اگر900 اسرائیلی ہلاک ہوتے تو پھر کیا ہوتا؟

اور یہاں کچھ بہت عجیب ہے، کیا واقعی ان دونوں جگہوں پر ہونے والی ہلاکتوں پر ہمارا ردعمل مختلف نہیں، غزہ میں ہم جنگ بندی کی اپیل تو کرتے ہیں مگر وہاں کے لوگوں کو غزہ کی تپتی دھرتی میں دفن کرنے دیتے ہیں اور زخمیوں کے لیے ایک انسانیت کے نام پر ایک راستہ تک نہیں کھولتے۔مگر جہاں تک ایم ایچ 17 کے مسافروں کی بات ہے، ہم ان کی فوری مناسب تدفین اور ہلاک شدگان کے ورثاکے خیال کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم ان کو بددعائیں دیتے ہیں جنھوں نے مشرقی یوکرائن کے کھیتوں میں لاشوں کو چھوڑ دیا، اگرچہ بیشتر لاشیں کچھ وقت کے لیے ہی کھیتوں میں پڑی رہی، اور وہاں غزہ کے آسمان کی طرح اوون جیسا گرم موسم بھی نہیں تھا۔
یہ چیز برسوں سے مجھے جھنجھوڑ رہی ہے، ہم فلسطینوں کی زیادہ پروا نہیں کرتے، کیا ہم کرتے ہیں؟ ہم اسرائیلیوں کی قابل تعزیر کارروائیوں کی پروا بھی نہیں کرتے، حالانکہ اسرائیلی فوج بہت بڑی تعداد میں عام شہریوں کو ہلاک کرچکی ہے۔ مگر حماس کی صلاحیت ضرور ہمارے لئے معنی رکھتی ہے،اگر آٹھ سو اسرائیلی اور صرف 35 فلسطینی ہلاک ہوتے تو میرا خیال ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ہمارا ردعمل کیا ہوتا۔
ہم اسے کیا قرار دیتے ہیں ؟ یقیناًایک قتل عام، بربریت، ایک جرم جس کے مرتکب افراد کا احتساب ہونا چاہئے، مگر آخر آج ہم صرف ان ملزمان کی ہی تلاش میں کیوں سرگرداں ہیں جنھوں نے یوکرائن میں ایک طیارے پر ایک یا ہوسکتا ہے دو میزائلوں کو فائر کیا؟ اگر اسرائیل میں ہلاکتیں فلسطینیوں کے برابر ہوتی ہیں اور میں دوبارہ دوہراتا ہوں کہ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا، مجھے شک ہے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ” ایرانی حمایت یافتہ دہشتگردوں” سے تحفظ کے لیے مکمل فوجی تعاون کی پیشکش کردی جاتی۔
ہوسکتا ہے کہ ہمارا حماس سے مطالبہ ہو کہ وہ عفریت ہمارے حوالے کئے جائیں جو اسرائیل پر راکٹ برسا رہے ہیں، مگر ہم ایسا نہیں کررہے کیونکہ اس وقت بیشتر ہلاک ہونے والے افراد فلسطینی ہیں۔مزید سوالات یہ ہیں کہ آخر فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی وہ کون سی حد ہے جس کے بعد ہم جنگ بندی کرائیں گے؟ آٹھ سو؟ یا آٹھ ہزار؟ کیا ہمارے پاس اسکور بورڈ ہے؟ ہلاکتوں کا ایکسچینج ریٹ؟ یا ہم اس وقت تک انتظار کریں گے ہمارا حلق خون سے بھرجائیں گے اور کہں بس بہت ہوگیا، یہاں تک کہ اسرائیل کی جنگ بھی اب برداشت سے باہر ہوگئی ہے۔
اسرائیل کی نئی فوج کے ہاتھوں 1948میں عرب دیہاتیوں کے قتل عام سے لے کر 1982کے صابرہ اور شتیلا کے قتل عام تک، جب اسرائیل کے اتحادی لبنانی عیسائیوں نے سترہ سو افراد کو قتل کردیا تھا اور اسرائیلی فوجی دیکھتے رہے تھے، 1986میں لبنانی عربوں کا اقوام متحدہ کی بیس میں جی ہاں اقوام متحدہ کی بیس میں کانہ قتل عام، دس سال بعد 1996میں کانہ کے علاقے میں ایک بار پھر سفاکانہ قتل عام، اور 2008-09کی غزہ جنگ میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں۔
صابرہ اور شتیلا کے واقعات کے بعد تحقیقات کرائی گئی، کانہ میں بھی ایک انکوائری ہوئی اور 2008-09کے قتل عام پر بھی ایک انکوائری ہوئی، کیا ہمیں یاد نہیں کہ کس طرح جج گولڈاسٹون نے دستبردار ہونے کی ہرممکن کوشش میرے اسرائیلی دوستوں کے مطابق اس وقت کی، جب اسے شدید ذاتی دبا کا سامنا کرنا پڑا؟
باالفاظ دیگر ہم یہ سب پہلے بھی دیکھ چکے ہیں، یہ دعوی کہ صرف ” دہشتگرد” ہی اس کے ذمہ دار ہیں جنھیں حماس ہلاک کرتی ہے اور صرف ” دہشتگرد” کو ہی مودر الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے جنھیں اسرائیل مارتا ہے۔ اور مسلسل یہ دعوی بار بار دہرایا جاتا ہے کہ اسرائیل کی فوج کا معیار دنیا میں کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے بلند ہے اور وہ کبھی شہریوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔
یہاں میں 1982میں لبنان پر اسرائیلی حملہ یاد دلانا چاہوں گا جس میں ساڑھے سترہ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت شہریوں کی تھی۔کیا ہم وہ سب بھول چکے ہیں؟
استثنی سے ہٹ کر ایک اور لفظ حماقت بھی میرے ذہن میں آتا ہے، میں یہاں کرپٹ عرب حکمرانوں کو بھول سکتا ہوں اور عراق و شام میں ہول سیل بنیادوں پر ہونے والے قتل عام کو بھی فراموش کرسکتا ہے، کیونکہ ان کی فلسطین کے مسئلے پر بے حسی متوقع تھی۔
وہ ہمارے اقدار کی نمائندگی کا دعوی نہیں کرتے، مگر ہم انہیں جان کیری کو ضرور پیش کردیتے ہیں۔ اوبامہ کے سیکرٹری اسٹیٹ، جس نے گزشتہ ہفتے میں ہمیں بتایا تھا کہ اسرائیلی فلسطینی جنگ کے ” بنیادی مسائل” کو حل کئے جانے کی ضرورت ہے؟ آخر وہ گزشتہ برسوں میں اس دنیا میں کیا کرتا رہا تھا، جبکہ اس نے دعوی کیا تھا کہ بارہ ماہ کے دوران مشرق وسطی میں امن قائم ہوجائے گا؟ کیا انہیں احساس نہیں تھا کہ آخر فلسطینی غزہ میں بھی موجود ہیں؟
یہ سچائی کہ دنیا بھر کے لاکھوں افراد اور یہ میری خواہش بھی ہے کہ میں کہوں کہ لاکھوں افراد اس استثنی کا خاتمہ چاہتے ہیں، وہ ان جملوں جیسے "غیر متوازن ہلاکتیں” (یعنی ایک طرف بہت زیادہ اور دوسری جانب نہ ہونے کے برابر)۔ غیرمتوازن کیا؟ بہادر اسرائیلی بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس پر لکھتے بھی ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہیراٹز بھی زندہ باد۔ دوسری جانب عرب دنیا میں اشتعال بڑھ رہاہے، اور ہمیں اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔

«
»

مردانہ جوابی کارروائی

فلسطین: ہم رنجیدہ بھی ہیں شرمندہ بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے