اگر اخوان دہشت گرد ہیں…

تیسرا کوئی اختیار(Option)نہیں ہے۔‘‘مسلم دنیا بالخصوص سعودی عرب اور پاکستان نے جب دہشت گردی مخالف عالمی مہم میں کوئی خاص دل چسپی نہیں دکھائی تو ان دونوں ممالک میں بھی بم دھماکے کرائے گئے اور انہیں بھی عملی طور پر اپنا ہم نوا بنا لیا گیا۔ اب صورت حال بالکل وہی ہو گئی تھی کہ ننانوے اندھے ایک ساتھ بیٹھے ہوں اور ایک اندھا آکر ان سب کو بتائے کہ وہ آنکھوں والا ہے اور سامنے سے ایک بھیڑیے کو آتا دیکھ رہا ہے۔ پھر سارے کے سارے یک زبان ہوکر بھیڑیا بھیڑیا چلانے لگیں۔ ہو بہ ہو یہی صورت حال پیش آرہی تھی۔ بے چارا امریکا خود صہیونیت کے آگے جھکا ہوا تھا۔صہیونی لابی اس سے جو کرا رہی تھی، وہ کررہا تھا۔ اس نے دنیا کو باور کرایا کہ اس کے پاس دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کی معلومات ہے ۔ ہم نہ جاگے تو پوری دنیا برباد ہوجائے گی۔ بس پھر کیا تھا سب کے سب بے سوچے سمجھے دہشت گردی دہشت گردی چلانے لگا۔ ہاتھ سوائے انسانی بربادی کے کچھ نہ آیا۔ 
اصولی طور پر اس اصطلاح کا مطلب بالکل واضح ہے۔ یعنی وہ کام جس سے انسانوں میں دہشت پیدا ہو۔ اسی طرح دہشت گرد کا مطلب ہوا ، وہ انسان جس کی کوئی حرکت انسانوں کو دہشت زدہ کردے۔ اس تعریف کو سامنے رکھ کر گزشتہ دس برسوں میں ہونے والی انسانی بربادی کی تاریخ دیکھیے۔ بہت آسانی کے ساتھ آپ یہ سمجھ لیں گے کہ کون سی حکومت ، جماعت ، تنظیم یا انسان دہشت گرد ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جوحکومت، تنظیم یا انسان دہشت گرد ہو ، وہ انسانیت کا مجرم ہے اور اسے سخت سزا ہونی چاہیے۔ یہ تھا دہشت گردی کا حقیقی مفہوم اور اس کا حکم۔ لیکن تماشہ یہ ہے کہ اندھوں کا جو گروہ دہشت گردی سے دنیا کو ڈرا رہاہے، وہ اس حقیقی تعریف کو نہیں مانتا۔ اس نے اس ایک لفظ میں کئی چیزوں کو مخفی مانا ہے۔ دنیا کو یہ اصطلاح ویسی ہی نظر آرہی ہے، جیسی یہ 
۲
ہے۔ لیکن ان اندھوں کی آنکھیں اس میں بہت کچھ دیکھ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ دہشت گرد مسلمان ہو، امریکی دہشت گردی یا دہشت گردانہ پالیسیوں پر قولی یا عملی تنقید کرتا ہو، صہیونیت کو دنیا کے لیے خطرہ سمجھتا ہو، حکم راں طبقے کی برگزیدگی کا قائل نہ ہو اور ان کی پالیسیوں میں غلطی کا امکان رکھتا ہو، اسلامی نظام کو دنیا کی نجات کا واحد ذریعہ سمجھتا ہو، امریکہ یا اس کے حلیف کسی بھی ملک کو اس کا کوئی عمل ناگوار ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آنکھوں والوں کے لیے دہشت گردی کی یہ احمقانہ ، جاہلانہ اور گم راہ کن تعریف ناقابل قبول ہے۔ اس تعریف کو درست مانیں تو گاندھی جی ، نیلسن منڈیلا، شاہ سعود اور شیخ محمد بن عبدالوہابؒ سب کے سب دہشت گرد قرار پائیں گے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے اور ان کے لاتعداد متبعین نے حکومت وقت کے خلاف اپنے اپنے طور پر اقدامات کیے۔ لیکن انہیں کوئی دہشت گرد نہیں کہتا ۔ بل کہ انہیں قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے اور اپنے اپنے ملکوں میں ان سب کے افکار وخیالات کو رہ نما تسلیم کیا جاتا ہے۔ 
حال ہی میں صہیونیت کی سرپرستی اور امریکا کی قیادت میں دہشت گردی مخالف مہم کے نام سے چلنے والی اس اسلام مخالف مہم میں ایک نیا موڑ آیا۔ ہوا یہ کہ عالم اسلام کے قلب و جگر یعنی حرمین شریفین اور پورے حجاز مقدس پر قائم موجودہ حکومت کے ذریعے عالم اسلام کی سب سے بڑی اور منظم اسلامی تحریک جماعۃ الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دلوا دیا گیا۔ پوری دنیا ششدر رہ گئی ۔ دشمنان اسلام مسرت آمیز حیرانی میں مبتلا ہوئے۔ اللہ بھلا کرے امیر قطر کا ، جنہوں نے صہیونیت کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اخوان کی حمایت جاری رکھنے اور مصرمیں اسرائیل کی سرپرستی میں ہونے والی فوجی بغاوت کا ساتھ دینے سے منع کردیا۔ اس طرح اخوان کو دہشت گرد ثابت کرنے والی قرارداد کو بے حقیقت اور بے روح بنا دیا۔ لیکن اس وقت نہ مصر کی فوجی بغاوت موضوع گفتگو ہے اور نہ اسلام پسندوں کے خلاف عرب حکم رانوں کا شرم ناک رویہ۔ نہ مقصود اخوان کی تعریف کرنا ہے اور نہ ان کو بے قصور ثابت کرنا۔ گفتگو صرف یہ کرنی ہے کہ واقعتا اگر اخوان دہشت گرد ہیں تو ان کو دہشت گرد کہنے کے کیا ’’تقاضے‘‘ ہیں۔ عرب حکم راں ان تقاضوں کو پورا کریں۔ ورنہ ہاتھ میں دہشت گردی مخالف مہم کے نام سے ڈگڈگی لے کر صرف گھومنے سے کیا فائدہ؟ وہ لازمی تقاضے یہ ہیں:
۱۔ تحریک اخوان کے قیام کو ایک صدی مکمل ہونے والی ہے۔ اس طویل عرصے میں کسی پر یہ راز منکشف نہیں ہوا کہ وہ دہشت گرد ہیں۔دوسروں کی تو بات ہی نہ کیجیے خود سابق سعودی حکم راں شاہ فیصل بن عبدالعزیز شہید کا یہ تاریخی جملہ بھی سب کو یاد ہے کہ ’’الاخوان أبطال، یجاھدون فی سبیل اللہ بأموالھم و أنفسھم‘‘(اخوان اللہ کے راستے میں اپنی جان و مال سے جہاد کرنے والے ہیرو ہیں)۔ اسی طرح سعودی حکومت اخوانی رہ نماؤں کی کتابیں بھی شائع کرکے تقسیم کراتی رہی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم علامہ عبدالعزیز بن بازؒ نے اپنے فتووں میں صاف طور پر اخوان کو ان جماعتوں میں شامل کیا ہے، جو حق پر ہیں اور حماس کی حمایت کی اپیل اور ان کے حق پر ہونے کا فتویٰ بھی جاری فرمایا ہے۔(اتنا ضرور ہے کہ علامہ بن بازؒ اور دوسرے سنجیدہ سعودی علماء نے اخوان کے ساتھ اپنے فکری اختلاف کو بھی بیان کیا ہے، لیکن اس کی حیثیت صرف علمی و فکری اختلاف کی ہے)۔آج اگر سعودی حکومت کو معلوم ہوا کہ اخوان اور حماس دہشت گرد تنظیمیں ہیں تو اسے چاہیے کہ شروع ہی سے ’ ’اخوانی و حماسی دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ اپنے روابط پر دنیا سے معافی مانگے۔ شاہ فیصل شہید، شاہ خالد، شاہ فہد اور علامہ بن بازکے ذریعے اخوان اور حماس کی زبانی یا عملی حمایت کو ’’دہشت گردی کی حمایت‘‘ کہہ کر ان حضرات کے فتووں یا فیصلوں کو ناواقفیت اور نادانی پرمبنی قرار دے۔ 
۲۔ خود موجودہ فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بھی ابھی ایک سال پہلے تک مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا کھلے دل سے استقبال کررہے تھے اور غزہ کی حکومت کو امداد پہنچا رہے تھے۔ آج زندگی کے آخری دنوں میں جب ان پر ’’حق‘‘ واضح ہوگیا ہے، تو انہیں چاہیے کہ پوری دنیا سے دہشت گردوں کی اس کھلی حمایت پر معافی مانگیں۔ اس درمیان مصر کی فلاح کے لیے کیے جانے والے تمام معاہدات کو منسوخ کریں اور حماس اور فتح کے درمیان کرائے جانے والے اس تاریخی’’مکہ معاہدے‘‘ کو بھی منسوخ کریں، جس کی وجہ سے دنیا میں انہیں بہت سراہا گیا تھا اور عالم اسلام میں اعتماد ووقار حاصل ہوا تھا۔ 
۳۔ ماضی میں جب دہشت گردی کی اصطلاح کو رائج کیا گیا تو اصل نشانہ اسامہ بن لادن کو بنایا گیا تھا۔ امریکا پر ہونے والے حملے میں اسامہ کا نام لے کر ان کے افغانستان میں چھپے ہونے کی بات کی گئی تھی۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے جب اسامہ کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو اسے دہشت گرد حامی بتا کر جنگ چھیڑ دی گئی۔ کیوں کہ امریکا کا اعلان تھا کہ جو ہمارے ساتھ نہیں ،وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہے۔ بالکل اسی طرح آج اخوان اور حماس کو دہشت گرد قراردینے کے بعد ان ممالک کے ساتھ مکمل قطع تعلق کیوں نہیں کیا جارہا ہے، جو اخوان یا حماس کے ساتھ ہیں؟حد تو یہ ہے کہ قطر جیسے چھوٹے سے ملک کے ساتھ بھی بہت محتاط دشمنی کی جارہی ہے۔ ’’ دہشت گردوں‘‘ کی نشان دہی ہرگز کافی نہیں، سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کو چاہیے کہ وہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کی عملی تدبیر کرتے ہوئے دنیا کے ہر اس ملک پر حملہ کریں ، جہاں یہ ’’دہشت گردتنظیمیں‘‘ کھل کر کام کررہی ہیں۔
۴۔ سعودی حکومت ہر سال فیصل ایوارڈ اور دبئی حکومت اسلامی شخصیت ایوارڈ دیتی ہے۔ان دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ اب تک انہوں نے جن جن ’’دہشت گردوں ‘‘یا ان کے حامیوں کو یہ ایوارڈ دیے ہیں، ان سب کو کالعدم قرار دینے کا اعلان کردیں۔ 
۵۔جس طرح اخوان کے فلسطینی ایڈیشن حماس کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، اسی طرح تیونس، لبنان، یمن، لیبیا، شام، انڈونیشیا، ملیشیا، امریکا،انگلینڈ، فرانس، کینڈا، پاکستان، ہندستان، بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک میں بھی اخوانی فکر رکھنے والی یا ان کی حمایت کرنے والی جماعتوں ، اداروں اور افراد کو بھی دہشت گرد قرار دیا جائے ۔ مزید یہ کہ ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ثبوت جمع کرکے متعلقہ حکومت تک بھی پہنچائے جائیں ، تاکہ پوری دنیاان ’’خطرناک دہشت گردوں‘‘ کا خاتمہ کرسکے۔ 
یہ وہ اقدامات ہیں، جو ماضی میں عالمی طور پر دہشت گرد قرار دیے جانے والے افراد اور تنظیموں کے ساتھ کیے جاچکے ہیں اور حقیقی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ضروری بھی ہیں۔ موجودہ سعودی حکومت اور عرب لیگ میں شامل دوسرے ممالک کو چاہیے کہ فوری طور پر یہ اقدامات کریں۔ اگر مستقبل قریب میں یہ اقدامات کیے جاتے ہیں، تب تو یہ سمجھا جائے گا کہ واقعی یہ ممالک اخوان اور حماس کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر نہیں کیے جاتے تو مطلب صاف ہے۔ امریکا کی طرح دہشت گردی کا ہنگامہ کرکے صرف اپنے مفادات کی حفاظت مقصود ہے۔ چاہے اس کے لیے ہزاروں انسانوں کو تہہ تیغ کرنا پڑے۔ ہاں ! امریکا اور ان عرب ممالک کے ہنگامے میں ایک چیز مشترک ہے۔ صہیونیت کے در پہ سجدہ ریزی۔ امریکا نے بھی صہیونیت کے اشارے پر دہشت گرد مخالف مہم چھیڑی تھی اور ان عرب ممالک نے بھی۔ 

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے