ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی

فلسطینیوں کی مظلومیت کے نام پر جمال عبدالناصر ،حافظ الاسد ، صدام حسین اور یاسر عرفات جیسے لوگ کچھ دنوں تک زبانی جمع خرچ کے ذریعہ عالم اسلام کے ہیرو بھی بنے 1918ء کے بعد عالم عرب میں جتنی بھی حکومتیں بنی الا ماشاء اللہ سب کے سب دجال مسیح یا انٹی کرائسٹ کی ہی چیلی رہی ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کے نام پر فتح گروپ کو بھی میں اسی کٹیگری میں رکھتا ہوں۔ 
پانچ چھ کروڑ مصری عوام اوردو کروڑ سعودی عوام میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن فی الحال قدرت نے ان کی گردن پر عبدالفتاح الیسیسی اورعبداللہ بن عبدالعزیز جیسوں کو مسلط کررکھا ہے قدرت کی مصلحتوں کو کوئی نہیں جان سکتا وہ جب یوسف ؑ کو مصر بھیجنا چاہتی ہے توبھائیوں کے ہاتھ سے انہیں کنویں میں ڈھکیلوادیتی ہے اور جب انہیں مصر کی حکومت عطا کرنی چاہتی ہے تو عزیز مصر کی بیوی انہیں ایک گھناؤنے الزام میں جیل میں ڈال دیا کرتی ہے۔ فلسطینی عوام کے دامن پر 1917میں ترکوں سے بغاوت کا زبردست داغ تھا میرا خیال ہے کہ اب وہ اپنے خون سے اس داغ کو دھوچکے ہیں شام کے عوام اب جاکر اس داغ کو دھورہے ہیں جو انہوں نے حافظ الاسد اور بشارالاسد جیسے غداروں کو اپنے آپ پر مسلط کرکے لگایا تھا۔ حماس کی قیادت میں غزہ کے عوام یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ’ لاکھ حکیم سربجیب اک کلیم سربکف ۔
سعودی عرب اور مصر کی نوجوان نسل سے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہے ابھی حال ہی میں مصری عوام نے سعودی حکومت کے غلام سلفیوں کی غداریوں کے باوجود عام چناؤ میں اخوان المسلمون کو جتا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ مصر کی اکثریت صالح ہے لیکن وہاں کے واقعات نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ نظریاتی انقلاب جمہوری طریقوں سے نہیں آیا کرتا۔ اگر ترکی میں جمہوری طریقے سے بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں تو اس میں جلیل القدر ہستیوں نے پھانسیوں کے پھندوں کو بھی چوما ہے۔ مصر میں بھی اخوان نے منافقوں کے مقابلے میں ایسی قربانیاں دی ہیں جس کی مثال صرف قرن اول میں ہی مل سکتی ہے۔ سعودی عرب میں ہم امیر اورعیش وعشرت کی دلدادہ پرانی پیڑھی کو عام طور پر جانتے ہیں لیکن وہاں کی نوجوان نسل کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہے جس نے افغانستان سے لیکر چیچنیا اور شام وعراق میں اپنے خون کی روشنائی سے قرن اول کی تاریخ ایک بار پھر سے لکھ دی ہے۔ 
مصر میں اقتدار کو صحیح ہاتھوں میں رکھنے کے لیے لیبیا میں اقتدار کو صحیح ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے۔ بیسویں صدی کا ابتدائی حصہ ایسا تھا جس میں اسلام پوری دنیا میں مغلوب ہوچکا تھا۔ زوال کی انتہاء کے دورمیں بھی لیبیا کے سردار عبداللہ کی چودہ سالہ بیٹی فاطمہ نے اٹلی کے خلاف جنگ میں اپنی جان دے کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھ دی تھی اورجب ساری دنیا میں اسلام کے پرچم سرنگوں ہوچکے تب بھی لیبیا میں سیخ سنوسی اورعمر مختار نے جہاد کی شمع روشن رکھی تھی۔ 
ہندوستان میں بہت زیادہ عمر کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ان کے بچپن تک فاطمہ کا مرثیہ عام طور پر پڑھا جاتا تھا۔ علامہ اقبال ؒ نے فاطمہ کے مرثیے میں کہا تھا کہ اے فاطمہ گومیری آنکھوں سے شبنم کی پھوار برس رہی ہے لیکن میری زبان سے عشرت کے نغمے بھی پھوٹ رہے ہیں۔ میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ تیری تربت میں ایک قوم تازہ پرورش پارہی ہے۔۔۔ اقبال نے کہا تھا ۔ یہ شاہ امیر فیصل کو سنوسیؒ نے پیغام دیا۔ تونام ونسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا۔ آج خانہ جنگی صرف شام وعراق میں نہیں لیبیا میں بھی چل رہی ہے، مجھے لیبیا کی خانہ جنگی کے نتیجے کا زیادہ شدت کے ساتھ انتظار ہے، اگر وہاں اسلام پسند غالب آگئے تو پھر مصر میں منافقوں کے اقتدار کی الٹی گنتی شروع ہوجائے گی۔ 
آج غزہ میں جوہورہا ہے اس کے کچھ روشن پہلو بھی ہیں۔ ایک طرف سینکڑوں شہداء کی لاشیں پڑی ہیں ایک بھرا پرا شہر کھنڈروں اور ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے تو دوسری طرف دنیا حماس اور اس کے لیڈر خالد مشعل اور غزہ کے عوام کی جرأت رندانہ کو سلام بھی کررہی ہے ۔ اب مسلمانوں کی مائیں عبدالفتاح الیسسی اورعبداللہ بن عبدالعزیز جیسے منافقوں کو ہی جنم نہیں دے رہی ہیں بلکہ اب تو وہ رجب طیب اردگان جیسے عقل مند اور مخلص سیاست داں اور خالد مشعل اور حسن نصراللہ جیسے مردان مجاہد بھی پیدا کررہی ہیں۔ 
قارئین میں سے کچھ کو معلوم ہوگا کہ بحیرۂ گلیلی سوکھ رہا ہے دنیا بھر کی سائنس یہ معلوم کرنے سے قاصر ہے کہ یہ کیوں سوکھ رہا ہے؟ وہ ساری پیشین گوئیاں جن سے اچھے اچھے دانشور وں کے ایمان ڈگمگا جاتے تھے ان سب کے پورا ہونے کا وقت قریب آرہا ہے۔ یورپ کا مرد بیمار (ترکی) اب صحت مند ہورہا ہے۔ ایران میں خمینی کے انقلاب کو وہاں کے طاقت ور اصلاح پسند راستے سے نہیں بھٹکا سکے۔ عراق کو صدام حسین جیسے فراڈ سے نجات مل چکی ہے، بشارالاسد اور نوری المالکی جیسے بدمعاش لوگوں کے دن اب گنتی کے بچے ہیں۔ لیبیا کی خانہ جنگی بھی بہتر رخ اختیار کررہی ہے وہاں اسلام پسندوں کی فتح کے ساتھ ہی عبدالفتاح السیسی کی الٹی گنتی شروع ہوجائے گی۔۔۔ اب میں یہ بات لکھنے کی پوزیشن میں ہوں کہ خادم الحرمین شریفین ملک عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کے آخری بادشاہ ہیں۔۔۔ تاریخ اسلام نے بنو امیہ کا جو حشر دیکھا ہے، آل عبدالملک کا جو حشر ہوا، آل عبدالعزیز بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ اسرائیل اور اس کے غلام السیسی کو تیرہ بلین ڈالر نہیں تیرہ ہزار بلین ڈالر دے دیں تب بھی اپنے انجام سے نہیں بچ سکتے۔ 
آج عراق وشام، فلسطین، مصر سے لے کر لیبیا تک جو کچھ ہورہا ہے اس سے دل برداشتہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ تاریخ کا عمل ہے اس سے بچا نہیں جاسکتا ۔کیا یہ بات عجیب وغریب نہیں کہ امیر او رعیاش عربوں کی نوجوان نسل موت کی لذت سے باخبر ہوچکی ہے۔ 

«
»

مکوکا کے تارِ عنکوب میں الجھی بے قصوروں کی زندگیاں

اے اہل عرب! اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے