توانہوں نے اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی اوراپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان جمہوری حکومتوں کونہ صرف فارغ کردیابلکہ ان کوباعث عبرت بنانے کیلئے بھی ذرہ بھرتامل سے کام نہیں لیا۔الجزائر اورمصر کی مثالیں ہمارے سامنے موجودہیں۔پچھلے ڈیڑھ سال سے استعماری قوتوں نے جس طرح عرب ممالک کاشیرازہ بکھیرنے میں اپنی تمام چالوں کوبروئے کارلاتے ہوئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اپنی سیاسی اہداف حاصل کئے ہیں، لگتا ہے کہ اب لیبیا،تیونس اور مصرکے بعد اردن کوتختہ مشق بنانے کی سازش اپنے منطقی انجام کوپہنچنے والی ہے اوربہت جلدیہاں بھی طاغوت کی جولانی طبع کے مناظررونماہونے والے ہیں۔
ایک نقطۂ نظریہ بھی ہے کہ وہاں صہیونیت اوراستعماریت کے کھیل کھیلنے میں ابھی بہت دیرہے جبکہ اعتدال پسنداوردرمیانہ روفکرکے دانشوروں کے نزدیک اردن میں بعض تبدیلیاں اس ملک کومحفوظ بناسکتی ہیں۔اردنی حکومت شائدیہ سمجھ رہی ہے کہ چندایک معاملات میں اصلاحات متعارف کرواکے عوامی بیداری کی اس لہرجس نے اس وقت سارے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ،کے خلاف مدافعت کی دیوار کھڑی کرکے اپنی بادشاہت کوبچالے گالیکن اس کاتدارک صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ وہ سیاسی اورانتظامی اصلاحات کافوری نفاذکرے جس سے عوام کویقین ہوجائے کہ ملک کی سرکاری پالیسیوں میں عوام کی رائے کوکسی حدتک احترام حاصل ہواہے اوراس بات کی بھی ضمانت ملے کہ مستقبل میں بھی عوام کی آراء کوفوقیت حاصل ہوگی۔دراصل اردن میں بہت سے اعلیٰ حکام اس نظریے کوتسلیم نہیں کرتے کہ حکومت کی پالیسیاں عوام کی مرضی سے تشکیل دی جائیں ۔ اپریل میں امریکااوراردن کے درمیان ایک وسیع البنیادمعاہدہ ہواجس میں امریکی انتظامیہ کی بھی غیرمعمولی حمائت حاصل کی گئی ، اس معاہدے کی روسے اردنی حکومت کوسال رواں کے دوران پارلیمانی انتخابات کروانے ہیں اور پرانے سیاسی اسٹیج کے چنداداکاروں کودوبارہ سامنے لاکراورری سائیکل کرکے پیش کرناہے ۔ کہا جارہا ہے کہ صہیونی اور استعماری لابی یہاں اپناکرداربہت مکاری اورچالاکی کے ساتھ اداکرنے کی اپنی مکمل تیاری کرچکی ہیں۔
اردن میں سیاسی تبدیلی سے عمومی طورپروزیراعظم کی تبدیلی مرادہواکرتی ہے،بادشاہ یہ تبدیلی لاتاہے ۔وزیراعظم کااصلی کام حکومت کرنانہیں بلکہ اصل حکمران ،بادشاہ کی پالیسیوں کو نافذ کرنا ہوتا ہے ۔ اردن کی موجودہ حکومت ۱۰۰ویں ہے ۔انٹیلی جنس،سیکورٹی اورانتظامیہ کے سربراہان مستقل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ایسالگتاہے جیسے پالیسیوں کی بجائے افراد کو مسئلہ سمجھ لیاگیاہے۔اس نوعیت کے نمائشی اقدامات سے اردن میں کبھی بھی حقیقی جمہوریت کی بنیادنہیں پڑسکتی،جوطاقت کاتوازن قائم کرتی ہے اورعوام کوفیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرتی ہے۔اس عمل کے ذریعے ہی سے اقتدارپانے والوں میں ذمہ داری کااحساس پیداہوتاہے اورعوام کوحکمرانی میں شریک ہونے کاموقع ملتاہے۔
سال رواں کے ابتدائی ایام میں شاہ عبداللہ نے میڈیاکے ذریعے قوم کے سامنے یہ تجویزرکھی تھی کہ جمہوریت کومرحلہ وارمتعارف کروایاجائے تاکہ فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت یقینی بنائی جاسکے۔انہوں نے پارلیمانی اکثریت کی بنیادپرحکومت قائم کرنے کی بات کی تھی۔انہوں نے یہ وعدہ بھی کیاتھاکہ حکومتی امورمیں عوام کی شرکت کادائرہ وسیع کیاجائے گا، حال ہی میں ا نہوں نے جمہوریت کے ذریعے لوگوں کوزیادہ طاقت دینے کاوعدہ بھی کیاہے۔ریاستی مشینری کے اعلیٰ حکام کاخیال تھاکہ جمہوریت کامرحلہ وارمتعارف کرواتے ہوئے عوام کاغصہ ٹھنڈاکرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔انہیں اس بات کا بھی یقین تھاکہ معاشی امورمیں حکومت فیصلہ کن کرداراداکرنے میں کامیاب ہوگی،آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق کام کرسکے گی اوریوٹیلیٹی بلزکے دام بڑھانے میں حق بجانب ہوگی۔
یہ بات اب رازنہیں کہ اردن میں بڑے سیاستدان اورانتظامی مشینری کے اعلیٰ حکام شام کے حالات سے عوام کوڈرانے میں کامیاب رہے ہیں۔انہوں نے عوام کوعمدگی سے باور کرایاکہ اگرسڑکوں پر احتجاج کیاگیاتویہی کیفیت پیداہوگی جس سے شام دوچارہے اوروہ شدیدعدمِ استحکام کی طرف بڑھ چکاہے۔اردن کے عوام نے بھی شام کے حالات کی روشنی میں اپنے غصے اوراشتعال کوکنٹرول کیاہے اور وہ کوئی بڑی تحریک چلانے کے معاملے میں خاصی کمزوری کامظاہرہ کررہے ہیں مگرحکومت نے اس معاملے میں پھرایک بڑی غلطی کی ہے۔عام طورپرجب حکومتیں دیکھتی ہیں کہ عوام کسی بڑی تبدیلی کیلئے میدان میں نہیں نکل رہے تووہ سمجھتی ہیں کہ اب ان کیلئے کوئی خطرہ نہیں رہا،یوں وہ اصلاحات سے غافل ہوجاتے ہیں۔وہ اس بات کوسمجھنے میں قاصررہتی ہیں کہ عوام اگرسڑکوں پرنہیں آرہے تواس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں کچھ کرنے کاحوصلہ دم توڑچکاہے۔پانی سرسے گزرنے سے پہلے ہی حکومتوں کوبہت کچھ کرلیناچاہئے مگروہ نہیں کرتیں اورپھرایک خرابی کی کوکھ سے دوسری خرابی جنم لیتی رہتی ہے ۔ تختہ الٹے جانے کے بعدبیشترآمرایک جملہ کہتے پائے گئے ہیں’’اب میں سمجھا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ حالات کاتجزیہ اورمسائل کی تشخیص کرنے کے بعدکوئی بھی حکومت سکون کاسانس لے سکتی ہے جبکہ اسے خودبھی اندازہ ہوکہ عوام کامزاج کسی بھی وقت بگڑسکتاہے اور ایسے حالات پیداہوسکتے ہیں جن کے اصل نتائج کے بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں ہوسکتی۔اردن کی حکومت اس حقیقت کاادراک کرنے میں ناکام رہی ہے کہ علاقائی عوامل کوتبدیلی کی تحریک دے رہے ہیں۔اردنی حکومت نے اب خودکوبہت سے معاملات میں مقامی امورتک محدودکرلیاہے۔حکومت اورسیکورٹی ایجنسیوں کی ساکھ داؤپرلگ چکی ہے۔پارلیمان میں ہنگامہ آرائی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملات کس حدتک جاچکے ہیں۔پارلیمان کے ارکان نے ایک دوسرے کوبرا بھلا کہا ، پانی کی بوتلیں ایک دوسرے پرپھینکیں اورایک دوسرے کوکاغذی ہتھیاروں کانشانہ بھی بنایا۔
اردن میں ایک ایساسیاسی ماحول بن چکاہے جوہرشخص پرمحیط ہے اورکسی سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں۔اس سیاسی ماحول نے ملک میں اصلاحات کاایسامطالبہ پیدا کر دیا ہے جس کی اب توقع نہیں کی جارہی تھی۔اختیارات کی تقسیم کامطالبہ ہرشخص کی زبان پرہے ۔سب یہی چاہتے ہیں کہ اختیارات اوراقتدارپرچندافرادیاادارے قابض نہ رہیں بلکہ ملک کے عوام کوطاقت کامنبع قراردیکر حقوق سے نوازاجائے۔آئین میں ترامیم اوراورعوام اصلاحات کامطالبہ دن بدن زورپکڑرہاہے۔عوام جوتبدیلی چاہتے تھے،وہ جب نہیں آئی توان میں اشتعال کی سطح بلندہوئی۔نااہل اورکرپٹ عناصرکو ہٹا کر کرپٹ افرادہی کولایاگیا۔یہ گویااس امر کامظہرتھاکہ حکومت کوعوام کے مسائل سے کچھ غرض نہ تھی اورعوام کے مزاج اورتبدیلیوں کی ضرورت کاادراک کرنے میں ناکام رہی تھی۔
چندماہ کے دوران میں اردن کے حالات تیزی سے خرابی کی طرف گئے ہیں۔حکومت نے صورتحال کی نزاکت کاادراک واحساس کرتے ہوئے معاملات کودرست کرنے کی بجائے آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسے اقدامات پراکتفاکیاہے جس سے عوام کااشتعال بڑھ گیاہے اورحکومت کوبھی احساس ہوچلاہے کہ معاملات ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔کسی بھی حقیقی اور عوام نوازتبدیلی کی راہ ہموارکرنے کی بجائے حکومت نے اب تک لیپاپوتی سے کام لیاہے اورایسے قدامات کئے ہیں جن سے تبدیلی کامحض تاثرتوملاہے لیکن تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ اردن کی حکومت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی تعطل کی طرف بڑھتی جارہی ہے۔چندایک امورسے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ سیاسی تبدیلیاں کس قدرضروری ہیں اوران سے گریزنے کیاکیفیت پیداکی ہے۔
سب سے پہلے تواس امرپرغورکرنے کی ضرورت ہے کہ اردنی حکومت کاتخت وتاج پراعتمادکمزورپڑتاجارہاہے،بادشاہت کوبرقراررکھنااب زیادہ آسان نہیں رہا۔عوام حقیقی سیاسی تبدیلیوں کیلئے بے تاب ہیں۔شاہی خاندان کیلئے اپنی حیثیت کوبرقراررکھنادشوارترہوتاجارہاہے۔نیولبرل اورسیکولرعناصربھی زورپکڑرہے ہیں۔یہ عناصرحکومتی مشینری کے ساتھ اسلام نوازقوتوں کے خلاف برسرپیکارہونے کی بات کررہے ہیں۔نئے قوانین مرتب کرنے کیلئے قائم کی گئی کمیٹی نے جوتجاویزپیش کی تھیں ان پرعملدرآمدکی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔شاہی خاندان چاہتاہے کہ اختیارات اس کے ہاتھ میں رہیں ، اس کی یہ خواہش معاشرے کی عمومی روش اورخواہش کے برعکس ہے۔قوانین میں جوترامیم تجویزکی گئی ہیں ان کی حتمی منظوری شاہ عبداللہ کی متعین کردہ ایک اورکمیٹی کے ہاتھ میں ہے۔اس کامطلب یہ ہے اردنی حکومت کسی بھی حالت میں اپنے اختیارات سے دستبردارہونے کیلئے تیارنہیں۔حکومت کااندازہ لگانابھی کچھ دشوارنہیں۔انتخابات کے انعقادمیں ٹال مٹول سے کام لیاجارہاہے،اس کامطلب یہ ہوا کہ حکومت ایک ٹانگ پرچل رہی ہے۔
ریاست کاسرپرستانہ کرداراب کمزورپڑچکاہے۔معاشی اورسیاسی ابتری معاشرے کواپنے حصارمیں لینے کیلئے بے تاب ہے۔مالی مشکلات بڑھنے سے بجٹ غیرمتوازن ہوتاجارہاہے اس کے نتیجے میں عوام کوملنے والی سہولتوں میں کمی واقع ہورہی ہے۔حالات کی خرابی نے اشتعال کی کیفیت تبدیل نہیں کی صرف مقام بدل دیاہے۔کل تک لوگ سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے۔احتجاج اوراشتعال کامرکزاب جامعات اورپارلیمنٹ بنتے جارہے ہیں ۔ ان دونوں مقامات پراشتعال کابھرپورمظاہرہ کیاجارہاہے۔اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ بادشاہ کے مصاحبین اپنی غیرمعمولی سہولتوں سے دستبردارہونے کو تیار نہیں۔ان کیلئے انتہائی پرکشش مراعات ہیں جودراصل عوام کے حق تلفی کاسبب بن رہی ہیں ۔ حکومت میں موجوداعلیٰ سطح پرموجودلوگ کسی بھی حالت میں اپنامعیارِ زندگی نیچے لانے کو تیارنہیں۔انہیں بظاہر اس بات سے کوئی سروکارنہیں کہ عام آدمی کی زندگی کن مشکلات سے دوچار ہے اوروہ اس وقت کن مشکلات اورپریشانیوں کاشکارہے۔
اردن کامعاشرہ غیرمعمولی سیاسی اورسماجی تبدیلیوں کے دورسے گزررہاہے۔قبائل بھی اپنے مفادات اور بہتر سیاسی حالات کیلئے متحدہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔جن گروپوں سے حکومت کوپہلے خطرات لاحق تھے وہ تواب کمزورہوچلے ہیں مگرچندنئے مضبوط گروپ سامنے آچکے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تبدیلیاں سامنے کی بات ہے مگر حکومت گریبان میں جھانکنے کوتیارنہیں۔معاشی ناکامی بہت سی خرابیوں کو راہ دیتی دکھائی دے رہی ہے۔اردنی معاشرے کی نوعیت بدل رہی ہے ۔کل تک عرب عنصرکواولیت دی جاتی تھی ،جولوگ حکمران خاندان کے نزدیک تھے وہ زیادہ فائدہ اٹھاتے رہے۔قبائلی عصبیت بھی کچھ نہ کچھ رنگ دکھاتی رہی،اب ’’سب سے پہلے اردن‘‘کی بات ہورہی ہے۔کل عرب دنیاکے مسائل کواولیت دی جاتی تھی۔عرب اسرائیل تنازع کے تناظرمیں اردن بھی فلسطینیوں کی پشت پر موجود رہا کرتاتھامگراب ایسانہیں ہے۔فلسطینی مسئلے کوفلسطینیوں کاندرونی مسئلہ قراردیکرسردخانے میں ڈالنے یاطاقِ نسیاں پررکھنے کارحجان پنپ چکاہے۔
اردنی حکومت کوایک پریشانی یہ لاحق ہے کہ ایک طرف توعرب دنیامیں عوامی بیداری کی لہردوڑچکی ہے اوردوسری طرف اسرائیل کے ساتھ اب تک معاملات طے نہیں پاسکے ہیں۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے آثاراب تک ہویدانہیں ہوئے۔اسرائیل نے یہ دہمکی دے رکھی ہے کہ وہ فلسطینیوں کیلئے اردنی جغرافیہ کے اندرایک ریاست قائم کرسکتاہے۔ ایسے میں اردنی حکام معاشرے کے مختلف حصوں کو خبردارکررہے ہیں کہ وہ تجربات سے بازرہیں۔اب تک اس کاخاطر خواہ نتیجہ برآمدنہیں ہوسکاہے۔اردنی معاشرے کے مختلف طبقات کوایک نکتے پراتفاق رائے کیلئے تیارکرناسہل نہیں۔چندبرسوں کے دوران میں معاشرے کے مختلف طبقات کاخوف گھٹاہے اورشناخت کے حوالے سے فکرواضح ہوئی ہے۔مقامی سطح پربہت کچھ بدل چکاہے۔
اردن کامعاشرہ اب معاشی اعتبارسے بھی ایک نئے عہدمیں داخل ہوچکاہے۔بیرون ملک کام کرنے والے اردنی باشندوں کی طرف سے ترسیلات زراورامریکی وخلیجی امدادنے معیشت کے بنیادی ستونوں کی حیثیت اختیارکرلی ہے۔اس وقت بجٹ کانصف حصہ ان دومدوں پرمنحصر ہے۔حکومت عوام کے معاشی حالت بہترکرنے سے ابھی تک قاصررہی ہے ۔نااہل اورکرپٹ عناصرکے خلاف کوئی کاروائی ہونے کی بجائے تحفظ فراہم کیاجارہاہے۔اس کے نتیجے میں لوگوں کوسہولتیں ملنے کی بجائے افراط زرکی شرح بلندہوتی جارہی ہے ۔حکمران خاندان کی جانب سے کرپٹ عناصرکوبچانے کی کوشش کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ اب پورے نظامِ حکومت میں کرپشن گھرکرچکی ہے۔قبائل نے معیشت کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے معتمداورمربوط ہوناشروع کردیاہے۔
مرکزی خفیہ ادارے کوحکمران خاندان نے مخالفین کے خلاف ہمیشہ ایک اہم ہتھیارکے طورپراستعمال کیاہے۔پولیس بھی انٹیلی جنس کے ذریعے کام کرتی چلی آرہی ہے،یہ ایجنسی ملک کی سلامتی ،قانون سازی اورتعلیم کے شعبوں کوکنٹرول کرتی ہے،انتخابات پراثراندازہوتی اورنوجوانوں کوحکومت مخالف تحاریک پرحملہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ یہ روش ملک میں سلامتی سے متعلق مسائل کھڑے کررہی ہے۔اردن کی سلامتی برقراررکھنااب ایسا چیلنج بن چکاہے کہ جوحکومت کیلئے دردِ سربن چکاہے۔ خفیہ اداروں کا اثر و رسوخ اب گھٹتاجارہاہے۔معاشرے کے مختلف طبقات اس سے جوخوف محسوس کیاکرتے تھے ،وہ اب نہیں رہا۔
اسلام پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت کاحکومت کو بھی احساس ہے۔ریاستی مشینری کواندازہ ہے کہ اب اردنی معاشرے میں اسلام پسندوں کی تعدادپہلے سے کئی گنابڑھ چکی ہے،اس لئے اب ان کے خلاف کوئی بھی بلاجوازاوربے بنیادکاروائی کرنااتناآسان نہیں ہے۔اردن کاحکمران طبقہ اسلام پسندوں کونظراندازکرنے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ کسی بھی حساس صورتحال میں وہ دیگرسیاسی جماعتوں کوان اسلام پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذسے خوفزدہ کرتی آئی ہے لیکن اب اسلام پسندوں میں غیرمعمولی توازن اوراستحکام پیداہوچکا ہے کیونکہ وہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق ان کے تمام طبقات میں اپنے حسن اخلاق ،حسن کرداراورفلاحی کاموں کی وجہ سے خاصے مقبول ہورہے ہیں اوران میں نوجوانوں کی تعداددن بدن بڑھ رہی ہے۔
شاہ عبداللہ نے چندایک اقدامات کااعلان کیاتوہے مگران سے اصلاحات نافذکرنے کی حقیقی نیت اوراخلاص کااندازہ نہیں ہوتا،سب کچھ نیم دلانہ لگتاہے۔حکومت نے سینکڑوں ویب سائٹس کوبلاک کر رکھاہے۔کئی شہروں میں عوام کااحتجاج سول نافرمانی کوچھوتادکھائی دے رہاہے اوریوں لگتاہے کہ تبدیلی کاوقت آن پہنچاہے ۔اسی لئے جمہوریت کو متعارف کروانے کے نعرے لگنے شروع ہوگئے ہیں اور آئین میں ایسی ترامیم کامطالبہ کیاجارہاہے جن سے عوام کوبہتراندازسے امورسلطنت میں شرکت کاموقع ملے اوروہ زیادہ احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہوسکیں۔اب تک بادشاہ نے اہم عہدوں پرتعیناتی یابرطرفی کے حق میں دستبردار ہوناقبول نہیں کیاہے،یہ تمام معاملات پارلیمنٹ پرچھوڑناہوں گے،اسی صورت میں بہتری آسکے گی۔مراکش اورترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ امریکی اورصہیونی سازشوں کی پیش قدمی روکنے کی اب حکومت اردن پرجوذمہ داری عائدہوتی ہے اس میں اب ادنیٰ سی تاخیر بھی اردن کے حالات بے قابوکرسکتی ہے جس سے فائدہ اٹھانے کیلئے صہیونی طاقتیں بالکل تیاربیٹھیں ہیں۔
جواب دیں