عہد شاہجہانی میں علم و ادب کی بے نظیر ترقیات

مغل شہنشاہ شاہ جہاں کی طرح نواب شاہ جہاں بیگم کو بھی عمارات کی تعمیر کا گہرا شوق تھا، جس کا ثبوت بھوپال میں ان کی تعمیرات تاج محل، تاج المساجد، عالی منزل، بے نظر، گلشن عالم، لال کوٹھی جیسی شاہکار عمارات کے وجود سے ملتا ہے۔
ریاست کے حکمرانوں کا دائرہ کار عموماً سیاسی و سماجی شعبوں تک محدود ہوتا ہے، حکومت سے متعلق انتظامی، سماجی اور سیاسی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، تاہم شاہ جہاں بیگم کے امتیازات گوناگوں تھے، انہوں نے اپنی والدہ نواب سکندر جہاں بیگم کا دور حکمرانی دیکھا تھا اور برسوں سے زمام حکومت اُن کے خاندان میں چلی آرہی تھی، جس کی وجہ سے ریاست کے انتظام و انصرام کے نشیب و فراز کا بھی انہیں اندازہ تھا، یہی مشاہدہ و تجربہ دور رس نگاہ کی مالک شاہ جہاں بیگم کے بھی کام آیا اور انہوں نے ایک ذہین حکمراں کی حیثیت سے ریاست کے ہر شعبے اور محکمہ کی اصلاح پر توجہ دی، قانون و عدالت کے نظام کو مستحکم بنایا، جرائم کے انسداد کے لئے سخت قوانین تشکیل دئے اور محکمہ پولس میں اصلاحات نافذ کیں، دارالحکومت بھوپال میں ایسی جیل بنوائی جو قید خانے سے زیادہ اصلاح خانے کا کام دیتی تھی، حفظانِ صحت پر خصوصی توجہ دیکر دو اسپتال کھولے، جو آج بھی حمیدیہ اسپتال اور سلطانیہ زنانہ اسپتال کی صورت میں موجود ہیں۔ ایک شفاخانہ سیہور میں جذامی مریضوں کے لئے قائم کیا، ڈاک کا نظام جو سکندر جہاں بیگم کے زمانہ میں سرکاری کاموں کے لئے مخصوص تھا، پوری ریاست میں عام کر دیا، جگہ جگہ ڈاک خانے بنوائے اور انگریز حکومت کی طرح ریاست بھوپال کے ڈاک ٹکٹ جاری کرائے۔
نواب شاہ جہاں بیگم اپنی والدہ سکندر جہاں بیگم کی مثل اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور رعایا میں تعلیم کا فروغ ہو‘ اس کا گہرا جذبہ رکھتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اس مقصد سے ’’نظارۃ المعارف عمومیہ‘‘کے نام سے محکمہ تعلیمات قائم کیا، اپنے والد نواب جہانگیر محمد خاں کی یاد میں مدرسہ جہانگیریہ، صنعت و تعلیم و تربیت کے لئے پرنس آف ویلز اسکول قائم کیا۔ جہاں سے نادار طلباء کے لئے تعلیمی وظائف، کھانے اور لباس کا انتظام ہوتا تھا، اسی طرح مدرسہ سلیمانیہ کو ترقی دیکر کلکتہ یونیورسٹی سے اس کا الحاق کرایا، جس کے نتیجہ میں یہ عصری تعلیم کا اہم ادارہ بن گیا، تعلیم کے شعبہ میں بیگم صاحبہ نے ریاست کے ساتھ بیرونِ ریاست بھی سرپرستی و امداد کا سلسلہ جاری رکھا، سرسید علیہ الرحمہ کے محمڈن کالج علی گڑھ میں زیرِ تعمیر مسجد کے لئے دس ہزار کی رقم عنایت کی۔ لندن گئیں تو ایک دیندار رئیسہ کی حیثیت سے وہاں یوروپ کی پہلی خوبصورت مسجد تعمیر کرائی اور اس میں مدرسہ و لائبریری قائم کی۔ مذکورہ سیاسی، سماجی اور رفاعی امور انجام دینے کے باوجود ایک عرصہ تک وہ پرورش لوح و قلم کی طرف راغب نہیں ہوئیں اور جوانی کا پورا عرصہ نفسانی خلا نیز احساسِ محرومی میں گزارنے کے بعد اپنے پیرو مُرشد حضرت پیر ابواحمد صاحب کی ہدایت پر مسلکِ اہلِ حدیث کے عالم مولوی صدیق حسن خاں جونپوری سے عقدِ ثانی کرلیا۔
نواب شاہ جہاں بیگم کی زندگی پر اِس رشتہ کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوئے، اُن کی والدہ نواب سکندر جہاں بیگم فارسی کی جگہ اردو کو ریاست کی سرکاری زبان بناچکی تھیں لیکن اِس زبان کی ترقی کے اقدامات شاہ جہاں بیگم نے کئے۔ ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی ہمت افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپنے والد جہانگیر محمد خاں کی طرح وہ خود بھی صاحب دیوان شاعرہ تھیں، اِس کے ساتھ اُردو کی اول صاحب دیوان شاعرہ بھی قرار پائیں۔ 
پہلے شیریں، بعد میں تاجورؔ تخلص کرتی تھیں، پہلا دیوان ’’دیوانِ شیریں‘‘ دوسرا ’’تاج الکلام‘‘ کے نام سے شائع ہوا، اس کے علاوہ اُن کی مثنوی ’’صدق البیان‘‘ فن شاعری کا معیاری نمونہ ہے، جس میں سلاست و روانی پائی جاتی ہے، کئی دیگر نثری کتب کے علاوہ ’’خزینۃ اللغات‘‘ کے نام سے ایک نادر لغات بھی اُن سے منسوب ہے۔ جو اردو، عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، ہندی اور انگریزی کی فرہنگ ہے، بیگم صاحبہ اردو کے ساتھ ہندی میں بھی روپ رتن کے تخلص سے شعر کہتی تھیں۔ ہندی کے معروف ادیب و محقق بھارتیندو نے ’’آریہ ورت‘‘ رسالہ میں اِس کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ شاہ جہاں بیگم کی علمی و ادبی حیثیت اور فنونِ لطیفہ سے نسبت کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ موصوفہ سے پہلے اردو زبان و ادب کی تاریخ میں کوئی دوسری خاتون ان کے ہم پلہ نظر نہیں آتی۔ وہ صاحبِ طرز نثر نگار، معیاری شاعرہ اور ماہر لسانیات کے ساتھ ساتھ بڑی علم پرور خاتون تھیں۔ ان کے دور میں علم کا بازار گرم ہوا اور گھر گھر شعر و شاعری کی شمعیں فروزاں ہوگئیں۔ وہ اپنے محل میں بھی مشاعرہ کا اہتمام کرتی تھیں۔ ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کے مؤلف رام بابو سکسینہ نے ان کی شاعرانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عہدِ شاہجہانی میں کم و بیش دیڑھ سو خواتین شعر کہتی اور مشاعروں میں شرکت کرتی تھیں۔جہاں ان کے شوہر نامدار نواب صدیق حسن خاں نے ڈھائی سو کتابیں خود تصنیف و تالیف کیں، وہیں بیگم صاحبہ کی توجہ سے ریاست کے اہلِ قلم کی تربیت کا اہم کام انجام پایا۔ اسی طرح اہلِ علم کی ایک جماعت تصنیف و تالیف میں مسلسل مصروف رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ دورِ شاہجہانی میں بھوپال علم و ادب کا مرکز بن گیا تھا۔ اپنے شوہر نواب صدیق حسن خاں کے تعاون سے شاہ جہاں بیگم نے علماء و فضلاء کی سرپرستی ہی نہیں کی، سینکڑوں ایسی نایاب کتب شائع کرانے کے لئے وسائل بھی فراہم کئے، جن کے چھپنے سے اِس چھوٹی سی ریاست کا نام دنیا بھر میں مشہور ہوگیا۔ ڈاکٹر سلیم حامد رضوی کی تحقیق کے مطابق اِس دور میں چودہ تذکرے لکھے گئے، بیگم صاحبہ نے عصری تعلیم کے جگہ جگہ مدارس کھولے اور اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے مطبع شاہجہانی قائم کیا۔ اس مطبع سے ۱۸۷۱ء میں بھوپال کا پہلا اردو اخبار ’’عمدۃ الاخبار‘‘ شائع ہوا۔ امجد علی اشہری کا نیم سرکاری اخبار ’’دبیر الملک‘‘ بھی اِسی عہد کی یادگار ہے۔
بیگم صاحبہ کے مطبع میں قرآنِ کریم کے لاکھوں نسخے طبع ہوتے اور مفت تقسیم کئے جاتے۔ نیل الاوطار، فتح البیان، تفسیر ابن کثیر، فتح الباری، شرح بخاری، نزار الابرار، روضۃ الہندیہ، جلالین شریف جیسی نایاب اور قیمتی کتابوں کو دوبارہ شائع کرانے میں زرِ کثیر صرف کیا اور انہیں ریاست و بیرونِ ریاست میں مفت تقسیم کرایا۔ سرائے، تالاب اور رفاہ عام کے درجنوں کام کئے، ممبئی اور کلکتہ کے متعدد اسپتالوں کو گرانقدر عطیات سے نوازا۔ وہ اتنی فیاض رئیسہ تھیں کہ اُن کے دروازے سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔ بحیثیت مجموعی ہندوستانی تاریخ کی اِس بیدار مغز حکمراں نے اپنے تینتیس سالہ دورِ حکومت میں ہر شعبۂ حیات پر غیر معمولی نقش ثبت کئے اور علم و ادب کو تو بام عروج پر پہنچادیا ۔

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے