اغیار کی بالادستی اور مسلمانوں کی بے شعوری

                      تحریر :  عطاء الرحمن القاسمی،شیموگہ
                                صدر مدرسہ انصارالعلوم،بنگلور

    آج دنیا کا کوئی علاقہ کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں کافرانہ و ملحدانہ طاقتوں نے مسلمانوں کو اپنے ظلم و استبداد اور بے جا زیادتی کا نشانہ نہ بنایا ہو،چاہے معمولی قریہ ہو یا شہر ہو یا صوبہ ہو یا اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کوئی ملک ہی کیوں نہ ہو کہیں بھی اسلام کے نام لیوا اور اسلام کے متوالے اطمنان کا سانس لینے پر قادر نہیں، تعجب اور حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمان جہاں صیہونی وصلیبی ملکوں میں آباد ہیں وہ ظلم و استبداد کا تو شکار ہیں ہی مگر اس سے بھی آگے بڑھ کر مسلمان خود مسلم ملکوں میں بڑے ہی کربناک و درد ناک اور ناقابل بیان حالات و کیفیات سے گزر رہے ہیں یہی حال بعینہٖ ہمارے ہندوستان جیسے جمہوری ملک کا حال ہے کہ جہاں دس پندرہ انسان نما خوں خوار درندوں کی بھیڑ اکٹھا ہوکر ایک انسان کو دم نکلنے تک پیٹ پیٹ کر ختم کردیتی ہے یا پانچ سات حیوان نما انسانوں کی بھیڑ اکٹھا ہوکر کسی عفیف و پاک دامن کی عصمت پر حملہ آور ہوکر اُس کی عصمت کو تار تار کردیتی ہے، الامان والحفیظ۔
    اگر ہم عالمی و بین الاقوامی سیاست کے تناظر میں مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں صاف صاف یہی نظر آتاہے کہ قرآنِ کریم کی اصطلاح میں ہم امتِ دعوت، خیرِ امت، وسطِ امت اور خیر الامم کے اونچے القاب سے من جانب اللہ نوزاے جانے کے باوجود بڑے دکھ کے ساتھ ہماری داستانِ دردوالم کو تحریرا ًوتقریرا ًبیان کرنا پڑتا ہے۔
مسئلہ کا حل:
    ان سنگین حالات میں بلا امتیازِ مسلک و مشرب مذہبی و سیاسی رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں اوربڑی حکمت عملی کے ساتھ اپنا دفاع کریں یہ تمہید ہے،اصل یہ مقصد واضح کرنا یہ ہے کہ ہمارا شہر شموگہ بھی آج کل اسی روایاتی عصبیت و نفرت میں بری طرح ملوث ہے، ماضی قریب میں بھی اس نفرت وعصبیت نے ہماری عزیز جانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، شہر میں ضرب کاری یا خون ریزی ہو یا عفت وعصمت دری کے حادثات واقعات رونما ہوں بلا تحقیق وتفتیش مسلم نوجوانوں کو اس کا نشانہ بنا یا جاتاہے، قید وبند کی مشکلات سے دو چار کیا جاتا ہے، بڑے درد ناک طریقے پر زدوکوب کیاجاتا ہے اوراب تو عصبیت ومنافرت کی آگ یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ کرفیو اور ناکہ بندی صرف مسلم بازاروں اور محلوں میں نافذ کی جارہی ہے،نمازِ جمعہ کی فرض عبادت سے بھی ہمیں روکا جارہا ہے اور غیر مسلم علاقوں کو اس سے مستثنی رکھا جارہاہے، کیا یہ واضح طورپر عدل و انصاف کا خون نہیں ہے؟ کیا یہ سیکولر و جمہوری روایات کے گلے پر چھری پھیرنے کے مترادف عمل نہیں ہے؟ کیا یہ ملک کی آزادی کے خاطر مسلمانوں کی قربانی وجانفشانی کا کھلّم کھلاّ مزاق نہیں ہے؟ کیا یہ بے شرمی و کذب بیانی نہیں ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گردی وغنڈہ گری کی طرف منسوب کیا جائے؟کیا یہ رواداری وہمدردی کی بات ہے کہ خالی الذہن اور سنجیدہ ہندو بھائیوں کے مجمع میں کھڑے ہوکر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی جائے
۲
 اور مسلمانوں کے متعلق بدظنی پیدا کی جائے؟
    اب ہماری ملی جلی قیادت کا کام یہ ہے کہ شموگہ کے حکام کے ذہنوں میں جو بھی بدظنی پیدا ہوئی ہو اُسے اچھے طریقے سے دور کرنے کی کوشش کریں، ایس پی اور پولس ڈپارٹمنٹ ودیگر سیاسی حکام سے ایسے روابط رکھیں جس سے عامۃ المسلمین اور خصوصا مسلم نوجوانوں کو فائدہ پہنچے، پڑوسی ہندو برادران کے ساتھ حسنِ اخلاق اور اسلامی رواداری کو پیش کریں، انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کریں، انکی خوش و غمی میں بھی برابر شرکت کریں یاد رہے کہ ہم اتنے بھی بے شعور و بے حس نہ بناے کہ اپنے جائز حقوق اور عدل وانصاف کا مطالبہ نہ کریں اس ملک میں تو مسلمانوں کا بھی برابر حق ہے اور ہمارے اسلاف نے تو آدھی دنیا پر حکمرانی کی ہے نیزہمارے اس ملک ہندوستان میں تو ہمارے مسلم بادشاہوں نے گیارہ سو سال تک حکمرانی کی ہے اس کے باوجود آ ج ہم احساس ِ کم تری کا شکار کیوں بن جاتے ہیں ڈٹ کر اس ملک میں رہے اپنے حقوق کا برابر مطالبہ کریں ڈرنے اور سہمنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
نوجوانوں کی تربیت اور اصلاح:
     دوسری جانب ہمارے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر زور دیں، اس محفل میں خصوصی طور پر حضرات علمائے کرام واساتذ عظام موجود ہیں اس لئے یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ مساجد میں تعلیم بالغان کا انتظام بہر صورت کریں، مساجد کو صفہ کی بے مثال درسگاہ کا نمونہ بنائیں، نوجوانوں کی اصلاح کا سب سے بڑا مرکز مساجد کو بنائیں، قرآن کریم جو مسلمانوں کی اساس اوربنیادی دستورِ ہے، انتہائی افسوسناک بات ہے کہ آج بالعموم اس کتابِ ہدایت سے مسلم نوجوان کوسوں دور ہیں، حد تو یہ ہے کہ راقم السطور نے نمازِ جنازہ میں بعض ائمہئ کرام کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا ہے کہ”جن حضرات کو نمازِجنازہ کی دعا یاد نہیں وہ حضرات درود شریف یا دعائے استغفار پڑھ لیں“ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک مومن میّت پر مسلمانوں کا نمازِجنازہ ادا کرنا آخری حق ہے اس سے بھی ناواقفیت ایک مومن کی بہت بڑی محرومی اور جہالت کی بات ہے، مسلم نوجوانوں میں عام طور پر گالی گلوج کا رواج اس طرح کثرت سے ہے کہ اب یہ عیب ہی نہ رہا ایک شریف النفس انسان کا گزر ایسی جگہوں سے بہت دشوار گزار مرحلہ بن جاتا ہے، لہٰذا ہر میدان میں بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کا مرکز مساجد کو بنائیں۔جمعہ کا مجمع بھی نوجوانوں کی اصلاح کا بہت مؤثر ذریعہ ہے اس موقعہ کوبارہ مہینوں کی روایتی فضائل اور دیگر مناقب بیانی میں نہ گزاریں بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی تعلیمات واصلاحات کو پوری قوت کے ساتھ بیان کریں مساجد کی منتظمہ کمیٹی کے احباب سے بھی درخواست ہے کہ حالاتِ حاضرہ پر اظہارِ خیال کے لئے ائمہ وخطیب حضرات کو مکمل آزادچھوڑیں،محض فضائل ومناقب بیان کرنے پر ائمہ کو مجبور نہ کریں چونکہ فضائل و مناقب کثرت سے بیان ہوچکے ہیں فی الحال حالات اور تقاضے دوسرے ہیں اس کے علاوہ آپ حضرات کے ذہنی خاکوں میں دوسری تدبیریں اور پلاننگ ہو اس کو رو بہ عمل لائیں۔
    اللہ تعالی مسلمانوں کی سربلندی، کامیابی اور کامرانی کی منزلوں کو مقدر فرمائے اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو اطمنان و چین وسکون نصیب فرمائے اور ہماری بے حسی وبے شعوری اور احساس ِ کم تری کو ختم کرے آمین۔ بجاہِ سید المرسلین وخاتم النبیین و نبی الاولین والآخرینﷺ

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

`12دسمبر2020

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے