یہودی، عیسائی یا دیگر اقوام کی سوچ یہ ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی میدانِ کارزار میں نظر آئے گا تو وہ مسلمان ہے۔ مسلمان جہاں بھی رہتے ہیں اپنے مذہب اور کلچر کو عزیز رکھتے ہیں، جب کہ دیگر قومیں دوسری قوموں میں ضم ہوجاتی ہیں، اس لیے مسلم قوم کو حریف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جب کہ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کے مذہب سے تعارض نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کے مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں، کیوں کہ اسلام میں یہ بتایا گیا ہے کہ کسی کے مذہب کو برا مت
کہو۔ جب کہ مسلمانوں کو آئے دن خلفشار میں مبتلا رکھنے کے لیے ان کے ب، ان کے پیغمبر کی شان میں گستاخی، ان کی مذہبی کتاب کی بے حرمتی،ان کے مذہبی مقامات منہدم یا نذرِ آتش کیے جاتے ہیں۔ مغرب جسے انسانی حقوق، معاشرتی رواداری اور اظہارِ رائے کی آزادی پر بہت ناز ہے، وہاں اکثرو بیشتر مسلمانوں کے ساتھ دل آزار رویہ، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا کلمات کہنے کے واقعات پیش آتے ہیں اور ان جرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا حوالہ دے کر لیپاپوتی کی جاتی ہے۔ جبکہ اگر کوئی مسلمانہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بولتا ہے تو فوراً کارروائی شروع کردی جاتی ہے اور پھر آزادیاظہار کا حق کہیں بارہویں قبیلہ کی طرح کھو جاتا ہے۔ مشرقی تیمور یا جنوبی سوڈان میں سرکشی کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو مظالم اور قتل عام کہہ کر فوراً ملکوں کے دو ٹکڑے کردیئے جاتے ہیں، لیکن جب معاملہ مسلمان کا ہو، یا فلسطین یا برما میں اراکان کے مسلمانوں کے قتل عام کا تو تمام عالمی برادری کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور اقوام متحدہ کا کردار صرف بیان جاری کرنے تک محدود رہ جاتا ہے۔ برما میں ایک بار پھر مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، اور نہ صرف عالم اسلام بلکہ پورا عالم خواب خرگوش میں مبتلا ہے۔ برما میں 1982ء4 کے ایک قانون کے تحت مسلمانوں کو حق شہریتسے محروم کردیا گیا، جب کہ وہ برما میں خلیفہ ہارون رشید کے عہد سے رہ رہے ہیں اور اراکان خطہ میں مسلمانوں نے اپنی حکومت بھی قائم کی تھی جس کا خاتمہ 1740ء4 میں بدھسٹ راجا نے کردیا تھا اور اراکان کو برما میں شامل کرلیا تھا۔ حیرانی کی بات ہے کہ پوری دنیا میں جمہوریت کی علَم بردار ہونے کا ڈھول پیٹنے والی نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی نے اس قتل عام کی کبھی بھی مذمت نہیں کی اور نہ ہی بدھسٹوں سے اسے روکنے کی اپیل کی۔کسی دوسری قوم کے ساتھ اس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا ہوتا تو حمایت کے جرم میں نوبل انعام چھین لیا جاتا۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ جب وہ گزشتہ سال ہندوستان کے دورے پر آئی تھیں تو ہمارے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں اْن سے کوئی بات نہیں کی تھی جبکہ سری لنکا کے معاملے میں آسمان سر پر اٹھایا جارہا ہے۔ آنگ سان سوچی نے اس موقع پر کہا تھا کہ طرفین کا نقصان ہوا اور یہ ان کا کام نہیں کہ کسی گروہ کی حمایت کریں یا ان کے مسائل کو اجاگر کریں۔ انہوں نے یہ بات ماننے سے بھی انکار کیا کہ آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو برمی شہریتنہیں دی جارہی ہے جب کہ اقوام متحدہ نے برما کے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ تکلیف میں رہنے والی اقلیتوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
گزشتہ سال 11جون کو مسلم مبلغ 10مسلم بستیوں میں دعوت کے لیے گھوم رہے تھے کہ بدھسٹوں کا ایک دہشت گرد گروپ ان کے پاس آیا اور ان کیساتھ زیادتی شروع کردی، انہیں مارا پیٹا، درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جسموں پر چھری مارنے لگے، ان کی زبانیں رسیوں سے باندھ کر کھینچ لیں،یہاں تک کہ دسیوں تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ مسلمانوں نے اپنے علماء4 کی ایسیبے حرمتی اور وحشیانہ موت پر احتجاج کیا تھا، انسانیت سوز درندگی کا مظاہرہ شروع ہوگیا۔ انسان نما درندوں نے مسلمانوں کی ایک مکمل بستی کو جلا دیا جس میں آٹھ سو گھر تھے، پھر دوسری بستی کا رخ کیا جس میں 700 مکان تھے اور اسے بھی جلاکر خاکستر کردیا، پھر تیسری بستی کا رخ کیا جہاں 1600گھروں کو نذرآتش کردیا، اور پھر فوج اور پولیس بھی مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہوگئی۔ جان کے خوف سے 9 ہزار لوگوں نےجب بری اور بحری راستوں سے بنگلہ دیش کا رخ کیا تو وہاں کی اسلام مخالف حکومت نے انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا، اور اس کے بعد سے اب تک بدھ مت کے دہشت گرد برمی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کو بڈھسٹ اور بودھ بھکشوؤں نے مل کر قتل کیا اور لاکھوں کو ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر قتل عام کا سلسلہ دوبارہ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ اس دوران سیکڑوں مسلمانوں کوجن میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں زندہ جلاکر قتل کردیا گیا دلخراش تصاویر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہاتما گوتم بدھ کے ماننے والے شرمسار ہوں یا نہ ہوں لیکن پوری دنیا کے انصاف پسند افراد کا سر شرمسے ضرور جھک گیا ہوگا۔
برمی مسلمانوں کو صرف قتلِ عام ہی کا سامنا نہیں ہے بلکہ انہیں سماجی مقاطعہ کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے بازاروں سے اشیاء4 خریدنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ایک لاکھ دس ہزار کے قریب افراد ان فسادات کی وجہ سے بے گھر ہوکر امدادی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلونے روہنگیا مسلمانوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے میانمار کا دورہ کیا تھا جس میں وزیراعظم کی اہلیہ ایمن ایردوان،ان کی بیٹی سمیعہ ایردوان اور داؤد اوغلو کی اہلیہ سارہ بھی شامل تھیں۔ ان لوگوں نے وہاں کے حالات کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کی امداد کے لیے تنظیم اسلامی کانفرنس کا ایک دفتر کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا جس کی اجازت برمی حکومت نے نہیں دی۔ برما کے صدر تھین سین نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے اپنے ملک میں دفتر کھولنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ برمی حکومت نہ صرف عالم اسلام کی اپیل کو ردی کی ٹوکری میں پھینک رہی ہے بلکہ عالمی برادریکی کسی بھی درخواست کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ برما میں مذہبی آزادی کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔ گزشتہ سال رمضان میں صوبہ اراکان میں تین سو مساجد نمازیوں کے لیے بند کردی گئیں۔ گھروںمیں تراویح اور قرآن پاک سنانا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ مصری ویب سائٹ المحیط کے مطابق برما میں مسلمانوں کو سخت مسائل کا سامنا ہے۔ متاثرہ علاقے کے باہر بھی سحری و افطار کی ممانعت تھی۔ مرتد ہونے سے انکار کرنے پر یا تو مسلمانوں کوہجرت کرنا پڑتی ہے، یا ملک بدری کا سامنا ہوتا ہے، یا جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ جو لوگ گھربار نہیں چھوڑتے انہیں قتل اور عورتوں کی آبروریزی جیسی وحشت ناک وارداتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بچوں اور ضعیفوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ برما میں گزشتہ سال جون کے مہینے میں بیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ دس ہزار افراد لاپتا تھے۔ پانچ ہزار مسلم خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے سیکڑوں دیہات تاخت و تاراج کردیئے گئے، درجنوں مساجد شہید کی جاچکی ہیں۔ حکومت نے برما کے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے لیے مختلف حربے اپنائے ہیں۔ ان میں ایک شادی پر پابندی بھی ہے۔ روہنگیا مسلمان اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتے۔ دولہا دلہن کو شادی کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ اس کا عمل سخت ہے، اور اس کے لیے حکام کو بھاری رشوت دینا پڑتی ہے۔ اس لیے بہت سے غریب والدین اپنے بچوں کی شادیاں نہیں کرپاتے۔ سخت تشدد کی وجہ سے مسلم لڑکے برما چھوڑ چکے ہیں، اس وجہ سے شادیوں میں دشواری ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق برما کے مغربی صوبہ اراکان میں مسلمانوں کی آبادی پر حملوں کے دوران سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نے بدھسٹ دہشت گردوں (بدھ بھکشوؤں) کو مسلمانوں کی محصور بستیوں پر حملے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ان حملوں میں ہزاروں مرد، خواتین،بچے اور بوڑھے شہید کردیئے گئے۔ ایمنسٹی نے اس قتل عام کے لیے برماحکومت کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اراکان میں سیکڑوں مسلمانوں کو حراست میں لیاگیا ہے اور یہ نہیں معلوم کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ بودی قبائل ایک منظم مہم کے تحت مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہوئے ان کی بستیوں کو نیست و نابود کردیتے ہیں اور انتظامیہ ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے برما کی حکومت سے اراکان میں تشدد روکنے کی مزید کوششیں کرنے کے لیے کہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے برما کے مغربی علاقوں میں نسلی فسادات میں ہونے والی تباہی کے مبینہ تصویری ثبوت پیش کیے ہیں۔ اس کے مطابق سیٹلائٹ سے لیگئی تصاویر میں کیاک پیو نامی ساحلی قصبے میں پینتیس ایکڑ کے علاقے کو جلا کر تباہ کردیا گیا۔ اس تازہ تشدد کے دوران آٹھ سو سے زائد مکانات اور ہاؤس بوٹس نذرِ آتش کی گئی ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر روہنگیا مسلمان آباد تھے جو کہ بودھ آبادی کے حملوں کا نشانہ بنے۔ ہیومن رائٹس واچ نے سرکاری سیکورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں پر فائرنگ کرنے اور ان پر حملے کرنے والے مسلح جنگجوؤں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ برمی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ مہیا کرنے کے بجائے انھیں قتل اور بے گھر کرنے والوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ اگست میں حکومت نے بدھوں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ برمی حکومت نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی قیادت میں تحقیقات کرانے سے انکار کردیا تھا تاکہ بدھسٹوں کا سفاک چہرہ باضابطہ طور پر عالمی برادریکے سامنے نہ آسکے۔
میانمار میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے بلکہ وہاں بے دریغ مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے کئی علاقوں میں مساجد اور مکانات کو بدھسٹ راہبوں نے پولیس اور فوج کی سرپرستی میں جلایا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا اس واقعہ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ میانمار میں بدھسٹوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا ہے اس کی انسان تو کیا کسی جانور سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔
جواب دیں