اس پہلو کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری ہوسکتی ہے؟ عبدالعزیز جب لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل (CAB) زیر بحث تھا اور آناً فاناً حکمراں جماعت اسے پاس کرکے قانون بنانا چاہتی تھی تو جس طمطراق اور متکبرانہ انداز سے وزیر داخلہ امیت شاہ تقریر کر رہے تھے اور ممبران […]
جائز جدوجہد سے جو جی چرائے گا کیا اس کا ایمان معتبر ہوگا؟
اس پہلو کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری ہوسکتی ہے؟
عبدالعزیز
جب لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل (CAB) زیر بحث تھا اور آناً فاناً حکمراں جماعت اسے پاس کرکے قانون بنانا چاہتی تھی تو جس طمطراق اور متکبرانہ انداز سے وزیر داخلہ امیت شاہ تقریر کر رہے تھے اور ممبران کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے اس سے ایسا لگتا تھا کہ وہ پورے ہندستان ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو فتح کرنے پر آمادہ ہیں۔ ان کو اور ان کی جماعت کے لوگوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ملک بھر میں اس کا رد عمل کیا ہوگا۔ ’این آر سی‘ پر بھی ان کی جارحانہ تقریریں ملک کے کونے کونے میں ہوچکی تھیں۔ بنگال میں بھی متعدد بار انھوں نے بیان دیا تھا کہ دراندازوں کو چن چن کر ملک سے باہر نکالا جائے گا۔ لوک سبھا میں بھی این آر سی کے بارے میں اسی طرح کا بیان دیا تھا کہ اس کا نفاذ ہر ریاست میں بلا دریغ کیا جائے گا۔ صدر جمہوریہ کے خطبے میں بھی این آر سی کے نفاذ کا ذکر کیا گیا تھا جسے صدر جمہوریہ کابینہ کی منظوری کے بعد مشترکہ ایوانوں میں پیش کرتا ہے۔ شہریت ترمیمی بل کے پاس ہونے اور این آر سی کے نفاذ پر چرچا ہونے کے بعد اس کالے قانون کے خلاف ملک بھر میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ آہستہ آہستہ آواز پُرزور ہوئی اور منظم جدوجہد اور تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔ یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ و طالبات احتجاج کیلئے نکل پڑے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں پر حکومت کے اشارے پر پولس کی طرف سے مظالم ڈھائے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اوردہلی یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات مظلوم طالب علموں کے ساتھ یکجہتی کیلئے کھڑے ہوگئے۔ آہستہ آہستہ نہ صرف ملک کے تعلیمی اداروں میں یا یونیورسٹیوں میں مظاہرے اور جدوجہد ہونے لگے بلکہ بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں بھی مظاہرے اور احتجاج کی شروعات بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔ مسلمانوں کی طرف سے بھی مظاہرے، ریلی اور کنونشن کا سلسلہ دراز ہوا۔ بیشتر شہروں میں احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔ یوپی کا کوئی شہر یا ضلع باقی نہیں تھا جہاں کالے قانون کے خلاف مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ پچیس تیس افراد پولس کی گولیوں سے جاں بحق ہوئے۔ سیکڑوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے مظاہرین کو دھمکیوں پر دھمکیاں دیں لیکن مظاہروں میں کمی نہیں ہوئی۔ کرناٹک میں بھی دو افراد جاں بحق ہوئے۔ وہاں بھی بڑے بڑے مظاہرے اور احتجاجات ہوئے۔ تشدد اور ہنگامے کی وارداتیں صرف ان ریاستوں میں ہوئیں جو ریاستیں بی جے پی کے زیر حکمرانی ہیں۔ مسلم عورتوں کی طرف سے بھی جدوجہد کی شروعات ہوئی۔ دہلی میں شاہین باغ میں ایک ماہ پہلے خواتین احتجاج میں بیٹھنے لگیں اور اب ایک مہینہ آٹھ دن ہونے کو آیا پھر بھی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پنجاب سے بھی عورت اور مرد ڈیڑھ کی سو تعداد میں شاہین باغ کے احتجاج میں یکجہتی کیلئے آئے۔ شاہین باغ کی شہرت ملک بھر میں ہونے لگی۔ شاہین باغ کی پیروی کرتے ہوئے ملک کے دوسرے شہروں میں بھی احتجاج اور دھرنے پر عورتوں نے بیٹھنا شروع کیا۔ اب تک کئی ریاستوں کے شہروں میں عورتوں نے شاہین باغ کی پیروی کر رہی ہیں۔ ان سب کے باوجود ابھی بھی مسلمانوں کا بہت بڑا حصہ کالے قانون کے خلاف جو تحریک اور جدوجہد ہورہی ہے اس سے الگ تھلگ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حصے کو ملک کے بھیانک اور سنگین حالات سے ناواقف ہے۔ یوں تو کالے قانون سے ہر فرد متاثر ہوگا خاص طور سے غریب اور مفلس عوام، لیکن یہ قانون مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کو کروڑوں کی تعداد میں حراست کیمپ (ڈٹینشن سنٹر) میں ڈالا جائے یا ملک بدر کیا جائے۔ اس طرح اس قانون کا اصل نشانہ مسلمان ہیں۔ یہ سلسلہ آسام سے شرو ع ہوا تھا اور اسے بی جے پی پورے ملک میں دراز کرنا چاہتی ہے۔ آسام میں 19 لاکھ لوگوں کو این آر سی کے ذریعے غیر شہری قرار دیا گیا ہے۔ جس میں 6لاکھ مسلمان ہیں۔ نئے قانون (CAA)کے مطابق غیر مسلموں کو شہریت دے دی جائے گی مگر مسلمانوں کو حراست کیمپ میں ڈال دیا جائے گا یا ملک سے باہر نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہی عمل بی جے پی ہر ریاست میں چاہتی ہے۔ در اصل یہ آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے جسے اس کی سیاسی وِنگ نافذالعمل بنانا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس کا ایجنڈا 1925ء سے اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا اور ان کے معنوی وجود اور شناخت کو ختم کرنے کا ہے۔ یہ ایک ایسی لڑائی ہے جو شناخت اور وجود کی لڑائی ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس سے غافل ہوتا ہے اور اس جدوجہد اور لڑائی میں دامے، درمے، سخنے شریک نہیں ہوتا ہے تو اس کا ایمان آخر کیسے معتبر ہوگا؟ اس لئے کہ ایمان کے تین درجات ہیں۔ تین کے بعد کوئی اور درجہ نہیں ہوتا۔ جس کسی نے قیام حق و انصاف، امن و سلامتی کی راہ میں اپنے ہاتھ سے کام لیا وہ مومن ہے۔ جو ایسا نہ کرسکا مگر زبان سے کام لیا وہ بھی مومن ہے۔ جس سے جہادِ لسانی بھی نہ ہوسکا صرف دل کے اعتقاد اور نیت کے ثباط کو ان کے خلاف کام میں لایا وہ بھی مومن ہے لیکن اس آخری درجے کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہیں۔ حتیٰ کہ رائی کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ حدیث میں انہی تین درجات کا ذکر ہے۔ پہلا درجہ اصحابِ عزیمت کا ہے۔ دوسرا درجہ اصحابِ رخص کا ہے اور تیسرا درجہ ضعفائے طریق کا ہے۔ و ذالک اضعف الایمان۔ اور اس آخری درجے پر ایمان کی سرحد ختم ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی موجودہ جدوجہد اور کشمکش میں حصہ نہیں لیتا اور اس کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری کرنا چاہتا ہے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسا مذہبی عمل بے معنی اور بے مقصد ثابت ہوتا ہے۔ اس سے کسر ہر گز پوری نہیں ہوگی۔ علامہ اقبالؒ نے کہا ہے کہ ؎ یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر …… یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا 1912ء کا زمانہ بھی ہندستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک یادگار زمانہ رہے گا۔ یہی زمانہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کے مذہبی اور سیاسی حالت میں یکایک انقلابِ عظیم رونما ہوا اور قوموں کی زندگی میں جو تبدیلی بتدریج برسوں کے اندر پیدا ہوسکتی ہے وہ بظاہر چند مہینوں کے اندر تمام قوم میں پیدا ہوگئی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانِ ہند من حیث القوم پولیٹیکل جدوجہد سے بالکل الگ تھلگ رہنے کو اپنی پالیسی سمجھتے تھے اور ملک کی سیاسی زندگی کا پورا میدان صرف غیروں کیلئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ نکال کر مسلمانوں کو سیاسی جدوجہد کی طرف راغب کیا۔ دیکھتے دیکھتے مسلمان آزادی کی جنگ میں شریک ہونے لگے۔ ”مثال کے طور پر میں صرف چند محترم ناموں کا ذکر کروں گا۔ طبقہئ علماء میں سے حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کا یہ قول خود مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک مرتبہ نقل کیا تھا کہ ”ہم سب اصلی کام بھولے ہوئے تھے، ’الہلال‘ نے یاد دلایا“۔ یہ جملہ انھوں نے اس موقع پر کہا تھا جب ایک شخص نے ’الہلال‘ میں تصویروں کے ہونے کی شکایت کی تھی“۔ (تذکرہ) ”قوم کا سب سے زیادہ محترم طبقہ علماء و مشائخ کا ہے لیکن اس جماعت کا یہ حال تھا کہ گویا اس کو مسلمانوں کی موت و حیات سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ قوم کا جاہل سے جاہل اور ادنیٰ سے ادنیٰ طبقہ بھی دنیا کے حالات اور مسلمانوں کے قومی زوال کی جتنی خبر رکھتا تھا اتنی بھی ہمارے دین و دنیا کے ان پیشواؤں کو نہ تھی۔ دنیا میں کیا انقلابات ہورہے ہیں! مسلمانانِ عالم پر کیا گزر رہی ہے! ان کی قومی زندگی کس کس طرح مٹائی جارہی ہے! خود ہندستان میں ہمارا روز بروز کیا حال ہورہا ہے! یہ تمام باتیں اس مقدس گروہ کے نزدیک دنیا اور دنیا داروں کی باتیں تھیں، جن کا وہم و گمان بھی ایک عالم دین کیلئے باعث عار تھا۔ قوم قوم پکارنا یا مسلمانوں کی قومی و ملکی حالت کی فکر کرنا اور اس کیلئے لوگوں میں تحریک پیدا کرنا بھی ان حضرات کے نزدیک نیچریت میں داخل تھا جس سے ہر متقی و پرہیزگار مسلمان کو پناہ مانگنی چاہئے۔ عام طور پر اس گروہ کا اعتقاد یہ تھا کہ ہمارا کام صرف ”دین“ ہے! اور ’دین‘ کا مطلب یہ ہے کہ نماز روزے کے مسائل بتلا دیئے جائیں یا کفر کے فتووں پر مہریں کردی جائیں یا شاگردوں کو چند کتابیں پڑھا دی جائیں۔ باقی رہی مسلمانوں کی قومی زندگی اور ان کی موت و حیات تو یہ تمام باتیں ”دنیا داری“ کی باتیں ہیں یا ”سیاسی“۔ علمائے دین اور مشائخ طریقت کو ان سے کیا واسطہ! ؎ رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند …… گدائے گوشہ نشینی تو، حافظاؔ، مخروش اگر ان میں سے کسی بزرگ کو چند لمحوں کیلئے قوم کی حالتِ زار پر توجہ بھی ہوتی تھی تو یہ کہہ کر خود اپنے اور اپنے معتقدین کے دلوں کو تسکین دے دیتے تھے کہ اب ہماری تمہاری کوشش سے کیا ہوسکتا ہے! اب تو قیامت قریب ہے اور مسلمانوں کی تباہی لازمی۔ سارے کاموں کو حضرت امام مہدی کے نکلنے کے انتظار میں ملتوی کردینا چاہئے۔ اس وقت ساری دنیا خود بخود مسلمانوں کیلئے خالی ہوجائے گی“۔ (تذکرہ) تذکرہ کی تحریروں سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ مولانا ابوالکلام آزاد مسلمانوں کو خاص طور پر علماء و مشائخ کو ہجروں سے نکالنے میں کتنی بڑی جدوجہد کی ہوگی۔ ان کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ علماء کی جماعت بڑی تعداد میں جنگ آزادی میں شریک ہوئی اور ان کے ساتھ عوام کا بھی طبقہ شریک ہوگیا۔ خلافت تحریک اور کانگریس کی جدوجہد نے مل کر ہندو مسلمانوں کا ایسا اتحاد برپا کیا کہ انگریزی حکومت کے اوسان خطا ہوگئے اور بالآخر اتحاد کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوئی۔ آج بھی جو لڑائی درپیش ہے وہ آزادی کی لڑائی سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ وہ گورے لوگ تھے جن سے ہمارے بزرگوں نے لڑکر ملک کو آزاد کرایا۔ اب کالے لوگ ہیں جن سے لڑکر دستور، جمہوریت، انسانیت، حقوقِ انسانی کے قیام کیلئے ہر ممکن جدوجہد کرنی ہے۔ یہ لڑائی لمبی ہے اور اس میں سب کا شریک ہونا ضروری ہے۔ اسے سیاسی کہہ کر جو لوگ دین کی بات کرتے ہیں نہ سیاست سے واقف ہیں اور نہ انھیں دین کا ابجد معلوم ہے۔ موجودہ حکومت جس کے ذریعے ملک بھر میں تناؤ اور فتنہ و فساد برپا ہے وہ چنگیزی ہے اور ہٹلر کے راستے پر گامزن ہے۔ علامہ اقبال کے ایک شعر سے اس کی بہتر تشریح ہوسکتی ہے۔ ؎ جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو…… جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 19/ جنوری 2020 ادارہ فکروخبر بھٹکل
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں