از قلم: مشتاق نوری
ویسے ۲۰۰۲ کے بعد سے انکاؤنٹر کا براہ راست تعلق مسلم سماج سے بنا ہوا ہے۔یہ انکاؤنٹر عجب بلا ہے کتنے پولیس والے انکاؤنٹر کی آڑ میں دشمنی نکالتے رہے ہیں۔کتنے افسران کے پروموشن ہوۓ ہیں۔کتنوں نے ویرتا میڈل ، اور بہادری کے تمغے حاصل کئے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ پولیس محکمے میں "انکاؤنٹر اسپیشلسٹ" بننے کی ہوڑ لگی رہتی ہے۔فرضی انکاؤنٹرز کی ایک لمبی لسٹ ہے چاہے عشرت جہاں انکاؤنٹر ہو یا سہراب الدین انکاؤنٹر۔بھوپال میں آٹھ مسلم نوجوانوں کا فرضی انکاؤنٹر ہو یا بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر۔سیلف پروٹیکشن کے نام پر بھی پولیس یہ کام انجام دیتی رہی ہے۔
بارہا پولیس کی انکاؤنٹر کہانیوں پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ اور دیگر سماجی و فلاحی تنظیمیں اس کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔"دی وائر" کے مصدقہ رپورٹ کے مطابق یوگی کی پولیس نے صرف چھ ماہ کے اندر ۴۲۰ سے زائد انکاؤنٹر کئے تھے۔جو ۲۰۱۸ کے اخیر تک ۱۰۳۲ تک پہنچ گئے۔اسی سال اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کارکنوں نے انڈین حکومت کو خط لکھ کر ۵۹؍ فرضی انکاؤنٹر کا ذکر کرتے ہوۓ ۱۵؍ انکاؤنٹر پر جواب طلب کیا تھا جن کے کل متاثرین مسلم تھے۔
وکاس دوبے کے انکاؤنٹر کے ساتھ بہت سے سفید پوشوں،کھادی پوشوں،بھگوا پوشوں کا کچا چٹھا بھی دنیا کے سامنے آنے سے پہلے پھر سے خلوت خانے میں چلا گیا۔وکاس دوبے کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا شک گمان بلکہ یقین ملک کے کافی لوگوں کو تھا۔اس کا انکاؤنٹر کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک گیم پلان کے تحت انجام دیا گیا سیاسی عمل ہے۔اس سے کافی بڑے بڑے لوگ جو اس کے رابطے میں تھے، وہ پولیس محکمے کےاعلی افسران جو ان سے ہفتہ لیتے تھے، وہ سیاسی لوگ جو انہیں سیاسی تحفظ فراہم کرتے تھے وہ سب کے سب قانون کی گرفت میں آسکتے تھے۔آتے آتے رہ گئے۔مگر خیر سے ایسا کب ہونے دیا گیا ہے؟ ویسے بھی انڈیا کی سیاست بڑی عیار ہوگئی ہے۔
آٹھ پولیس والوں کے مارے جانے کے بعد یوگی حکومت نے دوبے کے مکانوں کو ڈھا دینے کا فرمان جاری کر دیا۔اور ڈھا بھی دیا گیا۔اس سے ایک طبقہ کافی خوش ہوگیا کہ ایک گینگٹسر کی پراپرٹی تہس نہس کی جارہی ہے۔جب کہ قانونی طور پر پہلے اس کے گھروں، ٹھکانوں کی پڑتال ہونی چاہئے تھی۔بہت ممکن تھا کہ اس کے ٹھکانوں سے اور بھی غیر قانونی لنک ملتے۔مزید سراغ ہاتھ لگتے۔مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ثبوتوں، رابطوں کو مٹانے کے لئے فوری منہدم کر دیا گیا۔دوسری بات آئین میں ایسی کوئی دھارا، یا شق نہیں ہے کہ جس کو بنیاد بنا کر آپ ایسا کریں۔اس کے لئے آپ کو کورٹ کا آرڈر درکار ہوتا ہے۔
اس پوری کہانی کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر وکاس دوبے وقاص احمد ہوتا تب کیا ہوتا؟ کیا یہی طریقۂ کار اپنایا جاتا؟ تب دھارمک پریشر میں کام کرنے والی پولیس کا گینگ کس طرح دھر پکڑ جاری رکھتا۔مسلم سماج کے بارے میں سیاسی گلیاروں سے کیسے کیسے کمینٹ نکل کر آتے؟ کیا میڈیا کا تانڈو یہی رہتا؟ تفتیشی ایجنسیز، سیکیورٹی فورسیز کی ٹیم بہت بعد میں کوئی سراغ ڈھونڈتی،پہلے میڈیا کے اینکرز اچھل اچھل کے آسمان سر پہ اٹھا لیتے۔تب بریکنگ نیوز اس طرح ہوتے۔
آتنکوادی وقاص نے آٹھ نردوش پولیس والوں کی جان لے لی
وقاص کے تار پاکستان کے آئی ایس آئی سے جڑے ہیں۔
اسے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی فندنگ کرتا تھا۔اوری اور پلوامہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا وقاس۔
خونخوار ٹیررسٹ وقاص دلی جامع مسجد میں چھپا تھا
وقاس نے اپنے گھر میں ہتھیاروں کا گودام بنا رکھا تھا۔
۲۶؍۱۱ جیسے حملے کے لئے آر ڈی ایکس کا ذخیرہ موجود تھا۔
دہلی کے شانتی نگر اور ممبئی کے ماہم کو اڑانے کا تھا پلان۔
دہلی دنگا بھڑکانے کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ تھا۔
اور بھی نہ جانے کیا کیا چلتا رہتا۔میڈیا کے اس ہنگامے سے ڈر کر سیاست کے گیمبلر حرکت میں آجاتے۔پھر پولیس اور اے ٹی ایس،این آئی اے،اسپیشل سیل کی ٹیمیں کسی راشد، خالد،اقبال،تبریز، ریحان پر ٹوٹ پڑتیں۔ملک بھر میں مسلم علاقوں پر روز دبش دی جاتی۔روز مسلم نوجونوں کو حراست میں لیا جاتا۔روز ٹارچر کیا جاتا۔روز نئی کہانی گڑھی جاتی۔ایک نہیں دو نہیں،اب تک سینکڑوں پڑھے لکھے مسلم نوجوان اٹھا لئے گئے ہوتے۔درجنوں کا انکاؤنٹر ہوگیا ہوتا۔این ایس اے، یو اے پی اے کا دھڑلے سے استعمال ہوتا۔
ایسے میں میڈیا اور سیاست مل کر ملک میں ہندو مسلم ٹکراؤ پیدا کرنے کے لئے پورا زور لگا دیتی۔برہمن سماج شودروں، دلتوں کو لے کر روڈ پہ نکل آتا۔سارے شرما، پانڈے ،دوبے،چودھری،مشرا،ترپاٹھی بوال مچا دیتے۔مسلم مخالف ٹرینڈس چلاۓ جاتے۔سب "ہندو اسرکشا" کی بات کرتا۔ہندو ایکتا کے نعرے دیئے جاتے۔مہارانا پرتاپ اور شیواجی کی ویرتا کے پاٹھ دہراۓ جاتے۔مغل دور حکومت کو گھسیٹا جاتا۔بےچارے اورنگ زیب کو سولی چڑھایا جاتا۔پھر غوری و غزنوی کو منہ بھر بھر کے گالیاں دی جاتیں۔ ممکن تھا اس درمیان کچھ جگہ دنگے بھی ہوگئے ہوتے۔یہ سب بہت ممکن تھا جب آٹھ پولیس والوں کا قاتل وکاس کے بجاۓ کوئی وقّاص ہوتا۔
معلوم ہے ایسا کب اور کیوں ہوتا ہے؟ جب قوم ،سماج کے سرکردہ لوگ خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں۔جب رہنمایان اسلام بے حس و حرکت پڑے ہوتے ہیں۔جب آقایان ملت ذلت و رسوائی کو مقدر سمجھ کر حالات سے سمجھوتا کر لیتے ہیں۔تب سماج سے بے گناہ نوجوانوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔کھلے عام بہن بیٹیوں سے بدسلوکیاں کی جاتی ہیں۔گھروں کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔سماجی بائکاٹ کی مہم چلائی جاتی ہے۔اور ہزاروں لوگ تماش بین بنے کھڑے رہتے ہیں۔کسی میں یہ بھی پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ ہمارے نوجوانوں کے ساتھ سرکاری دہشت گردی روا رکھنے کا قانونی جواز کیا ہے؟ ٹھیک وہی حالات ہوگئے ہیں جب چنگیز خان کا ایک ادنی سپاہی بھی مسلمانوں کی ایک پوری بستی کو ہانک لے جاتا تھا۔پر کسی میں مزاحمت تو دور ،چوں چرا کی بھی سکت نہیں ہوتی تھی۔چنگیزی دور اور بھگوا دور میں کافی چیزیں مشترک بھی ہیں۔شاید اس کی وجہ مودی کی منگول حکومت سے اس قدر لگاؤ ہو۔
اس کانڈ کا سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس میں ایک بھی مسلم نام والا نہیں تھا۔ورنہ حیدر آباد کی خاتون ڈاکٹر کی عصمت تار تار کرنے والوں میں صرف ایک مسلم نام ہونے کی وجہ پوری بھکت لابی مسلم سماج کو کوسنے لگتی ہے۔اور اہم بات یہ ہے کہ قدرت بار بار مسلم رہنماؤں کے ناکارےپن کے باوجود اس کے دفاع کے لئے راستے ہموار کر دیتی ہے۔روز میڈیا ہمارا انکاؤنٹر کرتا ہے۔پولیس فورس،سیکیوریٹی گارڈز روز ہم پر سرجیکل اسٹرائک کرتے ہیں۔ہم آۓ دن نئی مصیبت سے گزارے جاتے ہیں۔دیوار سے لگا دیئے جاتے ہیں،روز زمین بوس کرنے کی سازش ہوتی ہے۔قدرت ہمیں پھر کھڑا ہونے، دفاع کرنے کی مہلت دیتی ہے۔پھر بھی ہم حالات سے بے خبر بے سدھ پڑے ہوتے ہیں۔جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
جواب دیں