اے غازیان غزہ! خون شہیداں رائیگاں نہ جائے گا

 

ڈاکٹر سلیم خان

جمہوریہ ترکیہ کے قیام کی 100ویں سالگرہ اگر کمال اتاترک اسلام کی جگہ لادینی جمہوریت کو بزورِ قوت نافذ نہ کرتے تو اسرائیل کے ناسور کو نمودار ہونے سے روکا جا سکتا تھا 
غزہ میں فلسطینی جارحیت کے عروج کے درمیان جمہوریہ ترکیہ کے قیام کی 100ویں سالگرہ آگئی۔ اس موقع پر ملک بھر میں جمہوریہ ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے ہی اسی دن برطانوی استعمار کو میدانِ جنگ میں شکست دے کر ترکیہ کو آزاد کرایا تھا۔ یہ اپنے آپ میں ایک عظیم کارنامہ تو تھا لیکن اگر وہ آگے چل کر خلافت کا خاتمہ کرکے مغربی قوم پرستی کو نہیں اپناتے اور دین اسلام کی جگہ لادینی جمہوریت کو بزورِ قوت نافذ نہ کرتے تو اسرائیل کے ناسور کو نمودار ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔ مغرب اگر اپنی سازش میں کامیاب بھی ہو جاتا تب بھی ٹکڑوں ٹکڑوں میں منقسم مسلم دنیا خاموش تماشائی نہیں بلکہ صہیونیت کے خلاف متحد ہوکر سینہ سپر ہوتی اور اس متحدہ طاقت کا مقابلہ کرنا عالمی استعمار کے لیے بے حد مشکل ہوتا۔ آگے چل کر علامہ اقبال نے قوم پرستی کے بارے میں یہ ضرور کہا کہ ’ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے‘ لیکن شروع میں تو انہوں نے بھی مصطفیٰ کمال اتاترک کی کامیابی کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ؎
سرشکِ چشمِ مُسلم میں ہے نیساں کا اثر پید
ا خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے   
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے   
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے سے مسلمانانِ عالم جس صدمہ میں مبتلا تھے اس سے نکالنے کے لیے غالباً علامہ اقبال نے یہ شعر کہا ہوگا۔ اس خلافت کے خاتمہ کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا جب ہندوستان جیسے دور دراز ملک کے اندر مولانا محمد علی جوہر اس کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہے تھے۔ فلسطینیوں کی غلامی اور اسرائیل کے خلاف برپا ہونے والی موجودہ جنگ آزادی کا سیدھا تعلق خلافت کے اختتام سے ہے۔ پہلی جنگِ آزادی کے بعد جب خلافتِ عثمانیہ سکرات کی حالت میں چلی گئی تو سلطان عبدالحمید (دوم) کو یہودی سرمایہ داروں نے ان کے قرضوں سے نجات دلانے کی خاطر خوب دھن دولت کی پیشکش کی۔ اس عنایت کے عوض وہ لوگ سلطان سے القدس کی زمین خریدنا چاہتے تھے۔ اس خطرناک سازش کے جواب میں سلطان عبدالحمید (دوم) نے غضب ناک ہو کر جو دوٹوک جواب دیا وہ تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف سے رقم ہوگیا ہے۔ ان کا ایمان پرور جواب تھا کہ ’’عثمانی کبھی بھی دشمنوں کے مال و دولت سے بنائے گئے محلات میں پناہ نہیں لیں گے۔ میں اس سرزمین کی مٹھی بھر خاک بھی تمہیں نہیں دے سکتا۔ اس طرح اپنے ارادوں میں ناکام ہوکر صہیونی وفد بے نیل و مرام واپس لوٹ گیا۔ سلطان عبدالحمید (دوم) نے اس موقع پر کہا تھا ’’یہ القدس کی سرزمین صرف میری نہیں یہ تمام دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی ہے۔ امت نے اسے اپنے خون سے سینچا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے جہاد کیا ہے‘‘۔ سلطان عبدالحمید نے جس جہاد کا ذکر کیا تھا آج بھی وہ غزہ کے اندر جاری و ساری ہے۔ غزہ کے مجاہدین اپنے خون سے پیغمبروں کی سرزمین کو سینچ رہے ہیں اور یہ خونِ شہیداں رائیگاں نہیں جائے گا کیونکہ بقول ماہر القادری؎
شہیدوں کے لہو سے جو زمیں سیراب ہوتی ہے
بڑی زرخیز ہوتی ہے بہت شاداب ہوتی ہے
جہاں سے غازیانِ ملّتِ بیضاء گزرتے ہیں     
وہاں کی کنکری بھی گوہرِ شب تاب ہوتی ہے
غازیانِ غزہ تو اپنا فرضِ منصبی خوب ادا کر رہے ہیں مگر افسوس کہ مسلم ممالک کے حکمراں ملی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے اپنے قومی فائدے کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ غزہ کے معاملہ میں وہ زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں اور سلطان عبدالحمید (دوم) کی طرح یہ کہنے سے ہچکچا رہے ہیں کہ ’’جب تک میں زندہ ہوں اپنے سینے میں خنجر گھونپ لوں گا مگر اس مقدس زمین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا‘‘۔ بیت المقدس کے تحفظ کا مقدس کام تو اللہ تبارک و تعالیٰ بے سرو سامان حماس سے لے رہا ہے۔ محصور و مقہور ہونے کے باوجود وہ مسجدِ اقصیٰ کے تقدس کی خاطر ہنستے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حریت و آزادی شمع فروزاں کیے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں غزہ کے مجاہدین اسلام کی حمایت کرنے والے اہل ایمان مسلم دنیا کی جانب بڑی امیدوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور یہ بڑی طاقتیں آگے آنے سے کترا رہی ہیں۔ اس طرح مٹھی بھر حماس نے بڑے ممالک پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ حفیظ میرٹھی نے کیا خوب کہا تھا ؎
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
آج سے سو سال قبل ترکیہ میں برپا ہونے والے انقلاب کا آغاز نوجوانان ترکیہ نے 3 جولائی 1908 میں کیا اور جلد ہی وہ تحریک ملک بھر میں پھیل گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطان کو 1876 کے آئین کی بحالی کا اعلان کرکے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنا پڑا۔ اس آئینی دور میں جب 1909 کا ردعمل اس طرح سامنے آیا کہ 31 مارچ کو سلطان عبد الحمید ثانی کے دور کا خاتمہ کر کے انہیں جلاوطن کر دیا گیا اور ان کے بھائی محمد پنجم تخت نشین ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دنوں بعد 30؍ اکتوبر 1918 کو معاہدہ مدروس کے ذریعہ سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کا عمل شروع کیا گیا اور بعد ازاں استنبول اور ازمیر پر اتحادیوں کا قبضہ ترک قومی تحریک کا سبب بنا۔ مصطفٰی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کا آغاز بالآخر جمہوریہ ترکیہ کے قیام کی بنیاد بن گیا۔ مصطفٰی کمال کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 23 اپریل 1920 کو ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کے ساتھ استنبول میں عثمانی حکومت کو بھی مسترد کر دیا۔
ترک انقلابیوں نے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔ معاہدہ سیورے کے نتیجے میں جو علاقے جمہوریہ آرمینیا کو دیےگئے تھے انہیں بھی دوبارہ حاصل کرلیا۔ اس کے بعد استنبول پر قبضہ کرنے کے بعد یکم نومبر 1922 کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ 17؍ نومبر 1922 تاریخ اسلام کے وہ منحوس دن آخری سلطان محمد ششم وحید الدین کو ملک بدر کرکے معاہدہ لوزان کے تحت 24؍ جولائی 1923 کو باضابطہ طور پر ترکیہ جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا اور 3؍ مارچ 1924کو خلافت کے خاتمے کا اعلان ہو گیا۔ یہی وہ دورِ پرفتن تھا جب اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی گئی اور اب وہ ایک عالمی فتنہ بن چکا ہے۔ اس سے قبل معاہدہ سیورے کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر برطانیہ نے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس سے سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کرکے شام حوالے کرکے فلسطین پر اپنا اقتدار قائم کر لیا یعنی 101 سال قبل 1922 میں فلسطینیوں پر برطانیہ کا تسلط قائم ہو گیا تھا۔
یوروپ اور امریکہ کے عیسائی اس وقت یہودیوں سے سخت نالاں ہونے کے سبب ان سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے اس لیے 1925 میں برطانوی سفیروں نے یہودیوں کی فلسطین منتقلی میں حائل قانونی مشکلات کو تقریباً ختم کردیا۔ ان کو وہاں جانے کے لیے ترغیب دینے کی خاطر نہ صرف عبرانی کو سرکاری زبان کا درجہ دلوایا بلکہ عبرانی یونیورسٹی کے قیام کی راہ بھی ہموار کی۔ یہودی نظام تعلیم ترتیب دے کر یہودی مزدوروں کی یونین قائم کروائی۔ 1917 سے لے کر 1930 تک برطانیہ نے فلسطین پر یہودی قبضے کی راہ ہموار کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ان سے ناراض ہوکر برطانیہ کے سابق وزیر اعظم آرتھر بالفور کو فلسطین کے دورے کے موقع پر سیاہ جھنڈے دکھائے گئے۔ ’بغاوت براق‘ نامی اس احتجاج میں 250 افراد شہید ہوئے اور 3 مجاہدین آزادی کو سزائے موت دی گئی۔
فلسطین کے اندر یہ غم و غصہ کی لہر اس لیے تھی کہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے آرتھر جیمز بالفور نے 2؍ نومبر 1917 کو برطانیہ میں یہودی سماج کے سربراہ لائوونل والٹر راٹسچائلڈ کو خط لکھ کر یہودیوں کو یورپ سے فلسطین میں بسانے کا منصوبہ پیش کیا اور اس پر عمل درآمد بھی کروایا۔ اس کھیل کا اندازہ مندرجہ ذیل اعدادو شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ 1918 میں فلسطین میں مسلمانوں کی آبادی 6 لاکھ 66 ہزار تھی جبکہ یہودی صرف 60 ہزار تھے۔ البتہ 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 83 ہزار 724 تک پہنچ گئی جو 1931 تک ایک لاکھ 74 ہزار 610 تک پہنچا دی گئی۔ پانچ برس بعد 1936 میں یہ تعداد 3 لاکھ 84 ہزار 78 ہوگئی جبکہ 1948 میں وہ 7 لاکھ 16 ہزار 700 تک پہنچ چکی تھی۔ یہ اعدادو شمار گواہ ہیں کہ کس طرح مصنوعی طور پر یورپ سے یہودیوں کو فلسطین کی طرف دھکیل دیا گیا۔ اس میں ہٹلر کے قتل عام کا بھی بہت بڑا رول ہے لیکن اس سے قبل 1934 میں امریکہ میں یہودیوں کو بچانے کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا تاکہ مختلف ممالک میں ان کی نقل مکانی کو آسان بنایا جاسکے مگر یوروپ و امریکہ نے بڑی تعداد میں ویزا نہیں دیا۔ وہ اگر انہیں اپنے یہاں بسنے کی اجازت دے دیتے تو ہٹلر کے قتل عام کو ٹالا جاسکتا تھا۔
سرزمینِ فلسطین پر ایک طرف عالمی استعمار غلامی کا جال بچھا رہا تھا تو دوسری جانب 1920 میں معروف مجاہدِ آزادی عزالدین القسام نے تحفظ و حریت کی جنگ چھیڑ دی تھی۔ 1930 کی دہائی مں آزادی کی یہ جدوجہد زور و شور سےجاری رہی۔ اس سے گھبرا کر 2؍ نومبر 1935 کو برطانوی فوج نے القسام کو شہید کردیا۔ حماس کا عسکری شعبہ آج بھی انہی سے منسوب ہے۔ 1936 میں اعلان بالفور کے خلاف فلسطینی عوام نے 6 ماہ تک ہڑتال کی مگر برطانوی استعمار نے اسے ناکام کر دیا اوریہودی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے رہے جیسا کہ ابھی بھی کر رہے ہیں۔
22؍ جولائی 1940 کو فلسطین  میں یہودی دہشت گرد تنظیم ’ارگن‘ نے بیت المقدس پر بمباری کی۔ اسرائیلی ریاست قائم کر دینے کے بعد اس دہشت گرد تنظیم کو سرکاری فوج میں شامل کرلیا گیا۔
1948 میں لیہی نامی یہودی دہشت گرد تنظیم نے دیر یاسین میں فلسطینی عربوں کا قتل عام کیا۔
نام نہاد مہذب عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے یہودی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے 1947 میں قرارداد 181 منظور کر کے فلسطین میں غاصب اسرائیل کی داغ بیل ڈال دی۔ امریکی دباؤ میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد نے 5.5 فیصد یہودیوں کو فلسطین کے 56 فیصد حصے کا مالک بنا دیا۔فلسطینیوں نے اس قرارداد کو مسترد کردیا اور آج تک مخالفت کر رہے ہیں۔ 14؍ مئی 1948 کو جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو ہزاروں شہید ہوئے اور ایک لاکھ سے زائد فلسطینی ہجرت کرنے پر مجبور کردیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال 14؍ مئی کو یوم نکبہ منایا جاتا ہے۔ 1964 میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی زیرِ قیادت فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کا قیام عمل میں آیا۔1967 میں جب نہر سویز کے مسئلے پر مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑی تو اسرائیل نے مصر کے تحت غزہ کی پٹی اور صحرائے سینا کے علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ اس کے ساتھ شام سے گولان کی پہاڑیاں اور اردن سے مشرقی بیت المقدس کا علاقہ بھی چھین لیا۔ اس چھ روزہ جنگ میں ایک لاکھ فلسطینیوں کو مہاجر بننا پڑا۔
اس جنگ کے بعد 1987 میں فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت یعنی ’انتفاضہ‘ سے غزہ میں حماس کا جنم ہوا۔ یہ 1920 کی دہائی میں مصر میں قائم ہونے والی جماعت اخوان المسلمون کی ایک شاخ ہے۔ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل اور پی ایل او ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر متفق ہو گئے۔ اسی معاہدے کی رو سے 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ پی ایل او اس معاہدے کے بعد ایک آزاد فلسطینی ریاست کی جانب قدم بڑھانے کے لیے مسلح جدوجہد سے دستبردار ہوگئی مگر حماس اور ’اسلامک جہاد‘ فلسطینی ریاست کے قیام کی خاطر مسلح جدوجہد کے موقف پر قائم رہی جو اس کا قانونی حق ہے۔ عالمی قوانین میں ہر طرح سے استعماریت کے خلاف جدوجہد کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اس سے لاعلمی 7؍ اکتوبر کے حملے کی اوٹ پٹانگ تاویل کرواتی ہے۔ غزہ کی تاریخ تھوڑی منفرد ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد وہ برطانوی فوجوں کے تسلط میں چلا گیا۔ 1949 سے1967 تک وہاں مصر کی عمل داری رہی پھر اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیا جو 1994 تک برقرار رہا مگر اوسلو معاہدے کے تحت اسے فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کیا گیا۔
2004 میں جب یاسر عرفات کا انتقال ہوگیا تو فلسطین میں ان کے سیاسی خلا کو حماس نے پُر کیا۔ اسرائیل نے حماس کی مزاحمت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر 2005 میں غزہ سے نہ صرف اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا بلکہ تقریباً نو ہزار اسرائیلی آباد کاروں کو بھی انخلا کا حکم دے دیا۔ 2006 میں فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں حماس نے نہ صرف پی ایل او سے زیادہ ووٹ حاصل کیے بلکہ دگنی نشستوں پر جیت درج کرائی۔ اس کے باوجود اسے پی ایل او کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کیا گیا۔ 2007 میں اسرائیل نے پی ایل او کی کالی بھیڑ کے ذریعہ تختہ الٹنے کی بھی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ اس کے بعد سے غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی ہے۔ اسرائیل نے حماس سے خوفزدہ ہوکر غزہ کا محاصرہ کر لیا۔ چنانچہ ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیا ہے۔ یہودیوں نے کسی زمانے میں جس طرح یوروپ کے عقوبت خانوں کو توڑا تھا اس کی آج ہر کوئی ستائش کرتا ہے، اسی طرح 7؍ اکتوبر کے دن ایک غیر قانونی جیل کو توڑا گیا۔ حماس کے اس حملے نے اسرائیل کے غرور کو نیست و نابود کردیا ہے۔ اب وہ کھسیانی بلی کی مانند کھمبا نوچ رہا ہے۔ بے قصور بچوں اور خواتین کو ہلاک کر رہا ہے لیکن اس طرح آزادی کے چراغ کو بجھانا ممکن نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے کسی زمانے میں جو اشعار مصطفیٰ کمال اتاترک کے لیے کہے تھے وہ اب شاہین صفت حماس پر صادق آتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال پاشا نے جس مقصد کے حصول کی خاطر انگریزی استعمار سے جنگ کی تھی فی الحال وہی آزادی کی جدوجہد غزہ میں جاری ہے۔ حماس پر شاعرِ مشرق کے اشعار من و عن صادق آتے ہیں ؎
جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے  
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ‌وَر پیدا
نوا پیرا ہو اے بُلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے   
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

 بشکریہ : ہفت روزہ دعوت

«
»

موت کے بعد آنسو

تاریخِ مسجدِ اقصی ٰ اور اہل فلسطین پر یہود کا ظلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے