ان کی طبیعت میں بلا کی موزونیت تھی ،اس لئے شعرو شاعری سے انھیں فطری مناسبت اورقلبی لگاؤ تھا ،کم عمری اورزمانہ طالب علمی ہی سے انہوں نے شعرگوئی کے میدان میں قدم رکھ دیاتھا اورگیسوئے سخن کوسنوارنا شروع کردیا تھا ۔اس طرح وہ آغاز شباب ہی سے اہل سخن سے داد تحسین حاصل کرنے لگے تھے۔
موصوف اپنے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’مجھے اوائل عمری سے شعر سننے ،شعر پڑھنے اورشعر کہنے کا شوق رہا اورمیں اپنے اشعار اپنے کرم فرماؤں اورمخلصوں کے درمیان سناتارہا۔ لوگ میری حوصلہ افزائی کرتے رہے ‘‘۔
شعروشاعری نے انھیں آداب شاعری سکھائے تھے اوراس کے اسرار ورموز سے آگاہ کردیاتھا ۔یہی وجہ ہے کہ ایک ’’استاذ شاعر‘‘ ہونے کے باوجود انہوں نے شعروشاعری میں کسی استاذ سے اصلاح نہیں لی۔
ان کی شاعری میں تجدد اورتنوع تھا، ہرصنف سخن میں انہوں نے طبع آزمائی کی ۔روایتی غزل گوئی میں فردوطاق ہونے کے ساتھ نعت گوئی میں بڑے ماہر ومشاق تھے۔
ان کی شاعری میں غم دوراں وغم جاناں کاحسین امتزاج ہے۔ جناب محمد اصغر صاحب عثمانی نے بزم عزیز کے تعزیتی جلسہ کے موقع پر اپنے خطبۂ صدارت میں ان کی غزلیہ شاعری کوان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ ’’مرحوم نے روایتی غزل میں تغزل کابھرپور استعمال کیا، وہ غزل جومیرؔ وغالبؔ سے ہوتے ہوئے جگرؔ اورخمارؔ تک پہنچی اس کوامانت کی طرح آخری دم تک سنبھالے رہے‘‘۔
ڈاکٹرصاحب اپنے کلام کی پختگی ،مضامین کی آمد اوراسلوب کی سلاست کی بدولت ہربزم میں’’مزکرتوجہ‘‘ بن جاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اپنے ہم عصر مشہور شعراء سے گہرے مراسم تھے۔جونہ صرف ان کی شعری محاسن کے معترف بلکہ ان کے فنی کمالات کے مدّاح بھی رہے ہیں۔ جانشین حضرت افقرؔ موہانی جناب عزیزؔ ؔ بارہ بنکوی ان کی شاعری کوان الفاظ میں داد تحسین دیتے ہیں۔‘‘ ان کی مشق سخن کافی ہے ،اشعار تمام نقائض سے پاک وصاف ہوتے ہیں‘‘۔ نیز ان کی شعر نوازی اور شعراء پروری کویوں سندِ توصیف عطا کرتے ہیں :۔
’’ان کی وجہ سے مجھے بڑی تقویت حاصل ہے، قرب وجوار میں اپنی محنت سے شاعری کوزندہ کئے ہوئے ہیں۔ ‘‘
اگرانہوں نے اپنی نظمیں ،نعتیں اورغزلیں محفوظ رکھنے کی جانب توجہ کی ہوتی تواب تک ان کے کئی شعری مجموعے تیار ہوچکے ہوتے۔
ان کی غزلوں کاایک مجموعہ ’’دیوار‘‘ ۱۹۹۵ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوکر مقبول اہل نظر ہوچکاہے۔ جلد ہی ایک دوسرا غزلوں کامجموعہ اورنعتیہ کلام کاایک مجموعہ تیار ہوکر منظر عام پر آنے والاہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ’’بزم بہار سخن‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی تھی جس سے اودھ کے لکھنؤ وبارہ بنکی اضلاع اوران کے اطراف سے تعلق رکھنے والے نامور شعراء وابستہ تھے جس کی ماہانہ نشستوں میں جس طرح کہنہ مشق شعراء اپنے کلام سے سامعین کومحظوظ کرتے تھے ،اُسی طرح نوآموز شعراء ان کی رہنمائی وسرپرستی میں مشق سخن کیاکرتے تھے،اس طرح نہ جانے کتنے تازہ وارِ دانِ بساط سخن ان کی اصلاح وتصحیح نیز تشجیع وتحریک سے سخنوران غزل اورشہنشاہانِ اقلیم سخن بن گئے۔
ان کے کلام بلاغت نظام کے چند اشعار بطور نمونہ نذرقارئین کئے جارہے ہیں۔
گذرنا میرا جس رستے سے دنیا کو گراں گذرا
اسی رستے سے آخر ایک دن سارا جہاں گذ
====
ان سے تعلقات نہ پیدا کریں گے ہم
یہ اور بات ہے انہیں چاہا کریں گے ہم
تم آئینوں کی رائے سے کیوں فکر مند ہو
تم کو اسی نگاہ سے دیکھا کریں گے ہم
====
جو جی میں آئے وہ یہ صاحب شباب کریں
یہ لوگ وہ ہیں فرشتوں کو جو خراب کریں
====
ہے صاف بات ہمیں گنتیاں نہیں آتیں
کرم جو آپ کو کرنا ہے بے حساب کریں
====
یہ دور وہ ہے قلم کارگر نہیں ہوگا
بغیر تیغ اٹھائے گزر نہیں ہوگا
====
بڑے چرچے ہیں ہم نے زندگی وقفِ بتاں کردی
ہم اپنی چیز کے مالک تھے ہم نے رائیگاں کردی
مقفل اس نے جس کے واسطے سب کی زباں کردی
وہی بات اس کے ماتھے کے پسینے نے بیاں کردی
جناب علیمؔ عثمانی کی پیدائش قصبہ کرسی ضلع بارہ بنکی یوپی میں مورخہ 9؍نومبر 1931کوہوئی ان کے والد ماجد جناب محمد نسیم صاحب اپنے زمانہ کے ایک نامور حکیم تھے جن کی شفقت پدری کاسایہ ان کے سر سے صرف 4سال ہی کی عمر میں اٹھ گیا تھا، انہوں نے مادرمشفق ہی کی آغوش محبت میں تعلیم وتربیت پائی، ان ہی کی خدمت اورراحت رسانی کی خاطر وہ مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے اورملازمت کی غرض سے کبھی قصبۂ کرسی سے باہر نہیں نکلے۔ ماں کی دعاؤں کاثمرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نورنظر اورلختِ جگر کوشہرت ومقبولیت کے بام عروج پرپہنچادیا۔
ڈاکٹر صاحب کی ذات مرجع خلائق تھی۔ لوگ دوردرازمقامات سے طبی مشورے کے علاوہ دیگر دینی ،علمی اورادبی امور میں تبادلہ خیال کے لئے ان سے رابطہ کرتے تھے اوروہ ان کی اپنے طویل تجربات ،وسیع مشاہدات ومطالعات کی روشنی میں رہنمائی کیاکرتے تھے۔
ایک کہنہ مشق شاعر، بلند پایہ ادیب اورباکمال سخن شناس ہونے کے ساتھ وہ نہایت شگفتہ مزاج ،بذلہ سنج ،ذہین وطبّاع نیز حاضر دماغ وحاضر جواب تھے۔
ڈاکٹر صاحب اپنی خوش اخلاقی ،خندہ جبینی اورکشادہ روئی کی وجہ سے ہردلعزیز تھے،اسی لئے ہرمجلس میں’’جان محفل‘‘بنے رہتے تھے ،ان کی مجلسیں بڑی پُرلطف اورامن وسکون سے معمور ہواکرتی تھیں ،ان سے مل کر دل یہ گواہی دیتاتھا
بڑا جی لگتاہے صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات سے ایک انجمن ہیں
اگرایک طرف ان کی ظرافت اورطنز ومزاح سے محفلیں قہقہہ زار بن جاتی تھیں تودوسری طرف ان کی آنکھیں یادالہی میں اشکبار ہوجاتی تھیں ۔کیونکہ وہ بڑے ذاکر وشاغل اورپابندِ معمولات تھے،ان کی زندگی ذوق عبادت ،فکر آخرت اوراندیشۂ عاقبت سے عبارت تھی۔
صبرو توکل اورقناعت واستغناء ان کاوطیرہ نیز تواضع وسادگی ان کاطرۂ امتیاز تھا ۔شاعری میں بے حد مقبولیت اورمیڈیکل پریکٹس میں بے پناہ کامیابی کے باوجود انہوں نے آمدنی میں اضافہ کے امکانات پرتوجہ نہیں دی گویا کہ وہ اپنی زبا ن حال سے یوں گویاتھے
ماآبروئے فقروقناعت نمی بریم
بامیر خاں بگوئے کہ روزی مقدر است
ان کی زندگی جہد مسلسل ،عمل پیہم ،یقین محکم کی آئینہ دار تھی۔ جہادِ زندگانی میں انہوں نے انہی شمشیروں سے کام لیاتھا ،حیات مستعار کے آخری چند ماہ بعض عوارض وامراض کی نذرہوئے جن سے وہ جانبرنہ ہوسکے ،بالآخر ان کا آفتاب زندگی مورخہ10مئی 2012 بروز پنج شنبہ بوقت سہ پہر غروب ہوگیا اورفضل وکمال کایہ مجموعہ پیوند خاک ہوگیا ع
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
آسمان ان کی لحدپہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
جواب دیں