اے نوجواں مسلم! تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

مفتی فیاض احمد برمارے ندوی

دنیا کا ہر انسان ایک کامیاب زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن کامیاب زندگی گزارنے کے لئے انسان کے اندر کچھ خصوصیات کا ہونا بھی ضروری ہے اور جب یہ خصوصیات ایک قوم کے بہت سارے لوگوں میں موجود ہوں تو ایک کامیاب معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو کسی بھی کامیاب قوم کی پہچان ہے۔

کسی بھی ملک کوترقی یافتہ بنانے کے لئے قوم کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، جس قوم کے سامنے بلند مقاصد ہوں،جولوگ اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں۔جن کی نظر کامیابی اور سرخ روئی پر ہوتی ہے،اس قوم کے بچے ، جوان ، بوڑھے سب ہی منزل کی تلاش اور کامیابی کی کلید کے لئے جفاکشی اور محنت کو اپنا نصب العین بناتے ہیں۔ خاص طور نوجوان مختلف میدانوں میں اپنی طاقت اور جوانی کی قدر کرتے ہوئے اور اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ  ترقی کے راہوں پر اپنے آپ کو وقف کردیتے ہیں جن سے قوم کاسر فخر سے اونچا ہوتا ہے، قوم کو قوت ملتی ہے لیکن جب نوجوان اپنے مقصد کو بھول جائیں،اپنے فرض منصبی کے احساس سے غافل ہوجائیں،جوانی کے قیمتی لمحات میں گذارنے لگیں،توپھر وہ ایک کھلونہ بن جاتے ہیں،وہ خود بھی مرعوب ہوجاتے ہیں اورپوری قوم کو مرعوبیت کی شکار بنادیتے ہیں،نہ ان کے پاس کوئی کمال باقی رہتا ہے۔

      امت مسلمہ دیگر قوموں کےمقابلہ میں بہت ہی عظیم مقاصد کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اس قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ مسلم نوجوان ہیں،لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہمارا یہ قیمتی سرمایہ ضائع ہورہا ہے،۔ایک منصوبہ اور پلان کے تحت اسے  اپنے مقصد سے غافل کرکے لغویات میں منہمک کرنے کرنے کی کامیاب سازش رچی گئی ہے،یہی وجہ ہے ہمارے نوجوان اپنی جوانی کھیل کود اور فضول کاموں میں صرف کررہے ہیں،اس وقت بڑے بڑے انعام والے کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کروائے جارہے ہیں جن میں ارباب سیاست بھی ایک بڑی رقم لگارہے ہیں تاکہ ان  نوجوانوں کواعلیٰ تعلیم ۔کامیاب تجارت۔معیاری ملازمت ۔اپنی اور اپنی قوم کی ترقی،اس کی بقا وحفاظت کے لئےکچھ کرگذرنے بلکہ سوچنے کا بھی موقع نہ ملے اور یوں ہی یہ برباد ہوتے رہیں تاکہ انہیں اپنے ناپاک مقاصد میں آسانی سے کامیابی مل سکیں،یہ مسلم نوجوان کس قدر غافل اور مدہوش ہوچکے ہیں کہ ملک  کے موجودہ سنگین حالات میں کرکٹ کے میدانوں میں اپنی مستی میں جی رہے ہیں،نہ انھیں اپنی فکر ہے نہ نئی نسل کی نہ قوم کی نہ مذہب کی ،اخر کب یہ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے،کب ان میں احساس پیدا ہوگا،کب انھیں اپنی بربادی نظر آئے گی؟ کب انھیں حقیقی مقاصد سے آگاہی ہوگی؟

  ان نوجوانوں کو یہ بات بتانے کی ہے تمہاری جگہ کرکٹ کے میدان نہیں،تمہارا وقت بہت قیمتی ہے،تم قوم کے آنکھوں کا سرمہ ہوں،تم دین اسلام کے سپاہی ہوں،تعلیم گاہیں تمہاری منتظر ہیں،عبادت گاہیں تمہیں تلاش کررہی ہیں،تمہارے عزائم بلند ہونے چاہیے،تمہیں حق کا پرچم ہاتھ میں لے کر باطل سے مقابلہ کے لئے تیار رہنا چاہیے.اچھے معاشرے کی تشکیل میں تمہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،قوم کی فلاح وبہودی کے لئے تازہ دم رہنا چاہیے اور انسانیت کی خدمت سے لوگوں کے درمیان اپنا وقار بحال کرنا چاہیے،خدا را اب بس کیجئے،دشمن کی سازشوں کو سمجھئے ،دشمن کے شکنجہ سے اپنے آپ کو آزاد کیجئے۔ہوش میں آئیے۔اس لئے کہ اب بھی تمہیں سے امیدیں وابستہ ہیں۔قوم تمہارے عروج کی منتظر ہے،۔اگر اب بھی متنبہ نہیں ہوئے تو پھر آنے والی خطرناک تباہی اور ایمان سوز بربادی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ لہذا عقلمند وہی ہے جو تباہی سے پہلے اپنی حفاظت کا انتظام اور بندوست کرلے۔

12؍فروری 2024

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

«
»

اب انھیں ڈھونڈ چراغ ِرخِ زیبا لے کر

نماز کے احکام کو قرآنی آ یات کی روشنی میں سمجھئے اور ان کا حق ادا کیجئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے