اخبارات بکے مگر آپ ڈٹے رہیں

سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے علاوہ اس بار عام آدمی پارٹی نے بھی اپنے امیدوار کہیں جگہ کھڑے لکئے ہیں اور چھ مہینے پرانی اس پارٹی کو پسند بھی کیا جارہا ہے مگر چمک۔دمک کی دنیا اور اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں اس پارٹی کو کم جگہ مل رہی ہے۔ در اصل میڈیا پر یہ الزام بار بار عاید کیا جارہا ہے کہ مودی اینڈ کمپنی نے اسکو خرید لیا ہے۔سچ بھی یہی ہے کہ قومی سطح کی سیاسی پارٹیوں بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی نے میڈیا کا پوراا ستعمال زیادہ تر اپنے مفاد کیلئے کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی بھی پارٹی کو سرمایہ دار مالکان کی ضرورت ہوتی ہے اسلئے اس جمہوری نظام میں بھی سرمایہ دارانہ نظام پوری طرح سے پیوست ہوگیا ہے۔عام آدمی پارٹی کے پاس نہ تو کروڑوں روپئے کا خزانہ ہے اور نہ ہی اسکو اس طرز فکر پر اعتبار ہے۔یہی وجہ ہے کہ تقریبا سبھی زبانوں کے اخبارات کو اشتہارات اور پیڈ نیوز کے ذریعے خریدا جا چکا ہے۔ اردو کے اخبارات جو برا نام رکھتے ہیں انکو بھی اشتہارات اور سبز باغ دکھا کر فرقہ پرستوں نے رام کرلیا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اردو اخبارات جو ہمیشہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی مذمت کرتے نہیں تھکتے ان کے صفحات بی جے پی کے اشتہارات سے بھرے پڑے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو اخبارات دوغلی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔انہوں نے اس الکشنی موسم میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کو اپنا دین سمجھ لیا ہے،پیڈ نیوز کے طور سے وہ بچی کھچی صحافتی دیانتداری کو بھی بازار میں رہن رکھ چکے ہیں۔
اردو اخبارات کے ملکان کا اپنے اسٹاف پر زور اور سیاسی پارٹٰوں کے حق میں اشتہار نما مضامین شائع کرنے کا دباو پریشانیاں پیدا کرتا ہے۔ اخبارات کی اس روش نے اسٹاف کے زہنوں میں بہت سے شکوک پید اکر دیئے ہیں کہ آخر انکے مالکان چاہتے کیا ہیں؟ وہ کتنا سرمایہ جمع کرنے کے فراق میں ہیں اور اردو قارئین کو ہمیشہ بھگوا دھاریوں کے خلاف اکسانے، بھڑکانے اور سیکولر ازم کا پاٹھ خود تو پڑھاتے ہیں مگر الیکشن میں انہی کمیونل فورسیز کو طاقت پہنچانے کی کوئیکسر نہیں چھوڑتے ہیں۔اردو اخبارات کے مالکان اور اڈیٹروں کی اس الیکشن میں بھی بڑی تعداد میں بی جے پی اور اسکے حواریوں کی چوری چوری چپکے چپکے مدد کی ہے اور وہ گناہ کئے ہیں جو عالم انسانیت پر ہمیشہ دیکھے جاسکیں گے۔
نوجوان صحافی ایم کیو صدیقی کا کہنا ہے کہ اخبارات پوری طرح سے دھندے بازی میں ملوث ہیں اور پیڈ نیوز کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ایک اردو اخبار جس کا خاصہ نام ہے اسکے نیوز ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ راتوں رات خبریں تبدیل کرنا اور من مانی خبروں کو شامل اشاعت کرنا درد سر بنا جاتا ہے۔اخبارات کے مالکان اپنے سیاسی عزائم اور راجنیتیک رشتوں کی وجہ سے اس مقدس پیشے سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔اس سے عام قارئین میں صحافت کے تئیں بے اعتمادی اور بے یقینی بڑھ رہی ہیے۔اردو کے ایک مشہور روزنامہ کے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ مالکان اور ایڈیٹر اپنے ناقابل یقین دھندوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور صحافت کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔دہلی، ممبئی، لکھنو کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی اس وبا نے اپنے پنجے پھیلانا شروع کردیئے ہیں۔نتیجہ یہ ہے اردو کے اخبارات کی ساکھ روز بروز گرتی جا رہی ہے۔ لکھنو کے ایک مشہور روزنامہ کے ایک سب ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ بظاہر اخبار ایمانداری اورغیر جانبداری کا شور کرتے ہیں مگر حقیقت بر عکس ہے۔انکے منیجر اشتہارات کی بازار میں ہمہ وقت دوڑ بھاگ کرتے ہیں اور انکو بھگوا دھاریوں کے مظالم اور زیاتیوں سے اس الکشنی موسم میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ایک اخبار اپنے ملٹی ایڈیشن کی وجہ سے الکشن کے دوران لاکھوں اور بعض تو کروڑوں روپیئے کی تجارت کرتے ہیں اور عام دنوں میں وہ کمیونل ازم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔اس سلسلے میں اردو اخبارات کا ایک سروے کیا گیا تو ایماندا صحافیوں کی حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ کروڑوں روپئے میز کے نیچے اور اشتہارات کے بدلے انگنت دولت کمانے والے اردو اخبارات اپنے اسٹاف کو نہ تو مجیٹیا کمیشن کی سفارشات جسکو سپریم کورٹ نے بھی اپنی منظوری دے دی یے ،ان پر عمل کرتے ہیں اور نہ اتنی تنخواہیں دیتے ہیں کہ اسٹاف آسانی سے اپنا گھر بار چلا سکے
حال ہی میں بی جے پی اور کانگریس کے الیکشنی اشتہارات کی وجہ سے اردو اخبارات نے نہ صرف قارئین کو گمراہ کیا بلکہ اپنی جیبوں کو بھی خوب بھرا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اردو پڑھنے والے خانوادے اخبارات کی پالیسیوں کی وجہ سے ووٹنگ میں کنفیوزن کا شکار رہے۔اتر پردیش کی راجدھانی لکھنو کے اردو اخبارات نے بھی موقع غنیمت جان کر خوب کمائی شروع کردی ہے۔ابرار احمد جو کہ کافی دنوں سے صحافت کی دنیا میں کہتے ہیں کہ پورے پانچ سال تک ہمارے اخبارات اردو پڑھنے والوں کے ذہنون میں بی جے پی اور سنگھ پریوار سے بفرت کرنے کا سبق دیتے ہیں مگر الیکشن کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ انکا رول گندہ، لالچی اور غیر ذمہ دارانہ ہوتا ہے،۔ انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ اردو اخبارات کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ ہاشم عبداللہ کا خیال ہے کہ اردو صحافت جس نے جنگ آزادی میں اہم ترین رول ادا کیا تھا آج اسکی حالت ایک بکاؤ مال جیسی ہوگئی ہے اور اس خدمت کو ایک گندی تجارت بنا دیا گیا ہے۔
(صحافی شمیم احمد کا تعلق دلی،بمبئی ، لکھنو کے متعدد اخبارات سے رہا ہے)

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے