مزے کی بات یہ ہے کہ افواہ باز بھی کہیں باہر کے نہیں ہیں بلکہ پارٹی اور سرکار کے اندر ہی بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو افواہوں کی تلواروں سے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ یہ تلوار ایسی ہے جس سے وہ پہلے دوسروں کے خلاف استعمال کرتے تھے مگر اب اس کا استعمال اپنے ہی خلاف کر رہے ہیں ۔ خبر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے انٹلی جینس کے لوگوں کو لگا رکھا ہے تاکہ وہ کسی بھی افواہ کی جانکاری ان تک پہنچادیں اور یہ بھی بتادیں کہ کون یہ افواہیں پھیلا رہا ہے مگر افواہ باز انٹلی جینس والوں سے زیادہ تیز ہیں جو انتہائی مہارت کے ساتھ اپنا کام کر رہے ہیں۔
افواہوں کی تاریخ
سنگھ پریوار کے اندر افواہ بازی کی قدیم تاریخ ہے ۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ سنگھ والے ایسا کیوں کرتے ہیں اور کب سے کر رہے ہیں مگر ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ آر ایس ایس خود کو ہٹلر اور مسولینی کے نظریات سے متاثر بتاتا ہے جن کے پروپیگنڈہ باز گوئلبز کا کہنا تھا کہ ایک جھوٹ کو اتنی بار کہو کہ وہ سچ لگنے لگے۔ سنگھ میں بھی اس فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے اور جھوٹ کو بار بار بولا جاتا ہے، لکھا جاتا ہے اور پھیلایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک بار افواہ بازوں نے افواہ پھیلائی کہ گنیش جی کی مورتیاں دودھ پی رہی ہیں اور پھر کیا تھا،پورے ملک میں لوگ دودھ لے کر گنیش مندر پہنچنے لگے۔ جہاں کہیں بھی گنیش جی نظر آئے انھیں خوب دودھ پلایا گیا۔ ہر شہر، ہر قصبے اور گاؤوں میں گنیش جی کو دودھ پلانے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ یہ افواہ بھارت سے امریکہ تک پہنچ گئی اور وہاں بھی دودھ پلانے والے مندر پہنچنے لگے۔ کہاجاتا ہے کہ یہ افواہ سنگھ پریوار نے پھیلائی تھی اور اس کے ذریعے اس نے اپنے افواہ نیٹ ورک کو ٹیسٹ کرنے کا کام کیا تھا۔
جواہر لعل نہرو وزیر اعظم ہوئے تو انھیں افواہوں کی زد پر لیا گیا اور جب ان کی بیٹی اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں توان کے خلاف افواہیں پھیلائی گئیں۔ ان سے پہلے ان کے شوہر فیروز گاندھی کے خلاف افواہیں پھیلائی گئیں ۔ فخرالدین علی احمد اور ڈاکٹر ذاکر حسین صدر جمہوریہ بنے تو ان کے خلاف افواہوں کا بازار گرم کیا گیا اور جب راجیو گاندھی وزیر اعظم ہوئے تو انھیں بھی اس کی زد پر رکھا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے صرف غیروں کو افواہوں کے نشانے پر رکھا بلکہ خود اپنے بھی اس کی زد پر رہے ہیں۔ جب اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے تو انھیں بھی ان افواہوں سے پریشانی ہوئی اور اسی کے ساتھ لعل کرشن اڈوانی کو بھی افواہ بازوں نے پریشان کیا۔ ملک میں جتنے فسادات ہوئے ہیں ان کے پیچھے ہمیشہ افواہ بازوں کا ہاتھ ہوتا ہے جو یقینی طور پر سنگھ سے ہی ہوتے ہیں۔ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، اے بی وی پی، درگار واہینی اور دیگر بھگوا جماعتیں اس کام میں مہارت رکھتی ہیں اور انتہائی عیاری کے ساتھ یہ کام کرتی ہیں۔ ان کی افواہیں ہی تھیں جنھوں نے ملک کی ہندو اکثریت کو یقین دلادیا کہ بابری مسجد مندر کے مقام پر بنی تھی اور اس ایشو پر الیکشن لڑکر بی جے پی نے نہ صرف ملک میں اپنی سیاسی پہچان بنائی بلکہ ملک کے اقتدار تک بھی پہنچ گئی۔۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں جتنے بھی فسادات ہوئے ان سے قبل خاص طور پر افواہیں اڑائی گئیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ پہلے افواہ اڑائی جاتی تھی کہ مندر میں مسلمانوں نے گائے کا گوشت پھینک دیا اور اب افواہ اڑائی جاتی ہے کہ مسلمان لڑکا ایک ہندو لڑکی کو دھوکے سے لے گیا اور اس کا مذہب بدلواکر شادی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ سب سنگھ کی افواہ فیکٹری کے سکے ہیں جو رائج الوقت ہوگئے ہیں اور اب یہی خود اس کے لئے سوہان روح بن گئے ہیں۔
افواہ بازوں نے مودی کو وزیر اعظم بنایا؟
نریندر مودی وزیر اعظم کیسے بنے؟ آخر کیا سبب تھا کہ ملک کے عوام کا ذہن راتوں رات ان کے حق میں ہوگیا اور تھوک کے حساب سے بی جے پی کو ووٹ ملے؟ اصل میں یہ سب بھی افواہوں کے سبب ہی ممکن ہوپایا۔ وہ جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے پاس کچھ ٹیمیں تھیں جن کا کام تھا ان کی تصویر چمکانے کے لئے افواہیں پھیلانا۔ یہ افواہیں عوام سے لے کر میڈیا تک اور پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک پھیلائی جاتی تھیں۔ مودی کے لوگ روزانہ ان کے جھوٹے کارناموں کے افسانے گڑھتے تھے اور پھر انھیں نہ صرف میڈیا والوں کو دیتے تھے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی پھیلاتے تھے۔ یہ سلسلہ خوب آگے بڑھا اور اس کی آزمائش لوک سبھا انتخابات میں بھی کی گئی۔ میڈیا میں جو آئے دن مودی کی خبریں آتی تھیں ان کا سبب یہی افواہ فیکٹری تھی جس میں کئی ٹیمیں لگاتار کام کرتی رہتی تھیں۔ لوک سبھا انتخابات میں الکٹرانک میڈیا کو مینیج کیا گیا تھا مگر اسی کے ساتھ ساتھ وہ افواہ باز بھی کام کر رہے تھے جو، ان کے تعلق سے جھوٹی خبریں پلانٹ کرتے تھے۔ پوری الیکشن مہم کے دوران کوئی بھی مودی مخالف خبر نہیں آئی اور میڈیا نے ان کی تصویر چمکانے کا کام کیا جس نے بالآخر انھیں وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچادیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی شخص کو ملک کا اقتدار دلانے میں افواہ بازوں نے اتنا بڑا کردار ادا کیا ہو۔ یہ سب سنگھ پریوار کے اسی مینجمنٹ کاکیا دھرا تھا جس کے سہارے وہ بڑے بڑے فسادات کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ سنگھ ایک منظم جماعت ہے جس کے ماتحت چلنے والی ذیلی تنظیمیں اس سے ربط میں رہتی ہیں اور اس کے افراد ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں،یہی سبب ہے کہ وہ لوگ افواہیں پھیلانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کے کاموں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے گویا بے حد منظم طریقے سے یہ اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے گجرات سے دلی تک جو افواہیں ارائی جاتی تھیں ان میں صنعت کاروں سے مودی کی ملاقات سے لے کر گجرات کی جھوٹی ترقی کی داستان تک شامل ہوتی تھی۔ حالانکہ گجرات کی ترقی کی جو کہانیاں گڑھی جاتی تھیں وہ اب تک تحقیق طلب ہیں۔ مودی کے لوگ آج بھی اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اچھے دن بہت جلد آنے والے ہیں۔
کنواں کھودنے والے کے سامنے کنواں
افواہوں کی جس تلوار سے سنگھ پریوار والے دوسروں کو کاٹتے ہیں وہ آج خود انھیں کی گردن کاٹنے پر اتارو ہیں۔ مرکز میں آج بی جے پی کی سرکار ہے جس کی قیادت نریندر مودی کر رہے ہیں مگر خود سرکار کے منتری ایک دوسرے کے خلاف افواہیں پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور ان کے بیٹے پنکج سنگھ کے خلاف افواہ اڑائی گئی، جس کی شکایت انھوں نے وزیر اعظم سے کی اور پھر میڈیا میں بھی انھوں نے اس کی وضاحت کی۔ اس پر دوسری پارٹیوں کو بھی چٹکی لینے کا موقع ملا اور کانگریس نے تو سوال کیا کہ راجناتھ سنگھ بتائیں کہ وہ افواہ کیا ہے جس کی شکایت انھوں نے وزیر اعظم سے کی ہے؟ حالانکہ راج ناتھ سنگھ کی حمایت میں ان کے پارٹی کے اندر اور باہر کے دوست سامنے آئے اور جنتادل (یو) کے شرد یادو نے تو ان کی ایمانداری کی قسمیں کھائیں اور کہا کہ وہ ایک صاف ستھری تصویر والے انسان ہیں ۔ وہ کوئی غلط کام کرہی نہیں سکتے۔ سماج وادی پارٹی سے بھی ایک لیڈر سامنے آئے اور راجناتھ سنگھ کی نیک خوئی کی تعریف کی۔
راجناتھ سنگھ اور ان کے بیٹے کے بارے میں افواہ اڑانے کے بعد یہ افواہ باز خاموش نہیں بیٹھے اور دوسرے منتریوں کو نشانے پر لے لیا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج اور ان کے شوہر کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سیاسی حلقوں میں پھیلانے کی کوشش ہوئی جس سے وہ پریشان ہو اٹھیں۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور ان کے قریبی لوگوں کے بارے میں افواہیں اڑائی گئیں۔ یونہی وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر کو بھی افواہ بازوں نے پریشان کیا نیز نتن گڈکری کو مشکل میں پھنسایا گیا۔ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ پارٹی صدر امت شاہ بھی افواہ بازوں کی زد پر آئے اور انھیں بھی ذہنی پریشانی سے گزرنا پڑا اور یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ امت شاہ کا کہیں نام آئے اور نریندر مودی کا نام نہ آئے۔ ظاہر ہے جس افواہ میں امت شاہ کا نام ہوگا اس میں مودی کا نام بھی ضرور ہوگا۔ گویا جس افواہوں کی مہارت نے سنگھ کو اقتدار تک پہنچایا ہے آج وہی دو دھاری تلوار بن کر خود اسی کو لہو لہان کر رہی ہے۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ کنواں کھودنے والے کے سامنے کنواں ہوتا ہے۔سنگھ نے جو کنواں دوسروں کے لئے کھودا تھا آج وہی اس کے سامنے ہے۔
جواب دیں