اے حامل قرآن ۔۔۔۔۔۔۔

 

  ام ہشام ممبئ 

 

شیخ نورین صادق ؒ کی تلاوت سنتے ہوئے ذہہن کے پردے  پر وہ ٹوٹی پھوٹی تختیاں لہرانے لگیں جن پر نیلگوں قرآنی آیات اتاری گئ تھی۔

سوڈانیوں کی قرآن سے محبت ان کی مسحور کن تلاوت راہ علم میں ان کی جاں گسل محنت ومشقت میرے لئے ہمیشہ دلچسپی کا باعث بنی رہی ۔

پڑھائی کے دوران بھی کئ عربی جریدوں میں سوڈانیوں کی علمی جستجو و محنت شاقّہ کے کارنامے پڑھے۔

میرے دو استاد سوڈانی تھے ہم نے درس وتدریس میں جس قدر اپنی دھن کا پکّا پایا آج شاید ایسا کوئی استاد ملے۔

ان سے بھی بارہا یہی بات سنی کہ قرآن کریم کو حفظ کرو پھر اس کی تفسیر سیکھو اور پھر اس کے مطالیب پر غور کرو اس طرح تم ایک مسلمان کا حق ادا کرسکوگے۔

شیخ اصول الفقہ پڑھاتے اور بار بار ہر نص کے وقت حفظ قرآن کی طرف رغبت دلاتے جاتے۔

اللہ کریم شیخین کو دارین میں سر سبز وشاداب رکھے۔

   جب بھی ان بے سرو ساماں بچوں کو ان کے  ننھے ننھے ہاتھوں میں قرآن عظیم کی دولت تھامے انہیں سرشار سا جھومتے دیکھتی ہوں  ، تو بڑی ہی رشک و تمنا کے ساتھ سوچتی ہوں ہماری دولتیں، آسائشیں  ، تن آسانیاں ان کے افلاس کے آگے دست دراز  ہیں  کہ "  بھوک وپیاس کی انتہاء کو چھوکر بھی تم نے کتاب اللہ کی عظمت کا بول بالا قائم کررکھا ہے ۔ اور دنیا کی سبھی سہولیات کے باوجود کتاب مقدس کو یاد کرنا تو دور ہے اس کتاب کا ایک چھوٹا سا بھی حق  ہم صحیح طور پر ادا نہ کرپائے "۔

جن کے تن پر پورے لباس نہیں ، رکابی میں پیٹ بھر خوراک نہیں  ، لکھنے کو قلم اور بیاض نہیں ان کے ایسے اونچے حوصلے اور اڑان کہ دنیا کا سب سے کامیاب ، عظیم و مقدس ترین گراں قدر علم ان ہی کے پاس ہے ۔

ان صحرا نشین سیاہ فام لوگوں کی تلاوت دنیا کے لاکھوں دلوں کو مسخر کرتی ہے۔

ان کی آواز میں موجود رقّت سامعین کو احساس دلاتی ہے کہ تلاوت کرنے والا کلام اللہ کے ایک ایک لفظ کا ادراک  رکھتا ہے ۔

ایسے لوگ جو قرآن کے معنی ومفہوم سے نابلد ہیں وہ بھی ایسی تلاوتیں سن کر زارو قطار روتے ہیں ۔

یہ کلام الہی اور قاری کے اخلاص کا ایک اثر ہوتا ہے سامع کے دل پر جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔

کیونکہ یہ قرآن سیکھنے سکھانے  میں ایک غیر معمولی  جذبہ رکھتے ہیں ۔وہ حریص ہوتے ہیں قرآن کے علم پر ۔

 

میڈیا بار بار ان کے مدارس میں جاکر الٹی سیدھی رپورٹیں تیار کرتی رہی عالمی طور پر بدنام کرنے کی کوششیں بھی کیں۔ لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا ۔

اب بھی سوڈانی مسلم خواتین اپنے بچوں کو مناسب وقت پر حفظ قرآن کے لئے استاد کے حوالے کرجاتی ہیں ۔

جس طرح ہمارے یہاں ہم بچوں کے نرسری اور کنڈر گارٹن کے داخلہ کے لئے پریشان ہوتے ہیں۔

 اسی طرح یہ لوگ اپنے بچوں کو حفظ قرآن کے اداروں میں داخل کروانے کو پریشان ہوتے ہیں۔

روز  قیامت ان کی یہ تختیاں اللہ سے ان کی شفاعت کی ضامن بنیں گی۔

غار حرا سے نکلی ہوئی ضیا بار کرنیں شاید دنیا کے انہیں ظلمت نشینوں کا اثاثہ بن گئیں۔

شاید یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے 

فقد فاز فوزا عظیما۔۔۔۔

اللہ ہمیں ان سے کچھ سیکھنے کی توفیق دے۔

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

غیرمسلم میت اور اسلامی تعلیمات

"پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے”””

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے