اے قوم تیری کوششوں کو سلام

تحریر ۔ سید ہاشم نظام ایس ایم

ایڈیٹر انچیف فکرو خبر بھٹکل

ہماری قوم میں اللہ تعالی نے بے پایاں صلاحتیں رکھی ہیں، بشرطیکہ وہ بروئے کار لائیں۔  ہم ایسے جواں سال و خوش خصال احباب کو آفریں کہتے ہیں،ایسےجواں جذبات و جواں ہمت  افراد کو دعائیں دیتے ہیں، ان کی کوششوں کو سلام کرتے ہیں ،عظمت سے ان کا نام لیتے ہیں ، دل و جان سے احترام کرتے ہیں، ان کی کاوشوں کو سراہتے ہیں، اسے  قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔ یقینا انہوں نےبہت بڑا  کام کیا،قوم کا نام اونچا کیا ۔

 ہماری قوم کا یہ پہلا قدم تھا، ان کی یہ کامیاب کوشش حرفِ بسم اللہ کی حیثیت رکھتی ہے، ابھی اس کا آغاز ہے، ان کوشش کرنے والوں کے عزائم ابھی جوان ہیں،ان کے حوصلوں کی اڑانیں اور اونچی ہیں، بے شک یہ ان کی سعادت  مندی تھی، توفیقِ الہی سے جس کی نصیب آوری ہوئی، دن رات کی محنت و مشقت  سے اس کی تکمیل ہوئی، جس میں  ان شاء اللہ مستقبل کی بہتر بشارت و خوشخبری کی توقع بھی ہے۔یقینا  سماجی اور معاشرتی میدان میں یہ خدمات سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔

واقعہ یہ تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں موجود  ان افراد کے لئےجو  اپنی اپنی مجبوریوں میں تھے ایک سنہرا موقع ہاتھ آ گیا ،یہ احباب جناب عتیق الرحمن  صاحب منیری اوران کے معاونین  کی صبح و شام کی مسلسل  کوششوں سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ متحدہ عرب امارات سے  اپنے وطن لوٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہماری قوم کے ان احباب میں کوئی ویزٹ پر تھا، تو کسی کی  ملازمت چلی گئی، کسی کو کمپنی نے پانچ چھ مہینوں  یا تا اطلاعِ ثانی لمبی تعطیل دے رکھی تھی، تو کچھ حاملہ عورتیں  جو اپنےشہر پہنچنے کے لئے بےچین تھیں،اسی طرح کچھ بوڑھے اور بیمارتھے جو یہاں مجبورا رکے ہوئے ایامِ بامشقت گزار رہے تھے ،اقتصادی بحران اور مالی مسائل کے پیشِ نظر ایک ایک  دن کا گزارنا بڑا چیلنچ بن گیا تھا، خوف ودہشت کے اس ماحول میں زندگی گذارنا آسان ہی نہیں بلکہ مشکل  ہو گیا تھا ۔بظاہر یہاں کے حالات میں جلد رختِ  سفر باندھنا ایک خواب لگتا تھا، جو خواب    بروز جمعہ مورخہ ۱۲جون کی شام ان کے لئے حقیقت میں  تبدل گیا ۔ اور  الحمد لله پہلی کامیاب کوشش کے بعد جو تاثرات جاننے  والوں کی زبانی سنے، جس طرح سے مسافرین نے توصیفی کلمات سے کہے، ان کے حسنِ ترتیب و تنظیم کو جس طرح سے سراہا اور اس  پر جذبۂ تشکر سے لبریز ہوئے، اس کا اندازہ  لگاناممکن ہی نہیں مشکل بھی ہے، ایک دو نہیں کئی ایک نے اس کا تذکرہ کیا ۔

واقعہ یہ ہے جناب عتیق الرحمن منیری صاحب راقم سے پہلی بار گفتگو کر رہے تھے ، کوششوں کا بالکل آغاز تھا،وہ  بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ مولانا آپ خود  اور اپنے احباب سے بھی دعاؤں کی درخواست کریں، کوششیں ہم نے شروع کر دی ہیں، چیلنجز زیادہ ہیں، ایک دو نہیں  بلکہ کئی ایک مسائل درپیش ہیں،مگر :

ہم نے تکمیلِ تمنا کی قسم کھائی ہے موجِ خوں سر سے گزر جائے تو کیا ہوتا ہے

ہم جناب عتیق الرحمن صاحب منیری، ان کے ساتھ ان کے فرزند ارجمندجناب عبد البدیع منیری، اور رفقائے کار میں جناب رحمت اللہ  راہی، جناب شہریار  خطیب، جناب یاسر قاسمجی، جناب ابو محمد مختصر،جناب معاذ شہ بندری، جناب جیلانی محتشم، جناب طہ معلم، جناب آفاق نایطے ،جناب سید سفیان ایس ایم، جناب فہیم رضاجوباپو، جناب نور ایکیری، جناب مقبول خطیب، جناب ثناء اللہ شہ بندری، جناب عبد المقسط ایم جے، جناب  عزاز حسین جوکاکو، جناب اقبال مصبا،  مولانا صابر علی اکبراندوی، جناب عبد المقیت صدیقہ، جناب سید ناشد برماور،، جناب فیضان ساوڑا، جناب عاطف ڈی ایف، جناب ، جناب اسماعیل محتشم اور ان کے شانہ بشانہ  قائد قوم جناب سید خلیل الرحمن  صاحب ایس ایم وغیرہ  اور ان کے ساتھ ساتھ ان کوششوں میں شریک  بھٹکل مسلم جماعت مینگلور اور بالخصوص جناب سید ارشد صاحب ایس ایم ، اسی طرح  شہرِ بھٹکل سے ہمارا متحدہ ادارہ مجلسِ اصلاح و تنظیم، اس کے جملہ اراکین اور بھٹکل مسلم یوتھ فیڈریشن ہیں ۔وہ سب کے سب پوری قوم کی طرف سے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں، جنہوں نے ایک تاریخ ساز قدم اٹھایا، بظاہر نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔  جزاهم الله خيرا ۔

اے خوش قسمت قوم،تو اپنے فرزندوں کی قدر کر، احباب کی خدمت میں خراجِ عقیدت پیش کر،افرادکی زندگیوں میں انھیں پہچان،اگر کام کرنے والوں سے کبھی کچھ  کوتاہیاں یا غلطیاں بھی سرزد ہوں، تو عفو ودر گزر سے کام لے،اس لئے کہ یہاں لغزشِ پا اور غلطیاں بھی در گزر ہیں، بلکہ یہی لغزشیں اور کوتاہیاں ان کی ترقیوں میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

کچھ کئے جاؤ لے کے نامِ خدا کچھ نہ کرنا بڑی خرابی ہے

کامیابی کچھ اور چیز نہیں       کام کرنا ہی کامیابی  ہے

آخر میں چلتے چلتے  ان کام کرنے والوں اپنے بزرگوں اور دوستوں سے  مؤدبانہ  گزارش   کرتا ہوں  کہ اپنی  نیتوں میں صرف اور صرف رضائے الہی کو بنیاد بنائیں، اخلاص وللہیت کا پورا خیال رکھیں، نام و نمود کا شائبہ  بھی دلوں پر نہ آنے دیں، ورنہ ریا وشہرت  بڑے بڑے کاموں کو فضول کر دیتے ہیں،زمین پر کئے گئے بڑے بڑے کاموں کو ہواؤں میں اڑ نے اور ضائع ہو جانے میں دیر نہیں لگتی۔ ہاں اگرتحدیثِ نعمت کے طور پر کسی کی زبان پر حسنِ کار کردگی کا تذکرہ بھی ہو، توخدا کے حضور  سجدہ ریز ہوں،جذبۂ شکر سےلبریز ہوں،قبولیت کے لئے دستِ دعا دراز ہو، اللہ تعالی سے اجرِ عظیم کے امید وار ہوں اور اپنی زبان سے یہ کہیں کہ اے اللہ!تیرالاکھ لاکھ شکرو احسان  کہ تونے ہم کمزورلوگوں کوبڑی قوت بخشی،اگرہم شب وروزسربسجودرہیں پھربھی تیراشکرادانہیں کرسکتے،اے اللہ ہماری کوششوں کو قبول فرما اور مزید کی قوفیق عطا فرما ۔ ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم، وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم – آمين

«
»

پہلے گستاخی، پھر معافی، یہ رسمِ مکاری ہے!!!

اتنا ہی یہ ابھریگا جتنا کہ دباؤگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے