ایسا ہونا چاہئے، ویسا ہونا چاہئے ۔۔۔۔ ایک خطرناک بیماری

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی    
صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی

اتحاد ہونا چاہئے،ایجوکیشن ہونی چاہئے،مسلمانوں کو یہ کرنا چاہئے، وہ کرنا چاہیے۔جس سے بات کیجئے وہ”چاہئے چاہئے“  منہ پر پھینک کر جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جولوگوں میں کرونا، کینسر اور ایڈز سے زیادہ پھیل چکی ہے۔ یہ بیماری اُس وقت لاحق ہوتی ہے جب قوم میں سارے کے سارے لیڈر اور انٹلکچول بن جائیں۔ مقتدی کوئی نہ ہو سارے کے سارے  امام بن جائیں، ”میں خود کیا کرسکتا ہوں“ سوچنے والا کوئی نہ رہے۔ایسے لوگوں کو ”چاہئے  برادری‘ کہا جاسکتا ہے۔ جہاں دس آدمی مل کر بیٹھتے ہیں، ان میں کم سے کم ”نو“ اسی برادری کے لوگ ہوتے ہیں۔ 
جہاں تک لیڈرشِپ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے امت ابراہیمی میں پیدا ہونے والے ہر ہر کلمہ گو کے ایمان میں لیڈرشِپ ودیعت کردی ہے۔ جب ابراہیم ؑ ہر آزمائش میں پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”انی جاعلک للناس اماما“ یعنی میں تمہیں تمام انسانوں کا امام یعنی لیڈر بناؤں گا۔ یہ مسجد کے پانچ وقتوں کی وہ امامت نہیں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا کہ قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے۔اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام۔یقینا نمازوں کی امامت بھی لیڈرشِپ ہی کا ایک حصہ ہے لیکن جس امامت کی بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے وہ یہ ہیکہ پوری انسانیت کی قیادت یعنی سیاست، اکنامی، ایجوکیشن، سائنس، میڈیا، اخلاق، کلچر وغیرہ سب کچھ۔ ہر مسلمان کو لیڈرشِپ ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ قیادت اس کا حق ہے، اس کا منصب ہے، لیڈربننا ہماری اس دنیا میں ذمہ داری ہے۔ اس سے غفلت کے نتیجے میں آج ہم پر جاہل اور گنوار قومیں ہمارے سروں  پر مسلط کردی گئی ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا بہتر مثال ہوسکتی ہے کہ جس جانور کو ہمارے لئے حلال کیا گیا اور اس کی پرستش کرنے والوں کو شِرک سے نکال کر ایک اللہ کی طرف لے آنے کا حکم دیا گیا، وہ جانور آج ہم پر آزمائش بن کر مسلط ہوچکا ہے۔ لیکن مایوسی کی بات نہیں ہے۔ کلمہ لا الہ الا اللہ“ پڑھنے کے ساتھ ہی ہر مسلمان کے جذبہ ایمانی میں ایک قوت اور ہر زمینی خدا سے بغاوت کا جوہر اس کے خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ لیکن جس طرح ہر فن میں مہارت حاصل کرنے کے لئے تربیت کی ضرورت ہے، لیڈرشِپ کے جوہر کو نکھارنے کے لئے بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ تھوڑی محنت، غوروفکر اور تدبر کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہم نے ہر ہفتہ ایک ایک لیڈرشِپ کے نکتہ جس کو Commandment کہتے ہیں، اس پر روشنی ڈالنے کا ایک پروگرام بنایا ہے۔ لیڈرشِپ کا سب سے پہلا کمانڈمنٹ یہ ہے کہ اِس لفظ ”چاہئے“ کو دفن کردیں، اور”اب میں کیا کرسکتا ہوں“ بس یہ سوچیں۔ مشورے اور تبصرے بند کریں اور جو کام خود کرسکتے ہیں ابھی اور اسی وقت اسٹارٹ  لے لیں۔ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ ہیں جو قوم کے لئے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو اِن کرنے والوں کا ساتھ دے رہے۔
تیسرے وہ ہیں جو نہ  خود کچھ کرتے ہیں  اور نہ  کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں لیکن ”چاہئے چاہئے“ کی بکواس کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ہربات ایک ”چاہئے“ یا ”ضرورت ہے کہ۔۔۔“ یا  ”اگر“ یوں کریں  پر ختم ہوتی ہے جیسے مسجدوں میں یہ ہونا چاہئے، علما اور خطیبوں کو یہ کرنا ”چاہئے“
مسلکوں کا اختلاف ختم ہونا”چاہئے“”ضرورت ہے کہ“  لوگ فضول خرچیاں اور جہیز بند کردیں۔ ”اگر“  قرآن کو پکڑ لیں تو انقلاب آسکتا ہے۔ 
ہر گفتگو میں کم سے کم 25 چاہئے پھینک کر جاتے ہیں۔ اگر آپ چائے خانے میں بیٹھنے والوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں تک حالاتِ حاضرہ پر گفتگوکرتے چلے جائیں تو ایک دن میں کم سے کم ایک لاکھ ”چاہئے، اگر اور ضرورت ہے“ جمع ہوجائیں گے۔اخبارات کے مضامین اٹھایئے، جلسوں کی تقاریر یا سیمینارز کے مقالے اٹھایئے، ایک سے اعلیٰ ایک تجریہ، پیشین گوئیاں، اور انکشافات مل جائیں گے لیکن آخر میں جب بات حل کی آئے گی تو بات  دو چار عدد ”چاہئے“ پر ختم ہوجائیگی کہ جماعتوں کو یہ کرنا”چاہئے“،سرکار کو یہ کرنا ”چاہئے“،عربوں کو اور اقوام متحدہ کو یہ کرنا ”چاہئے“۔
یہ مشورے یا تبصرے شراب یا حشیش کی طرح کا ایک نشہ  ہے۔ جس میں علما، خطیب، صحافی، لیڈر، وظیفہ خوار ہوں کہ ملازم، چندہ دینے والے سیٹھ ہوں کہ بیروزگار نوجوان۔ ہر ہر شخص جیبوں میں ”چاہئے“ کے کھوٹے سکّے لے کر بانٹتا پھر رہا ہے۔ سب کو قوم سے بہت دلچسپی بھی ہے اور ہمدردی بھی۔ اس لئے وہ قوم کو یہ، یہ، یہ کرنا چاہئے کی نصیحتیں بانٹنے بے چین ہیں۔ اگر آپ ان سے کہیں کہ آگے بڑھئیے اور قیادت فرمایئے ہم آپ کے پیچھے چلنے تیار ہیں، تو انتہائی انکساری اور عاجزی سے یہ کہیں گے ”ارے بھائی، ہم کس قابل ہیں، ہم تو پیچھے چلنے والوں میں ہیں“۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ٹھیک ہے ہم ویسا ہی کریں گے جیسے آپ چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے جو خرچ آئے گا اس کے لئے کچھ جیب سے نکالئے یا دو چار گھنٹے دے دیجئے۔ پھر ان کے چہرے کا رنگ اڑ جائیگا، صورت چھوٹی ہوجائیگی اور پھر ملنے کا وعدہ کرکے غائب ہوجائینگے۔ 
ہم نے بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک  بار بلّی کا ظلم و ستم بہت بڑھ گیا تھا۔ تمام چوہے جمع ہوئے۔ گھروں کے چوہے، گلی کے چوہے، شہر کے چوہے،  کالے چوہے، بھورے چوہے، سفید چوہے، سیاسی پارٹیوں کے دفتروں کے چوہے، مسجدوں اور مذہبی جماعتوں کے دفتروں کے چوہے۔ سب نے باری باری جوشیلی تقریریں کیں کہ چوہوں کی قتل وغارتگری بند کی جانی ”چاہئے“۔ بلّی  کو  جبرواستبداد کی سزا ملنی ”چاہئے“،  اس گھر پر ہمار بھی اتنا ہی حق ہے جتنا بلی کا، ہمیں بھی  امن و سکوں سے رہنے کا حق ملنا ”چاہئے‘،  انصاف ملنا ”چاہئے“ وغیرہ وغیرہ۔ پھر ایک سمجھدار چوہا اٹھا جو غالباّ صدارت کررہا تھا۔ اس نے کہا کہ دوستو حل ایک ہی ہے۔ ہم کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ”چاہئے“ اور بلّی کے گلے میں ایک گھنٹی باندھ دینی ”چاہئے“۔ پھر کیا تھا، دھوم مچ گئی، تالیوں اور نعروں کا شور بلند ہوا، ہر چوہا ”لے کے رہیں گے آزادی“ کے نعرے لگانے لگا۔ سارے چوہوں نے گلے مل کر انتظامیہ کو مبارکباد دی، ہر چوہا ایک دوسرے سے اپنی تقریر کی سند لیتا رہا کہ ”میں نے خوب کہا نا؟“۔ اگلے دن اخبارات میں خوب تصویریں اور تبصرے شائع ہوئے۔ سوشیل میڈیا پر سینکڑوں لائکس آئے۔آگے کیا ہوا سب اندازہ کرسکتے ہیں۔عقلمندوں کو اشارہ کافی ہے۔  یہی صدیوں سے آج تک ہوتا چلا آرہا ہے۔ اسی قسم کے جلسوں، سیمینارز اور اجتماعات پر لاکھوں اور کروڑوں روپیہ خرچ کیا جاتا رہا ہے۔ ایسے صحافیوں کو اخبارات میں خوب جگہ دی جاتی رہی ہے۔
اس ”چاہئے“  کو بند کیجئے۔ یہ دنیا میں آپ کی لیڈرشِپ کو قائم کرنے کا پہلا کمانڈمنٹ ہے۔ بجائے ”چاہئے“ کے، یہ کیجئے کہ اپنی استطاعت میں جو کچھ ہے، اپنی جیب میں جتنا مال ہے، اور جتنے بھی ساتھی میسر آسکتے ہیں ان کو ساتھ لے فوری کوئی کام کا آغاز کیجئے۔ اگر وہی کام کوئی اور تنظیم کررہی ہے تو بجائے دیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے، ان کے ساتھ جڑ جایئے۔سمجھداروں کے لئے تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ راستہ ہے تو وہی چاہئے کمیونٹی کا جن کے ساتھ رہ کر اچھے اچھے سمجھداروں ذہنوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اگر آپ کے گھر کو آگ لگ جائے تو آپ یہ نہیں کہتے کہ فائر بریگیڈ کو آنا ”چاہئے“، پولیس کو پہنچنا ”چاہئے“، پڑوسیوں کو یہ کرنا ”چاہئے“۔ آپ اپنی ذمہ داری اور ایمرجنسی سمجھ کر اگر ایک بالٹی بھر پانی بھی ملے تو لے کر دوڑتے ہیں۔ اس وقت یہ نہیں کہتے کہ اتنی بڑی آگ بجھانے کے لئے ایک معمولی بالٹی پانی لے جانا بے وقوفی ہے۔ آج ملک اور قوم بھی ایسے ہی آگ کے شعلوں میں گِھر چکے ہیں۔ آپ کو کہیں گولیوں سے بھونا جارہا ہے۔ کہیں آپ کی بستیاں جلائی جارہی ہیں، کہیں آپ کے بچوں کو اسکولوں میں الگ بٹھایا جارہا ہے اور کہیں آپ کے لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔کہیں آپ کی مسجدوں کے لاؤڈاسپیکر توڑے جارہے ہیں کہیں آپ کے کمزور اور نہتے بھائیوں کی لنچنگ کی جارہی ہے۔ آئندہ دس پندرہ سالوں میں آپ کی حیثیت ہریجنوں اور غلاموں کی کرنے کی پوری پوری سازشیں ہورہی ہیں۔ ایسے وقت میں سپریم کورٹ کو یہ ”کرنا چاہئے“ یا پولیس کو وہ کرنا ”چاہئے“ کی رٹ لگانے والے سوائے آگ کو مزید ہوا دینے کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔ چھوڑیئے اویسی کو یا پرسنل لابورڈ کو کیا کرنا چاہئے، چھوڑیئے پاپلرفرنٹ یا جماعتِ اسلامی کو کیا کرنا چاہئے۔صرف اور صرف  یہ سوچئے آپ کو کیا کرنا ہے۔ یاتو ان میں سے کسی میں شامل ہوکر ان لوگوں کی قوّت بڑھایئے۔ یا پھر اپنے طور پر کوئی کام چاہے ایک بالٹی برابر پانی کے ہی کیوں نہ ہو، اللہ پر توکّل کرکے شروع کرڈالئے۔ 
یہ صحیح ہے کہ ہمارا میڈیا ہونا چاہئے، ہماری دینی تعلیم، روزگار، جان ومال کی حفاظت، انصاف، ہمارے بنک اور ہمارے انشورنس وغیرہ قائم ہونے چاہئے لیکن ان تمام کاموں کے لئے ہزاروں کروڑ روپیہ درکار ہے۔ ہزاروں والینٹئر چاہئے۔ ایسے والنٹئر جو صحابہؓ کی طرح، یا ارطغرل کے جانباز ساتھیوں کی طرح صرف اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان اور اپنا مال لٹا کر میدان میں اتر پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی والینٹئرز  کو قیادت یعنی لیڈرشِپ سے نوازتا ہیے۔ جن کے دل میں لیڈر شِپ کی کوئی خواہش چھپی ہوئی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ انہی کو لیڈرشِپ عطا کرتا ہے۔ ”کم من فءۃِِ قلیلۃِِ غلبت فءۃ کثیرۃ باذن اللہ“۔ کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمت کرنے والے چند لوگوں کا چھوٹا سا گروہ بھی بڑے سے بڑے طاقتور گروہ پر غالب آگیا۔ قرآن میں یہ بھی کہا گیا کہ ہمت کرکے گُھس پڑنے والے برابر غالب ہوکر رہیں گے۔ ”ادخلوا علیھم الباب فاذا دخلتموہ فانکم غالبون۔ و علی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین“، یعنی چڑھائی کردو دشمن کے دروازے میں گھس کر۔ اگر تم داخل ہوجاتے ہو تو پس تم ہی غالب ہوکر رہوگے۔ اور بھروسہ رکھو مکمل اللہ پر اگر تم مومن ہو۔ ایک جگہ یہ فرمایا کہ جب ان ہمت والوں کو لوگوں نے یہ کہہ کر ڈرایا کہ نادانی نہ کرو، تمہارا دشمن بہت طاقتور ہے، اور تعداد میں بھی بہت زیادہ ہے۔ ان ہمت والوں نے کہا کہ ”حسبنا اللہ و نعم الوکیل“۔ ہمارے لئے اللہ کافی ہے۔ ایسے ہی لوگ تاریخ میں ہمیشہ فتح یاب ہوئے ہیں۔ اور جو لوگ مشورے اور تبصرے کرنے میں لگے رہے، جب ان کو ساتھ دینے کے لئے کہا گیا تو کوئی بیوی کی مرضی کا محتاج تھا، کوئی دامادوں کی خدمت کررہا تھا، کوئی اپنی سیکوریٹی دیکھ رہا تھا تو کوئی اپنے بنک بیلنس کی فکر میں تھا، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اسی ہوس اور انہی مجبوریوں میں گھیرے رکھتا ہے۔ ان کی رسی اور ڈھیلی کردیتا ہے، یہ سمجھتے ہیں ہم مشورے دے کے کامیاب رہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب قوم سے کہا کہ وادی کے اس پار جو بستی ہے اس میں داخل ہوجاو، تو قوم نے کہا کہ موسیٰ تم دیوانے تو نہیں ہوگئے، وہ لوگ تو بہت زیادہ طاقتور لوگ ہیں۔ ”قاتلا انت و ربک ان ھھنا قاعدون“ جاو، تم اور تمہارا خدا مل کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان بزدلوں کو  چالیس سال صحرا میں بھٹکنے کی سزا ملی۔ یہ چالیس سال آج کے دور کے لئے ایک علامتی ہیں۔ جو تبصرے اور مشوروں میں رہ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بیس پچیس سال کی عمر سے لے کر ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر تک روٹی کا، قانون کا، اکثریت اور سماج کا غلام بنا کر رکھتا ہے۔ وہ ان مجبوریوں میں جانوروں کی طرح خود کو باندھ دیتے ہیں، پھر دشمن کے ہاتھوں خود بھی مارے جاتے ہیں اور پوری قوم کو مرواتے ہیں۔ 
پہلا کمانڈمنٹ اچھی طرح یاد رکھئے کہ آج کے بعد جو بھی ”چاہئے چاہئے‘‘ استعمال کرے گا اس کو آپ کسی کام پر لگائیں اور اگر وہ بہانے بنائیں تو اس سے ایسے ہی دوری اختیار کریں جیسے کرونا یا ایڈز کے مریض سے دور رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ بزدل ہوتے ہیں دوسروں کی بھی ہمتوں کو توڑ دیتے ہیں۔ یہ معاشرے کے دیمک ہیں، جو پہلے نظرنہیں آتے، اسی وقت نظرآتے ہیں جب معاشرے کو کافی کھوکھلاکرچکے ہوتے ہیں۔  
            سنگ تو بڑھ کر کوئی اٹھائے شاخِ ثمر کچھ دور نہیں 
            تم جس کو بلندی سمجھے ہو، اِن ہاتھوں کی کوتاہی ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ اک متفق ہوناضروری نہیں ہے 

21جون2020 ادارہ فکروخبر 

 

«
»

پہلے گستاخی، پھر معافی، یہ رسمِ مکاری ہے!!!

اتنا ہی یہ ابھریگا جتنا کہ دباؤگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے