا ہے، اکمل صاحب کہتے ہیں اور کس خوش اسلوبی سے کہتے چلے گیے ہیں:

شکستہ ذہن کی تعمیر ہوں کدھر جاؤں
ذرا وہ ہاتھ لگا دے تو میں سنور جاؤں

جو میرے بعد بھی مقبول خاص و عام رہے
خدا کرے کہ کوئی کام ایسا کر جاؤں

یہی تقاضہء الفت ہے اے رقیب مرے
کہ سوئے دار بھی جاؤں تو بے خطر جاؤں

ترے ہی غم سے جو منسوب ہوں تو زندہ ہوں
دیار غیر سے وابستہ ہوں تو مر جاؤں

انا پسند طبیعت مری نہیں اکمل
وہ اپنی سمت بلائے تو بھاگ کر جاؤں

اسی طرح ایک اور غزل دیکھیے کہ کس طرح آمد ہی آمد ہے، اکمل صاحب کہتے ہیں:

دینا ہے گر تجھے تو غم اعتدال دے
یا مجھکو اپنے شوق کے سانچے میں ڈھال دے

اب تو حصار ذات سے باہر نکل کے آ
ایسا نہ ہو کہ دل سےتجھے وہ نکال دیے

دریا بھی سہ سکے نہ مرے ظرف کا وزن
میں ڈوبنا بھی چاہوں تو مجھکو اچھال دے

لفاظیوں میں وعدہ خلافی میں جھوٹ میں
جو اپنی خود مثال ہو وہ کیا مثال دے

مٹی کو میری کیمیا کردے مرے خدا
اور کاوشوں کو تو مری حسن کمال دے

کوئی تو ہو جو گرمئ حسن عمل سے اب
ٹھنڈے لہو کو سینوں میں پھر سے ابال دے

اکمل تری نگاہ کرم کا ہے منتظر
 ساقی شراب پیالے میں بھر بھر کے ڈال دے

اب جب اکمل صاحب کے حسن گفتار کی بات ہی چل نکلے ہے تو یہ غزل بھی پڑھ لیجیے، آنکھیں اشکبار ہوجائیں تو مضائقہ نہیں، درد نہاں، سوز دروں اور برق تپاں کی آئینہ دار، خلوص و سچائی سے لبریز اس غزل کو پڑھئے اور بار بار پڑھئیے:

تم نے کیسی آگ لاگ دی
اشکوں کی برسات کرا دی

ان سے خیر نہ کچھ بن پایا
عشق میں ہم نے جان لٹا دی

تیرے میرے بیچ میں کس نے
نفرت کی دیوار اٹھا دی

اس نے عاصی کہہ کر ہم کو
آج ہماری عمر بڑھا دی

دور سے ملنا جُلنا اچھا
قربت نے یہ قید لگا دی

دل کا خانہ خالی خالی
اشکوں نے تصویر مٹا دی

اکمل ایسے ویسے ہو کیا!
جس نے چاہا چوٹ لگا دی

انسانی زندگی میں خودی اور انسانی ضمیر کے احساس کی بڑی اہمیت ہے علامہ اقبال کا تو مستقل یہی موضوع سخن ہے؛ لیکن کوئی بھی شاعر اس سے الگ نہیں ہوسکتا۔ اکمل صاحب نے بھی خودی اور ضمیر کی آواز کو سننے اور اس پر لبیک کہتے ہویے اپنے جذبات دل کو الفاظ کا قالب دیتے ہوے بڑے طمطراق سے کہا:

جب بھی ہوتا ہے مجھے عزم جواں کا احساس
لامکانی میں بھی رہتا ہے مکاں کا احساس

زندگی بھر وہ ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں
وقتِ رخصت ہی ہوا کرتا ہے جاں کا احساس

نشّۂ زور بیاں کی تو نہ پوچھو یارو
ان کو ہوتا ہی نہیں سوز نہاں کا احساس

پھر دیکھے اب کیا کہا ہے! عشق حقیقی کی منزل یا تصوف و سلوک کی گزرگاہ میں سالک کے حال کو کس طرح بیان کیا ہے بس کمال کر دیا ہے گویا دانستہ مصور نے قلم توڑ دیا:

ترک نسبت پہ تری یہ بھی ہوا ہے اکثر
ایک لمحے پہ بھی گزرا ہے زماں کا احساس

ہر نفس ان کی ہوا کرتی ہے حامل سچ کی
جنکو ہوتا ہی نہیں جاں کے زیاں کا احساس

دل کو جب فرصت اظہار محبت ہی نہ ہو
کیسا غم، کیسی خوشی، اور کہاں کا احساس

پھر اب مقطع دیکھیے، کیا کمال کا مقطع ہے:

سوز دل، سوز جگر، سوز تمنا اکمل
جاں پہ ہوتا ہے مری برق تپاں کا احساس

دنیا کے ہر شخص کو معلوم ہے کہ عشق ومحبت کی پرپیچ راہ میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے جہاں محبوب ہی سب طرف نظر آتا ہے، اسی کے جلوے، اسی کے اشارے، اسی کی دنیا نظری آتی ہے ایسے مقام پر پہنچ کر انسان اپنے محبوب کو خضر راہ سمجھ لیتا ہے اور اپنی زندگی کا باگ ڈور محبوب کے قدموں میں ڈال دیتا ہے جیسا چاہے چلائے، یہ منزل تصوف و سلوک میں ضرور آتی ہے اب دیکھیے راہ محبت کا ایک مسافر کس حسین پیرایہ میں ان جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے پڑھئے اور سر دھنیے اکمل صاحب فرماتے ہیں:

آگہی تو ہے بس عارضی راستہ
منزل عشق کا بیخودی راستہ

خوش نما ہو فضا، صندلی راستہ
ہو محبت کا اک باہمی راستہ

سونپ دی ہے قیادت ترے ہاتھ میں
اب جسے تو کہے ہے وہی راستہ

زیر آب رواں کوئی ہلچل سی ہے
یوں بدلتی نہیں ہے ندی راستہ

شوق منزل بھی عزم سفر بھی وہی
پر ہے آنکھوں سے میری خفی راستہ

نقش پا سے ترے جو مزین ہوا
ہے مقدر کا اپنے دھنی راستہ

کچھ تمیز بد و نیک رہتی نہیں
 جب دکھاتی ہے ہم کو بدی راستہ

اپنی غیرت پہ رہنا ہے قائم اگر
عین دریا میں ہے تشنگی راستہ

ٹھیک ہے کوششیں خوب جاری رہیں
پر مصائب میں ہے بندگی راستہ

کل تلک تھا جو الفت سے مہکا ہوا
ڈھونڈتے ہو کہاں تم اجی راستہ

جستجو ایک لمحے کی اکمل کبھی
طے کراتی ہے پوری صدی راستہ

کیوں ہراساں ہے اکمل امیدوں سے تو
ہے حقیقت کا بس خواب ہی راستہ

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فکر و غم، تمنا و محرومی انسانی دنیا کے لوازمات میں سے ہیں، اور یہ کوئی خامی نہیں؛ بلکہ انسانی دنیا کے لیے خوبی ہے، اس سے نئے حوصلے، نئی اڑان، اونچی پرواز اور نہ جانے کیا کیا حاصل ھوتے ھیں، مولانا رومی نے تو بڑے مختصر لفظوں میں اس گتھی کو سلجھا کر بتا دیا تھا کہ

دریں دنیا کسے بے غم نہ باشد
اگر باشد بنی آدم نہ باشد

لیکن غموں کا لطف وہی پاسکتا ہے جس کے اندر کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہو، اب دیکھیے اکمل صاحب کا نظریہ ملاحظہ فرمائیے کس شان حسن و ناز سے کہتے ہیں:

گر غموں سے بنی نہیں ہوتی
مشکلوں میں کمی نہیں ہوتی

ان کی آنکھوں سے پی نہیں ہوتی
پھر یہ دیوانگی نہیں ہوتی

وہ بھی ہوتی ہے بات محفل میں
آپ نے جو کہی نہیں ہوتی

پھر دیکھیے کیا شعر کہا ہے، قرآن و حدیث کا نچوڑ دریا بکوزہ کی مصداق چند لفظوں میں بیان کر دیا ہے

معصیت سے نہ روک پائے جو
ہم سے وہ بندگی نہیں ہوتی

پھر دیکھیے کیا کہا اور کیا خوب کہا:

گر یہ محرومیاں نہیں ہوتیں
زندگی زندگی نہیں ہوتی

تم کو عادت ہے بھول جانے کی
مجھ سے یہ بے رُخی نہیں ہوتی

اب دیکھیے کیا کہا! واہ صاحب واہ! کمال نہیں اکمل ہے یہ شعر غزل کی روح، محبت کی جان:

عشق ہوتا ہے جس جگہ یارو
کوئی آلودگی نہیں ہوتی

غم سے رشتہ بحال رکھتا ہوں
ہر خوشی دائمی نہیں ہوتی

دل کا دل سے عجیب رشتہ ہے
اس میں سوداگری نہیں ہوتی

جس سے عزت کا ہو زیاں اکمل
مجھ سے وہ عاجزی نہیں ہوتی

قارئین باتمکین یہ جناب اکمل نذیر صاحب کی شاعری کے چند نمونے تھے جو آب کی خدمت میں پیش کیے، جن قارئین کو مزید پڑھنا ہے akmal Nazir کی وال پر فیسبک پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں، خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ شعر و ادب کے اس مسافر کو مزید حوصلے عطاء ھوں اور ہمارے شہر بہرائچ کے علمی و ادبی میدانوں میں یہ میر کارواں اور سالار قافلہ کی حیثیت سے نمودار ہوں۔

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں۔ 
15؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

«
»

اب دیکھو کیا دکھائے نشیب و فراز دہر

مرثیہ بروفات : استاد گرامی قدرحضرت مولانا سید واضح رشید ندوی رحمۃ اللہ علیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے