ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

    تین طلاق بل منظور ہوگیا۔ نہ تعجب ہے نہ حیرت۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہم اس پر نہ تو احتجاج کرنا چاہتے ہیں نہ ہی واویلا۔ بلکہ ارباب اقتدار سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ قانون کی منظوری ہمارے نشأۃ ثانیہ کا آغاز ہے۔ جس کامیابی کا جشن منایا جارہا ہے‘ وہ عارضی ہے۔ کیوں کہ ایوان پارلیمان میں ہماری دوست کہلانے والی‘ ہم سے ہمدردی جتانے والی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے ہمارے جذبات کے ساتھ جس طرح سے کھلواڑ کیا ہے اُس نے ہمیں خواب غفلت سے بیدار کردیا۔ ہم میں احساس جگادیا کہ جب تک ہم افراد اور جماعتوں پر بھروسہ کرتے رہیں گے اِسی طرح رسوا ہوتے رہیں گے۔ اِسی طرح ہمارے حقوق ہم سے چھینے جاتے رہے ہیں۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تب سے پہلی بار ہم نے ہماری قوم کو اچانک بیدار ہوتے ہوئے دیکھا اور پہلی مرتبہ اُن نام نہاد سیکولر جماعتوں کے حالیہ الیکشن میں شکست پر دیر سے سہی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔ جو کامیاب ہوگئے ہیں‘ شاید مستقبل میں ہماری تائید سے محروم ہوجائیں گے۔ ہم نے بعض دانشوروں کو اور کچھ نوجوانوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ جب سیکولرازم کا نقاب پہنے اور سیکولرازم کی دھجیاں اُڑانے والوں کے مسلمانوں کے حقوق اور مفادات سے متعلق عمل اور اقدام ایک ہی ہیں‘ تو چھپے ہوئے دشمن کے مقابلے میں کھلا دشمن زیادہ بہتر ہے۔ جس سے کم از کم ہم چوکس رہ کر مقابلہ تو کرسکتے ہیں۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے ایوان پارلیمان میں سینہ ٹھونک کر ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کی مذہبی جذبات کی ترجمانی کی ہے کہ صبح قیامت تک مسلمان اپنے دین پر قائم رہیں گے۔ چند مٹھی بھر ایسے بھی ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کی عزت، وقار، مذہبی اقدار ضرور متاثر ہوئے ہیں۔ ان کا پہلے سے بھی کوئی شمار نہیں تھا۔ اور اب تو اس قانون کے بعد یہ نہ تو گھرکے ہیں نہ گھاٹ کے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری اپنی کچھ کوتاہیاں اور غلطیاں رہیں‘ ہوسکتا ہے کہ ہم نے بھی اپنی بعض بہو بیٹیوں کے ساتھ ناانصافی اور ان کی حق تلفی کی ہوگی جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد یقینا ہم اپنا محاسبہ کریں گے۔ یہ احساس تو ہوچکا ہے کہ:
اک دورِ غلامی وہ بھی تھا‘          اِک دورِ آزادی یہ بھی ہے
اُس دور میں سہنا مشکل تھا"    اِس دور میں جینا مشکل ہے
    ہماری تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ لفظ مایوسی ہماری ڈکشنری میں نہیں ہے۔ ہم نے ہر دور میں حالات کا مقابلہ کیا۔ ہر دور میں ہم پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ہمارے مذہبی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ہماری عبادت گاہیں بند کردی گئی ہیں۔ مذہبی لٹریچر کو تلف کردیا گیا۔ اس کے باوجود ہمارا وجود باقی ہے۔انشاء اللہ قیامت تک باقی رہے گا۔
    موجودہ حالات سے ہم اس لئے مایوس نہیں ہیں کہ اس کا پہلے سے ہی اندازہ تھا چوں کہ ہم خواب غفلت میں رہے‘ اور ہمارے اکابرین نے بھی ہمیں جگانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خود اپنی اپنی دکانداری اور مذہبی ٹھیکے داری میں اتنے مشغول رہے کہ انہوں نے بار بار اپنے مفاد کی خاطر ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ اب اس قانون کی منظوری کے بعد جب ان کی اپنی قدر و قیمت گھٹنے لگی‘ اور اس سے پہلے کہ قوم اور ملت پوری طرح سے انہیں نظر انداز کردے انہیں پہلے اپنی اور پھر قوم کی اصلاح کی کوشش کرنی ہوگی۔ ہمارے اکابرین کا جو مقام آہستہ آہستہ متاثر ہوتاجارہا ہے اس کی ایک وجہ ہمارے مخالفین کی منصوبہ بند سازش بھی ہے۔ جس طرح اسپین میں مسلمانوں کو پوری طرح سے پسپا اور محکوم کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے کے لئے پہلے ان کی مذہبی قیادت کو کمزور کیا گیا ان میں تفرقہ پیدا کیا گیا۔ جب مسلمانوں کی طاقت منتشر ہوگئی‘ قیادت اعتماد سے محروم ہوئی تو مسلمانوں کو اسپین سے ملک بدر کرنے میں زیادہ محنت نہیں لگی۔ آج کے حالات ماضی کے انہی واقعات کا ”ری۔پلے“ ہے۔ ہم میں سے اکثر اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہیں اس لئے آسانی سے دشمن کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ گذشتہ 70برس کے دوران جو کچھ بھی ہوا اور 18برس کے دوران جو حالات اور واقعات پیش آئے اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور تاریخ کے پس منظر پر ایک نظر ڈالی جائے تو بقول یاسر ندیم واجدی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اسپین میں عیسائیوں کا مسلمانوں کے ساتھ‘ فلسطین میں اسرائیلیوں کا فلسطینیوں کے ساتھ، جنوبی افریقہ میں سفید فام عوام کا سیاہ فام عوام کے ساتھ جو سلوک کیا گیا‘ جس طرح سے ہجومی تشدد کے ذریعہ ان کی حوصلہ شکنی کی گئی انہیں مرعوب کیا گیا‘ خوفزدہ رکھا گیا‘ آج ہمارے ساتھ اُسی کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وقتی طور پر تو کامیابی ملے گی‘ مگر اب ہمارا شعور بیدار ہونے لگا ہے، ہمیں اپنی غلطیوں کے ا حساس کے بعد آپسی اتحاد پوری شدت اور قوت کے ساتھ اس سرزمین پر عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا جذبہ بیدار ہورہا ہے‘آج جو جشن منارہے ہیں‘ آنے والے کل صرف اس جشن کی یاد میں آہیں بھرتے نظر آئیں گے۔
    بیرسٹر اسدالدین اویسی بلاشبہ ہندوستانی مسلمانوں کے قائد ہیں۔ اور انہوں نے مرد مجاہد کی طرح دوٹوک لہجہ میں یہ کہہ دیا ہے کہ قانون بن جانے سے مذہبی قدریں نہیں بدل جاتیں۔ اب ہمیں شرعی قانون کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ اور شرعی عدالتوں میں اب زیادہ سے زیادہ فیصلے کئے جائیں گے۔ چند مٹھی بھر مفاد پرستوں کے سوا‘ قوم کی اکثریت چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو‘ اپنے دین اور مذہبی اقدار کیلئے ہر قسم کی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ایک دو واقعات سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ہم یہ جانتے ہیں کہ موجودہ حالات کے لئے ہم بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔ ہم ہر لحاظ سے اس سرزمین پر مساویانہ حقوق کے حامل ہیں۔ مگر اکثریت اور اقلیت کے نام پر حقوق کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمیں جو دستوری حق دیا گیا ہے ہم اس کا استعمال نہیں کرتے۔ جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔ مسلم دشمن طاقتیں ہزاروں خانوں میں تقسیم ہونے کے باوجود محض ہماری دشمنی میں متحد ہوکر اس آس میں ایسی حکومتوں کو منتخب کررہی ہیں جن سے انہیں امید ہے کہ وہ ہمارے وجود کو مٹانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ محض انکی احمقانہ سوچ ہے کیوں کہ ہم ہر دور میں ایسے آزمائشی حالات کی بھٹیوں میں تپتے رہے‘ کندن بن کر نکلتے رہے۔ بقول علامہ اقبال:
”کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا“
    ہمارے خلاف قوانین منظور ہوتے جائیں گے اور ہم اللہ نے چاہا تو شرعی قانون کی روشنی میں اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ہمارے تشخص کو مٹانے کی کوشش کرتی رہے گی اب ہم اپنی شناخت قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی جدوجہد کریں گے۔ ہماری عیدین کے موقع پر مختلف بہانوں سے ہمیں پریشان کیا جاتا رہا ہے۔اب ہم متحدہ اور مشترکہ فیصلہ کریں گے اور ہمیں پریشان کرنے والے اپنے گھٹنوں کے بل آجائیں گے۔ کیوں کہ ہمارا اتحاد محض مسجد میں نماز کی صفوں تک محدود نہیں ہوگا‘ بلکہ ہر شعبہ حیات میں اس کا مظاہرہ ضروری ہے۔ سڑکوں، پارکس کے نام جو ہمارے اسلاف کے نام سے موسوم تھے‘ انہیں تبدیل کیا گیا۔ اب ٹیپو سلطان شہید کی یوم پیدائش سرکاری طور پر نہ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ یہ بات تو ثابت ہوہی گئی کہ انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کرنے والے تلوار اٹھانے والے‘ ہندوستان کی آزادی کے لئے انگریزوں سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کرنے والے اس سرزمین کے اولین شہید کے ساتھ ذہنی تعصب کا اظہار نہیں ہوا بلکہ اپنے انگریز آقاؤں کی خوشنودی کے لئے یہ کام کیا گیا۔ ٹیپو سلطان شہید کے چاہنے والے صرف مسلمان نہیں بلکہ کرناٹک کے بیشتر عوام ہیں۔ حکومت نہ منائے‘ سرکاری طور پر ان کی یوم پیدائش کی تقاریب۔ اس پراحتجاج ضروری ہے مگر اس سے زیادہ ضروری ہے کہ کم از کم ٹیپو شہید سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرنے والے اپنے اپنے طور پر ان کی یوم پیدائش کے موقع پر ایسی تقاریب کا اہتمام کریں جس سے برطانوی سامراج کے نسل درنسل غلاموں کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ یہ قوم 
”اتنی ہی اُبھرے گی جتنی دباؤگے“ انشاء اللہ
    ہماری تہذیب، زبان، مذہبی تشخص، عبادت گاہوں کا تحفظ، ہماری اپنی ذمہ داری بھی ہے۔ اس کے لئے اپنی صفوں سے چن چن کر منافقوں‘ دشمنوں‘ مخبروں کو نکالنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو ہر طرح سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ جسمانی، ذہنی، معاشی اور سیاسی طور پر۔ اور اس کے لئے اگر ہم آج اپنے مفادات کو قربان کریں گے تو یہ قربانی آنے والے کل کا تحفظ کرے گی۔ مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ جب جب اندھیرے بڑھتے ہیں‘ ایک نئی روشنی کی اتنی ہی امید جاگتی ہے اور بقول شاعر کہ:
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

یکم اگست 2019(فکروخبر)
 

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے