اگر کسی قوم کو مٹانا ہوتو اس کی زبان مٹادو تو قو م کی روایات ،اس کی تہذیب ،اس کی تاریخ ،اور اس کی قومیت ،گویاسب کچھ مٹ جائے گا اور جس قوم کو اپنی زبان اچھی نہ لگے اور دوسروں کی زبان پر فریفتہ ہووہ کیازندہ رہ سکتی ہے؟ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں ہنگامی بنیادوں پراردو سے عربی اور فارسی کے الفاظ حذف کرکے ان کے سنسکرت کے متبادل الفاظ شامل کرکے ایک نئی زبان کی بنیادرکھدی گئی جسے آج ہندوستان میں ’ہندی ‘کہاجاتا ہے اب ہندی زبا ن کونستعلیق خط کے بجائے دیو ناگری خط میں لکھاجاتا ہے بعض ماہرین لسانیات اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں اردو زبان نے دو بڑ ی زبانوں (عربی اور فارسی) کااثر قبول کیااور بعد میں بلاتامل فارسی اور ہندی سے الفاظ وتراکیب قبول کیں بس یہی وہ وصف ہے جس نے اس زبان کو دنیا کی بڑی زبانوں کی صف میں لاکر کھڑا کردیابعد میں اس زبان نے انگریزی سے بھی استفادہ کیااور اپنی لغت میں مزید وسعت پیدا کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی زبان دراصل اردو سے ہی نکلی ہے یوں اگر ہند ی اوراردو زبان کو ایک ہی سمجھاجائے تویہ دنیاکی چوتھی بڑی زبان ہے ہندی (در اصل اردو)آج ہندوستان کی ۲۳؍سرکاری زبانوں میں سے ایک اور سب سے زیادہ بولی،لکھی،پڑھی،اور سمجھی جانے والی زبان ہے اردو زبان کو یہ شرف حاصل رہاکہ وہ کسی بھی عہد میں جمود کا شکارنہیں ہوئی دیگر ثقافتوں کے زیر اثرہر عہد میں اس زبان میں نئے الفاظ شامل ہوتے مادری زبان کی اہمیت مسلمہ اورناقابل تردید حقیقت ہے بچہ ما ں کی گودسے جوزبان سیکھتا ہے وہی مادری زبان ہے رسرچ سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بچہ کی صلاحیتیں مادری زبان ہی میں پروان چڑھتی ہیں کیونکہ اس زبان کووہ سمجھتا ہے اسی میں سوچتا ہے،اور اسی میں اپنے جذبات ،خیالات ،اور احساسات کا اظہار کرتا ہے ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی ایک راز یہ بھی ہے کہ انہوں نے مادری زبان کی حفاظت کی اور اسی میں انہیں آراستہ کیاامریکہ ،چین ،جاپان ،روس وغیرہ نے مادری زبان ہی میں تعلیم کو لازم قراردیاہے۔ جب کہ مٹھی بھر ہونے کے باوجود نیاپر کسی نہ کسی طرح سے حکومت کرنے والے یہودیوں نے عبرانی زبان کا تحفظ کیا،اسے زندہ رکھا حالانکہ غیر یہودیوں کے لئے یہ ایک بھولی بسری اور مردہ زبان ہے بیشتر ممالک اپنی ہی زبانوں میں اعلیٰ تعلیم دیتے ہیں تب بھی وہ دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے اگر قومی ملکی اور سیاسی تناظرمیں دیکھاجائے تودنیا میں کہیں ایک ملک کی مثال دینے سے آپ قاصر رہیں گے جس نے اپنے زبان چھوڑکر غیر ملکی زبان استعمال کرکے ترقی کی ہو؟کرہ ارض پر ایسی کوئی مثا ل نہیں ہے بلکہ جاپان کے بارے میں تو کہاجاتا ہے کہ جب دوسر ی عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد امریکہ بہاد رنے شہنشاہ جاپان سے معلوم کیا’’مانگو کیامانگتے ہو‘‘تودانااورمحب وطن شہنشاہ نے جواب دیا کہ’’اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم‘‘اس لین دین کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے،چنانچہ ترقی یافتہ ممالک نے مادری زبان میں تعلیم کو لازمی قراردیتے ہوئے نہ صرف اپنے تہذیب اور ثقافت وزبان کی حفاظت کی بلکہ اپنی نسلوں کی صلاحیتوں کو بھی فروغ دیا زبان اور تہذیب کا رشتہ بہت ہی مضبو ط ہوتا ہے جو اپنی مادر ی زبان سے دور ہوجاتے ہیں وہ اپنی تہذیب سے بھی ناآشنا ہونے لگتے ہیں کیوں کہ تخلیقی صلاحیتیں مادر ی زبان ہی میں جنم لیتی ہیں جو بچیں اپنی مادری زبان میں عبوررکھتے ہیں وہ آسانی کے ساتھ دوسری زبانیں بھی سیکھ لیتے ہیں مادر ی زبان بچے کی شخصیت کو ابھارنے میں اہم کردار اداکرتی ہے اس کا کامیاب تجربہ ترقی یافتہ ممالک میں ہورہا ہے ۔اپنی مادری بولی کو حقیر سمجھنے والے اپنے آپ کو اور اپنی تہذیب کو بھی کمتر اور حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور جن کو اپنی تہذیب حقیر معلوم ہو وہ زمانے میں معتبر نہیں ہوسکتے ۔۱۹۴۷ کے بعدسے ہی اردو زبان کو ختم کرنے کی ایسی ہمہ جہت منصوبہ بندی کی گئی اس موضوع پر اگر کوئی رسرچ اسکالر واقعتاتحقیق کرناچاہے تو یقینی طور پرحیرت انگیزحقائق منکشف ہو سکتے ہیں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پردستاویز موجودہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اردو کے خاتمہ کے لئے جو منصوبہ تیار کیاگیااس میں رنگ آمیزی کے لئے’محبان اردو ‘ کو ہی استعمال کیاگیا سینکڑوں غیر مسلم شعراء وادیبوں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جنہیں عزت ،دولت ا ورشہرت اردو کے طفیل میں ملی جو آخری سانس تک اردو کی روٹی کھاتے رہے اور کھارہے ہیں بات تھوڑ تلخ ضرور ہے مگر سولا آنے سچی ہے کہ اردو کو اصل خطرہ انہیں سے ہے جنہیں اردو والا تصور کیاجاتا ہے ایسے لوگ جنہوں نے ہمیشہ ارد و کی روٹی کھائی،اسے اوڑھنا بچھونا بنایا ۔اردو کی ترویج واشاعت میں جہاں ادباء ،شعراء اور عام قارئین کی خدمات سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا وہیں مذہبی علماء کرام کی اردو نوازی بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے کیا یہ بات اظہرمن الشمس نہیں؟ کہ ہندوپاک کی مسجدو ں ،مذہبی اجلاس ،اور لاکھوں کی تعدادمیں پھیلے ہوئے دینی مدارس میں رابطے اور اظہارخیال کی زبان اردو ہے افہام وتفہیم سے لیکر تحریر وتقریر اور سوالات وجوابات تک طلبہ عمومااردو ہی میں لکھتے ہیں ان زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہے کہ روئے زمین پر اردو کو زندہ رکھنے میں علماء کرام کی خدمت کسی دوسرے طبقہ سے کسی طور پر کم نہیں بیرونی دنیا میں بھی اردو کو زندہ رکھنے میں علماء کا بڑا ہی مرکزی کردارہے اسی طرح دینی رہنمائی کے لئے جب ہندو پاک کے لوگ علماء سے رجوع کرتے ہیں توافہام وتفہیم کی زبان بھی اردو ہی ہوتی ہے دینی مدارس کے اشتہارات بھی اردو ہی میں ہوتے ہیں لیکن سیاسی جلسوں اورمشاعروں کے پوسڑز ہندی میں نظر آتے ہیں مشاعرہ گاہ میں ہند ی دیو ناگری رسم الخط کا بینراب ملکی سطح پرہمارے مشاعرو ں کا ایک لازمی جز بن گیاہے او ر اس حقیقت کوتو اکثروبیشتر لوگ تسلیم کرچکے ہیں کہ اتر پردیش میں اردو مدارس اسلامیہ کی بدولت زندہ ہے۔اردو میں جب فارسی الفاظ کی کثرت ہوتی ہے تو اسے مفرس کہاجاتا ہے اورجب عربی الفاظ کی بہتات ہوتی ہے تو اسے معرب کہاجاتا ہے آخراس اردو کو کیا نام دیاجائے؟ جس میں انگریزی الفاظ کا انبار ہوتا ہے ہمارے اکابرین انگریزی حکومت کو حکومت انگلشیہ کہاکرتے تھے توکیاایسی اردو کو بھی اردو انگلشیہ کہاجائے؟ ایسے نازک وقت میں مسلمانوں نے انگریز ی کو اتناسرچڑھالیاہے جبکہ اردو حاشیہ پر جارہی ہے اردو والے تو بس اردو کو ہی فوقیت دیں اس لئے اردو کے فروغ کے سلسلہ میں محبان اردو کو متحد ہوکر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اردو کے مسئلہ کے حل کے لئے ہمیں اپنی کوششوں کو ایک تیز رفتار تحریک کی صورت میں بدلنا ہوگاکیونکہ اگر عام لوگو ں کارشتہ زبان سے کٹ گیاتوزبان دھیرے دھیرے زوال پذیر ہوتی جاتی ہے مذکورہ حقائق کی روشنی میں اگراکیسویں صدی کے ہندوستا ن میں ارد و زبان کے فروغ اورامکانات پر غور کیاجائے تویہ تلخ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ کیسویں صدی کے آخری دہے تک پہونچتے پہونچتے اردو ہندوستان میں ایک بولی کا روپ اختیار کرلے گی جس کا رسم الخط جاننے اور پڑھنے والے مسجدوں کے بوریہ نشیں امام حضرات ہی ملیں گے ۔
جواب دیں