اگلا انکاونٹر کب اور کس کا ہوگا؟

انھیں مسلمانوں کا ہمدرد سمجھا جاتا رہا ہے۔ مسلمانوں نے بھی علاحدہ تیلنگانہ ریاست کے قیام کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور انھیں امن و امان کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ملے گا۔ لیکن ان کی حکومت میں بھی وہی کچھ ہوا جو دوسری حکومتوں میں ہوتا رہا ہے۔ شائد وہ ابھی پولیس کو اپنے قابو میں نہیں کر پائے ہیں یا کرنا نہیں چاہتے۔ پولیس کی ذہنیت وہی ہے جو پہلے تھی۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ چندر شیکھر راؤ نے لب سی لیے ہیں۔ اس وحشیانہ قتل پر ان کی زبان بند ہے۔ انھوں نے پولیس کے ظلم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ہاں اس کی جانچ کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن کسی بھی واقعہ کی جانچ کا حکم محض ایک مذاق ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ انکوائری کمیٹی یا کمیشن کا قیام لوگوں کو خاموش کرنے اور معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کے لیے ہوتا ہے۔ سو انھوں نے بھی اس معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔
جب یہ واقعہ ہوا اور اس کی تصویریں سامنے آئیں تو سب نے بیک آواز کہا کہ یہ مڈبھیڑ نہیں وحشیانہ قتل ہے۔ کہا گیا کہ ایک قیدی وقار احمد نے ایک پولیس والے کی بندوق چھیننے کی کوشش کی اور اس پر قابو پانا چاہا۔ اس سے مقابلہ ہوا اور اس مقابلے میں پانچوں افراد مارے گئے۔ لیکن جو حقائق سامنے آئے وہ پولیس کے دلائل کو منہ چڑا رہے تھے۔ تمام شواہد چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ان نوجوانوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اب انسانی حقوق کی ایک تنظیم سول لبرٹیز مانیٹرنگ کمیٹی نے موقع پر جا کر جو تفتیش کی اور جو رپورٹ تیار کی اس سے منظم سازش پر سے پوری طرح سے پردہ اٹھ گیا۔ اس رپورٹ میں جو کہ countercurrents.org پر موجود ہے، پیش کیے گئے حقائق نے بہت سے لوگوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں پولیس والے تو بے نقاب ہو ہی رہے ہیں، ریاستی حکومت بھی ہو رہی ہے، میڈیا بھی ہو رہا ہے اور عدلیہ بھی ہو رہی ہے اور مسلم قیادت بھی ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں جو باتیں کہی گئی ہیں اور جو حقائق سامنے لائے گئے ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہاں کی پولیس انتہائی متعصب ہے۔ مسلم دشمن ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مہارت رکھتی ہے۔ اس نے بڑے منظم انداز میں انکاونٹر کا ڈرامہ رچا اور اسے اسٹیج بھی کیا۔ ایسی کئی باتیں ہیں جو پولیس کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہیں لیکن ریاستی حکومت ان لوگوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ پولیس نے اس واقعہ کے پہلے سے ہی ایسے بیانات دینے شروع کر دیے تھے جن سے یہ تاثر ملے کہ یہ لوگ بڑے خطرناک دہشت گرد ہیں اور اگر ان کے ساتھ کچھ ایسا ویسا ہو جاتا ہے تو ٹھیک ہی ہوگا۔ گویا پہلے عوام کے ذہنوں کو آلودہ کیا گیا ان نوجوانوں کے خلاف انھیں بھرا گیا اور پھر نوجوانوں کو گولی مار دی گئی۔ پولیس نے ان نوجوانوں کے خلاف تو رپورٹ درج کی لیکن اپنے ہی لوگوں کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب مقتولین کے اہل خانہ نے جا کر رپورٹ درج کرانی چاہی تو انھیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
سیاست دانوں کا رول بھی قابل مذمت رہا۔ نہ تو ٹی آر ایس نے زبان کھولی اور نہ ہی کانگریس نے۔ سب کو اپنے ہندو ووٹ بینک کے ڈانواڈول ہو جانے کا اندیشہ ہے۔چندر شیکھر راؤ وزیر اعلی تو محمود علی نائب وزیر اعلی ہیں۔ لیکن دونوں چپ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تیلنگانہ ایک پولیس اسٹیٹ ہے اور وزیر اعلی اور نائب وزیر اعلی پولیس کے تحت کام کرتے ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین کا رول بھی کوئی بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ وہ جہاں ہر معاملے میں انتہائی پرجوش رخ اختیار کرتی ہے اس معاملے میں بہت ہوشیاری سے اور پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہی ہے۔لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ مسلم قیادت بے بس اور کمزور کیوں نظر آرہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ ریاستی حکومت پر کوئی دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہی۔ میڈیا کا رول تو مسلمانوں کے بارے میں ہمیشہ منفی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں بھی وہ اپنی پرانی ڈگر پر چل رہا ہے۔ مسلم مخالف اور ہندوتو کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے اور اس انداز سے خبریں بنائی اور دکھائی اور چھاپی جا رہی ہیں جیسے پولیس نے بہت بڑے اور خطرناک دہشت گردوں کو مار گرایا ہے۔ مسلم عوام، دانشور اور طلب علم یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر میڈیا نے کیسے ایک شخص کو دہشت گرد قرار دے دیا جبکہ ابھی اس پر دہشت گردی کا کوئی الزام ثابت ہی نہیں ہوا ہے۔ اب تو عوام اس خیال کے حامی ہوتے جا رہے ہیں اور بجا طور پر ہو رہے ہیں کہ جب بھی کسی واقعہ میں کوئی مسلمان شامل ہوتا ہے تو فوراً اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ میڈیا کوئی چھان بین نہیں کرتا اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ فلاں شخص کے اوپر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ سچ ہیں یا جھوٹ۔ خاص طور پر تیلگو میڈیا تو چوبیس گھنٹے مسلمانو ں کے خلاف اسٹوری چلا رہا ہے۔ کمیٹی کے ممبران نے اپنی تحقیقات کے دوران ان زیر حراست قیدیوں کے وکلا سے ملاقات کی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے بارہا عدالت سے اپیل کی کہ ان نوجوانوں کی زندگی خطرے میں ہے لیکن جج حضرات نے سنی ان سنی کر دی اور ان کے تحفظ کا کوئی حکم نہیں دیا۔ وقار کے والد نے آندھرا پردیش کے چیف جسٹس کے سامنے عرضداشت پیش کر کے اس کی زندگی کے تحفظ کی درخواست کی لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ خود وقار سے عدالت کے سامنے ایک تحریری فارم پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ اسے وارنگل سے حیدرآباد منتقل کیا جائے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اسے مار دیا جائے گا۔ لیکن اس کی درخواست کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اب وکلا اس کوشش میں ہیں کہ وہ ہائی کورٹ میں اپیل کریں اور پولیس والوں کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم کریں۔ یہ تمام حقائق فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نے پیش کیے ہیں۔ لیکن اس سے قبل بھی ایسی رپورٹیں تیار کی جاتی رہی ہیں اور آئندہ بھی تیار کی جاتی رہیں گی اور حکومتیں پہلے بھی آنکھیں بند کیے رہی ہیں، اب بھی بند کیے ہیں اور آئندہ بھی بند رکھیں گی۔
اس واقعہ نے ہاشم پورہ کی یاد ایک بار پھر تازہ کر دی۔ جس طرح ہاشم پورہ کے مسلمانوں کو ٹرک میں بھر کر گنگ نہر کے پاس لا کر گولی مار دی گئی تھی اسی طرح ان لوگوں کو بھی لاکر گولی مار دی گئی۔ البتہ انھیں کسی نہر میں نہیں پھینکا گیا بلکہ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں پکڑا کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی کہ انھوں نے پولیس پر حملہ کیا تھا۔ جبکہ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی تھیں اور وہ سیٹ میں لاک کی ہوئی تھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا فرضی مڈبھیڑوں کا یہ سلسلہ کہیں رکے گا یا یوں ہی جاری رہے گا اور اگر جاری رہے گا تو آئندہ کہاں انکاونٹر ہوگا کیسے ہوگا اور کس کا ہوگا؟

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے