از:محمد ندیم الدین قاسمی
صدق گوئی، راست بازی،اور امانت داری اسلام کی امتیازی خصوصیات اور ایمانِ کامل کی علامات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صالح اور پر امن ماحول کی بحالی کا ذریعہ بھی ہیں، اس کے بر خلاف کذب بیانی، دروغ گوئی،اورخیانت نفاق کی علامات اور معاشرہ کے فساد وبگاڈ کا سبب ہیں،اسی لئے آپﷺ نے مختلف مقامات پر جھوٹ بولنے اور کذب بیانی سے منع کیا جیسا کہ آپ ﷺ سے کسی نے دریافت کیا کہ(حضور!) کیا مسلمان بزدل ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:ہاں! پھر فرمایا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟آپﷺ نے فرمایا:ہاں! لیکن حضور! کیا مسلمان بھی کذاب دروغ گوہوسکتا ہے؟توآپﷺ نے فرمایا:ہرگزنہیں!(مؤطا امام مالک)
اورایک حدیث آپ ﷺ نے فرمایاکہ منافق کی تین نشانیاں ہیں،۱۔بات کرے تو جھوٹ بولے، ۲۔وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، ۳۔اورجب اس کے پاس کسی کی امانت ہو تو وہ خیانت کرے۔(بخاری،باب علامۃ المنافق،حدیث نمبر:۳۲)
اورافواہ پھیلانااور غلط خبروں کی تبلیغ و تشہیر بھی جھوٹ کی ایک بدترین قسم ہے،جو موجودہ زمانہ میں ہمارے معاشرہ کاایک ناسور اور لوگوں کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے جیسا ایک شاعر نے کہا؛
دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے
جن افواہوں نے معاشرہ کے امن کو پراگندہ کردیا،بہت سے دل توڑے،کئی سینوں میں آگ بھڑکائی،کتنے ہی اپنے پرائے ہوگئے، کئی خاندان اور گھرانے اجڑ گئے،بہت سے تعلقات میں ایک زبردست خلیج پیدا ہوگئی،کتنے ہی معصوم وبے قصور لوگ پریشان ہوگئے،کتنے ہی باہمت پست ہمت ہوگئے،بیشمارجرائم ان افواہوں کی وجہ سے کئے گیے،اور یہ افواہیں کتنی ہی اقوام کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنیں،الغرض اگر عالمی پیمانے پر دیکھا جائے تو امن وامان کے سلب کرنے اور دہشت و وحشت پھیلانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔اور آج کی دجالی میڈیا نے ان افواہوں کے درخت کی زبردست آب یاری کی،اور غلط خبروں کی خوب جم کر تشہیر کی، اور دلالی صحافیوں نے ان افواہوں کواپنے اخبارات کی زینت بنا کر خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا،اور ان ہی ذرائع سے خبروں کوحاصل کرکے ہمارے سادہ لوح مسلمان اور سوشل میڈیا کے نابالغ صارفین بھی بلا تحقیق اپنے بھولے پن اور غفلت و بے فکری کی وجہ سے اسی باطل نظریات کے رنگ میں ڈھل کر غیروں کی زبان بولتے ہیں، اور ان ہی کے ہم خیال ہو جاتے ہیں،ان افواہوں کو سوشل میڈیا یعنی فیس بک، واٹس اپ، انسٹا گرام، ٹویٹر وغیرہ پر خوب جم کر تشہیر کی جاتی ہے، اوردشمنوں کا آلہ کار بن کربلاتحقیق ایک دوسرے پر تبصرے، بے جا تنقیدات و اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہیحالانکہ اصل معاملہ سے ذرّہ برابر بھی واقفیت نہیں ہوتی، جب کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ،اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗئكَ كَانَ عَنْہُ مَسْئوْلًا۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶)
“جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ یقینا کان، آنکھ اور دل سب کی بازپُرس ہوگی”(بنی اسرائیل ۱۷:۳۶)
ان افواہ پھیلانے والوں کو درد ناک عذاب کی وعید بھی سنائی،إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ أَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)[ النور:۱۹]۔جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
اسی لئے ان غلط افواہوں اور خبروں کے سلسلے میں ہمارا ردِّ عمل یہ ہونا چاہیے کہ اگر ہم صاحب اقتدار ہیں تو ہاتھ سے، ورنہ زبان سے، یا دل میں برا سمجھ کر، اس کذب بیانی پر قابو پا کر اس کو روکنے کی کوشش کریں، اور اس طرح کی خبروں کو جیسے ہی سنیں صاحب معاملہ سے یامعتبر ذرائع سے اس کی تحقیق کر یں، اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۶ (الحجرات ۴۹:۶)
“اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمھیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔” (الحجرات ۴۹:۶)
اور ہر سنی سنائی بات،اور ہر پوشٹ کی تبلیغ وتشہیر نہ کریں،اس لئے کہ افواہ کا موجد اور ناشر دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہیں،ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:کَفٰی بِالْمَرءِ کذبااَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ط (سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی التشدید فی الکذب، حدیث:۴۳۶۱)
”جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ انسان ہرسنی سنائی بات بیان کرنے لگے”۔
اور جو ٹی وی چینلز غلط افواہوں اور خبروں کا منبع و مرکز ہیں ان کی افواہوں پر توجہ نہ دی جائے بلکہ ان کا بائیکاٹ کردیا جائے۔
اللہ ہمیں افواہوں کوپھیلانے اور ان افواہوں کے شر سے بچائے!آمین!
مضمون نگار ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کے مدرس ہیں۔ ادارہ فکروخبر کا ان کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
12 اپریل 2020
جواب دیں