اے قوم مسلم آنکھیں کھول اب تو باخبر ہوجا!

 

2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو زبردست  کامیابی حاصل ہوئی اور دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو وزیراعظم نریندر مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کا نعرہ دیا اور اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنے کا اعلان کیا وزیر اعظم کے اس نعرے کا مختلف تنظیموں و سماجی کارکنوں نے خیرمقدم کیا اور باالخصوص مسلمانوں کے اندر بی جے پی کے قریب آنے کا کچھ حوصلہ ملا لیکن بی جے پی کے چھوٹے بڑے کارکنان اور لیڈران و آر ایس ایس کے ذمہ داران شاید یہ نہیں چاہتے کہ بی جے پی اور مسلمان دونوں ایک دوسرے کے قریب آئیں اسی لئے کبھی ہجومی تشدد تو کبھی  کبھی اشتعال انگیز بیانات، کبھی طلاق ثلاثہ بل، کبھی این آر سی، کبھی شہریت تر میمی بل غرضیکہ ہمیشہ ایسے ایسے طریقے اپنائے جاتے ہیں کہ ملک میں بیچینی بڑھتی جا رہی ہے اور حال ہی میں جو شہریت تر میمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پاس کیا گیا جس میں مذہب کی بنیاد پر تفریق برتی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے جو بھی ستائے ہوئے ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ آئے ہوئے ہیں انہیں شہریت دیجائیگی آگے کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے مسلمانوں کو اس بل اور اس قانون سے کوئی بھی نقصان نہیں پہنچے گا تو یہی کیوں نہیں کہا گیا کہ ان ملکوں سے جولوگ بھی آئے ہوئے ہیں انہیں شہریت دیجائیگی اس میں کسی قسم کی مذہبی تفریق نہیں برتی جائیگی اگر یہ کہا گیا ہوتا تو مسلمانوں کے اندر تشویش نہیں ہوتی اور ملک میں احتجاج و مظاہرہ بھی نہیں ہوتا لیکن ایسا نہ کر کے جمہوریت کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کیگئی جمہوریت و آئین کی دھجیاڑائی گئیں  دراصل  بی جے پی اقتدار کے نشے میں چور ہے وہ ہندوستان کو ایک مخصوص رنگ دینا چاہتی ہے ایک الگ پہچان بنانا چاہتی ہے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے وہ سیاست، ملازمت سے مسلمانوں کو بے دخل کرنا چاہتی ہے اور یہ سب کچھ اسی سلسلے کی کڑی ہے     وزیراعظم کوغورکرنا چاہیے کہ کیا دوہرا موقف کامیاب ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم مودی جی کا دیا ہوا نعرہ ٹائیں ٹائیں پھس ہوگیا اور اس طرح اقلیتوں کا اعتماد بھی  حاصل نہیں کیا جاسکتا  مسلمان تو آج بھی یہ مانتا ہے کہ اس ملک کی دو آنکھیں ہیں ایک ہندو دوسرا مسلمان، اس ملک کے دو پیر ہیں ایک ہندو دوسرا مسلمان، اس ملک کے دو ہاتھ ہیں ایک ہندو دوسرا مسلمان، اس ملک کے دو کان ہیں ایک ہندو دوسرا مسلمان یعنی ہندو اور مسلمان اس ملک کا جسم ہے اور جسم کی حفاظت کرنا ضروری ہے اور یاد رہے کہ مسلمانوں کو تو مذہب اسلام نے تعلیم دی ہے کہ جس ملک میں رہو اس ملک سے محبت کرو احترام کرو اس کی حفاظت کرو اور جب جب بھی موقع آیا ہے تو مسلمانوں نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بہاکر ملک کی حفاظت کی ہے اور وطن سے محبت تو مسلمانوں کے خون میں شامل ہے لیکن پھر بھی مسلمانوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگا جاتا ہے، مسلمانوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے مسلمانوں کو صرف الیکشن کے دوران عزت دیجا تی ہے اور الیکشن کے بعد مسلمانوں کے ساتھ وشواس گھات کیا جاتا ہے ایوان کے اندر واک آؤٹ اور غیر حاضری کے ذریعے منافقانہ کردار ادا کیا جاتا ہے عہدے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیاجاتا ہے مسلمانوں کی بھی کمیاں ہیں جمہوریت کے تحت حاصل شدہ اختیار کے مطابق سیاست میں کوئی پہچان نہیں بنا سکے دینی مدارس کا قیام کیا لیکن اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ کو نصاب میں شامل نہیں کرسکے، خانقاہوں کے جانشینوں، سجادہ نشینوں، گدے نشینوں نے اپنے آپ کو گل پوشی اور چادر پوشی اور دولت کا انبار لگانے تک محدود کرکے نقلی پیر اور روٹی توڑ فقیر کا کردار ادا کیا ملک کے مختلف علاقوں میں بڑی بڑی خانقاہیں ہیں جہاں ایک اسپتال تک تعمیر نہیں کیاگیا جن بزرگانِ دین نے مذہب اسلام کی تبلیغ کی اور ایسا اخلاق و کردار پیش کیا کہ بلا تفریق مذہب وملت کیلئے مرکز عقیدت بن گئے آج انہیں کے آستانوں پر بیٹھ کر کبھی بھی ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند نہیں کیجاتی بے سہارا اور یتیموں و غریبوں کو عزت نہیں دیجاتی قوم مسلم کے روشن مستقبل کے لئے کبھی کوئی فیصلہ نہیں لیاجاتا اور نہیں تو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ایسی ایسی خرافات کیجاتی ہے کہ جس سے مذہب اسلام کی شبیہ تک خراب ہوتی ہے ملک کی بڑی بڑی خانقاہوں میں تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہیں، علاج و معالجے کا کوئی انتظام نہیں، قوم مسلم کی رہبری و رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں یہ شرم کی بات نہیں تو اور کیا ہے مدارس کے ذمہ داران عمارت کو اونچی کرنے کی فکر رکھتے ہیں لیکن اس عمارت سے قوم مسلم کی فلاح اور بہبود کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے کا  انتظام نہیں کرتے نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور لوگ ائمہ مسالک تک کا نام بھول تے جارہے ہیں، قرآن پڑھایا جاتا ہے لیکن قرآن سمجھایا نہیں جاتا نتیجہ یہ نکلا کہ جو قرآن کا مخالف ہے وہ قرآن کے ذریعے دنیا کے ہر شعبے میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے اور جو قرآن کا ماننے والا ہے وہ پستی کا شکار ہے کیونکہ وہ قرآن پڑھتا ہے لیکن سمجھتا نہیں ہے اور سمجھایا بھی نہیں جاتا ورنہ قرآن تو مکمل دستور حیات ہے مساجد کے ائمہ اور خطیب  جمعہ میں خطبہ تو پڑھتے ہیں لیکن بہت زیادہ خطبا ایسے ملیں گے جو خود اس خطبے کو نہیں سمجھتے جو وہ پڑھ تے ہیں  حالات حاضرہ پر خطبہ دینا تو بہت دور کی بات ہے اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو خطبہ جمعہ مذہب اسلام کا ایک عظیم الشان ذرائع ابلاغ ہے اور بہتر یہی ہے کہ خطبہ جمعہ حالات حاضرہ پر ہی مبنی ہو آج مقررین کی طویل فہرست ہے لیکن حالات حاضرہ پر خطاب کرنے والے گنے چنے لوگ نظر آتے ہیں اور قوم کی حالت تو یہ ہے کہ افسوس صد افسوس طلاق ثلاثہ بل پاس ہوگیا، ماب لنچنگ ہجومی تشدد کا دور آیا، این آر سی کا معاملہ زیرِ بحث آیا، بابری مسجد ہاتھ سے نکل گئی شہریت تر میمی بل کا معاملہ آیا بل پاس بھی ہوگیا قوم مسلم آج بھی موبائلوں میں گیم کھیل رہی ہے، نوجوان اخبار بھی پڑھتا ہے تو صرف کھیل والا صفحہ پڑھتا ہے، آج کے اس پر درد و پرفتن دور میں بھی فٹبال والی بال کا ٹورنامنٹ کرا رہا ہے یعنی قوم مسلم آج بھی بے خبر ہے اپنا محاسبہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے سارا اختلاف مسلمانوں کے اندر، دنیا میں جتنی بھی برائی ہے ہر برائی مسلمانوں کے اندر، بھائی بھائی کا جھگڑا مسلمانوں کے اندر، زنا کے مناظر دیکھنے اور زنا کاری کی برائی مسلمانوں کے اندر غرضیکہ ساری خرافات سارا فتنہ آج مسلمانوں کے اندر موجود ہے اصلاح معاشرہ کی تقریبات و مہم اور اجلاس تقریر و تحریر تک سمٹ گیا نوجوان قوم کا سرمایہ ہوتا ہے قوم کا مستقبل ہوتا ہے لیکن آج قوم مسلم کا نوجوان کرکیٹروں اور ایکٹروں کی زندگی کے حالات کو جانتا ہے لیکن ابوبکرو عمر، عثمان و حیدر رضی اللہ عنہم اجمعین کے حالات سے ناواقف ہے ہمارے ملک کے آئین نے ووٹ مانگنے اور ووٹ دینے کا حق دیا ہے، پارٹی بنانے کا حق دیا ہے کمزور سے کمزور طبقے نے آئین کے تحت حاصل شدہ اختیار کا فائدہ اٹھایا لیکن مسلمانوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی نتیجہ یہ ہوا کہ آج مسلمان سیاسی میدان میں صفر ہوگیا یہ سیاست کو دنیاداری مان لیا مگر دنیاوی لہو لعب کو غلط مانتے ہوئے بھی اس پر عمل پیرا ہے جبکہ سیاست رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے بھی کی ہے ابوبکر وعمر عثمان وعلی نے بھی کی ہے اور بے مثال حکومت کی ہے عدل و انصاف کے معاملے میں کبھی امیر و غریب، رنگ ونسل، قبیلہ و مذہب کے نام پر تفریق سے کام نہیں لیا، کبھی عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا انکی زندگی عالم اسلام کے لیے  اور عالم انسانیت کے لئے  آج بھی مشعل راہ ہے سیاست سے کنارہ کشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مسلمان سیاسی قیادت سے محروم ہوگیا اور اس سے بھی زیادہ  حیرت و پریشان کن بات یہ ہے کہ کسی قیادت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے پھر بھی کہے کہتا ہے کہ  مسلمانوں کا لیڈر کوئی نہیں اور اب تک مسلمانوں کو تعصب کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور اب تو شہریت پر ہی خطرہ منڈلا نے لگا خدارا اے قوم مسلم اب سے تو اپنا دینی، سیاسی، سماجی محاسبہ کر، اے قوم مسلم آنکھیں کھول اب تو باخبرہوجا-

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے