​​​​​​​عدنان خان ندوی : شناسائی سے قضائے الہی تک

سید احمد ایاد ایس ایم ندوی

موت سے کس کو رستگاری ہے 
 آج وہ کل ہماری باری ہے

آج صبح 7 بجے کے بعد موبائیل کی گھنٹی بجی اور کسی نے یہ خبر دی بھائی مولوی مفتی عدنان خان ندوی انتقال کر گئے ، انا للہ و انا الیہ راجعون
کل 26 جنوری کو مدرسہ تنویر السلام میں یوم جمہوریہ  پروگرام میں میزبانی کے فرائض انجام دینے کے بعد تحریک ’پیام انسانیت‘ کی سرگرمیوں میں شامل ہوکر کل دوپہر بعد اپنے بچپن کے دوست کی شادی میں شریک ہونے کے لئے میسور جانے کا منصوبہ بنایا بس پر سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بائیک پرمیسور کا سفرکرنے کا فیصلہ کیا۔ اللہ کی مرضی کہ یہ سفر ان کے لئےسفرِ آخری سفر ثابت ہوا اور دوران سفر رات کے وقت ناگمنگلا کے علاقے سڑک حادثہ پیش آیا  اورمولانا عدنان  خان ندوی  اس حادثے میں انتقال کر گئے ۔اذکرو محاسن موتاکم کے تحت موصوف کی زندگی کا وہ حصہ جو شناسائی کے بعد دیکھنے کو ملا  تحریر کر رہا ہوں :

جامعہ اسلامیہ کی زندگی 
مولوی عدنان میرے ہم درس تھے ، نہایت متواضع اوراپنے کام سے کام رکھنے والے محنتی  طالب علم تھے، درجہ چہارم عربی میں ان کو کوئی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس کی وجہ سے وہ یہ درجہ عبور نہ کر سکے ،لیکن اس  ناکامی  نے ان کے اندرحوصلہ کو بڑھایا اور مضبوط کیا اور عالیہ اولیٰ تک پہنچتے پہنچتے ان میں اتنی استعداد پیدا ہوگئی تھی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو مذاکرہ کروایا کرتے تھے ۔ ہمارا درجہ ایک تھا مگر سیکشن الگ تھا اس لئے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع عالیہ رابعہ آنے کے بعد ہی ملا،موصوف کو  اکثر میں نے نمازوں میں  صف اولی کا اہتمام کرتے ہوئے دیکھا ، اسی کے ساتھ وہ ذکر و اذکار کے بھی بڑے  پابند تھے ۔میں  موصوف کو ہمیشہ دیکھا کرتا تھا کہ وہ درس کے وقت اساتذہ کی گفتگو کے نکات نہایت اہتمام کے ساتھ قلمبند کرتے تھے ،یہاں تک کہ  اپنے ساتھیوں میں یہ  مشہور تھا  کہ مولانا کہ منھ سے نکلنے والی ہر بات نوٹ کرتے ہیں، اوراسی وجہ سے امتحان کے زمانے میں ہم لوگ اکثرانہی کی بیاض سے فائدہ اٹھاتے تھے ،اور وہ خود بھی اس سے مدد لیکرپڑھائی میں کمزور طلباء کو مذاکرہ کراتے تھے اور خود ان کا یہ معمول تھا کہ جو طلباء پڑھنے میں کمزور ہوتے وہ ان کو زبردستی لیکر بیٹھ جاتے تھے اور ان پر محنت کرتے تھے ۔

موصوف کو جامعہ کے آخری برسوں میں ہم نے عصر بعد اور خصوصا امتحان کے دنوں میں ہر وقت طلباء کو مذاکرہ کرواتے دیکھا ،آخری سال جامعہ میں قیام کے دوران میں نے ان کو بارہا دیکھا کہ وہ آدھی آدھی رات تک  اپنے ساتھیوں کو مذاکرہ کراتے تھے ، اور پھردوسرے دن کی تیاری کرنے خود رات میں  پڑھتے ، رات میں وہ بمشکل دو سے 3 گھنٹے سو پاتے تھے ، لیکن اس کے باجود ہم نے نیند کی کمی کی وجہ سے کبھی جمائی لیتے ہوئے یا سستا تے ہوئے نہیں دیکھا ۔ حتی کہ بعض ساتھی تفریحاً  یہ بھی کہتے کہ تم جن تو نہیں ہوجو تمھیں نیند نہیں آتی ْپھر جب اعلیٰ تعلیم کے حصول  کے لیے  ہمارا دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنوجانا ہوا تو وہاں ہم نے ان کے اندر موجود ایک اور صفت کا مشاہدہ کیا اور وہ تھی خیر خواہی ، ہمدردی ( ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ)۔چونکہ لکھنو ندوہ جانے کے بعد سب ساتھی اپنے گھروں سے دور ہوتے تھے اور اس درمیان  اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اس کی خبر گیری کرنا بھی ضروری ہوتا تھا ، ہمارے درجہ کے جو بھی ساتھی بیمار ہوجاتے یا جس کسی ساتھی کے متعلق انہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ بیمار ہے ،تو موصوف فورا ان کی عیادت کرنے کے لئے پہونچ جاتے تھے ، اور نہ صرف ان کی عیادت کرتے تھے بلکہ ان ان کی جو بھی ضروریات کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔( یہاں تک کہ بعض ساتھی  تفریحاً جہاں کہیں عدنان صاحب کو دیکھتے تو کہتے کہ یہاں کوئی بیمار تو نہیں ہے!)
فراغت کے بعد
دار العلوم ندوۃ العلماء سے فراغت کے بعد موصوف نے جامعہ اسلامیہ کے شعبہ افتاء میں داخلہ لیا ،افتاء سے فراغت کے فوراً بعد آپ کو مسجد محی الدین مرڈیشور میں امامت کی ذمہ داری ملی  اور ساتھ ہی مدرسہ تنویر الاسلام میں بطور استاد ان کا تقرربھی ہوا ، اور موت تک  یعنی دو سال تک ان ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی  انجام دیتے رہے، جس کا پورا شہر مرڈیشور شاہد ہے  ۔اس کے ساتھ ہی موصوف علمی و تصنیفی کام میں بھی مشغول تھے ، موصوف  تین تین تصنیفی کام بیک وقت کر رہے تھے ،اس کے ساتھ ہی ان کا معمول یہ تھا کہ فجر کی نماز کے لیے جب یہ جاتے تو چاشت کی نماز  کا  وقت گذرنے کے بعد گھر تشریف لاتے ، اور اس وقت میں نوجوانوں کی فکر کرنے ان کی تربیت کرنے جیسے اہم کام انجام دیتے تھے ۔اس کے ساتھ ہی موصوف مجلس تحقیقات مرڈیشور کے محاسب اس کے ساتھ ہی پیام انسانیت حلقہ مرڈیشور کے فعال رکن اور مرڈیشور میں ہفتہ واری درس قرآن کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد تھی نیز تبلیغی سرگرمیوں میں بھی سر گرم عمل رہتے تھے ۔مزید ان تمام مشغولیتوں کے ساتھ ایم بی نیوز یوٹیوب چینل پر دنیا والوں کو صحیح خبریں پہنچانے کا کام بھی کرتے تھے ۔خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھی مرنے والوں میں

ایک پیغام

عدنان خان ندوی اب اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوچکے ہیں ، یہ ہمارےپہلے ایسے ہم درس ہیں جنھوں نے رب کے حضور حاضری دی۔ ہر نوجوان کی تمنائیں اور اس کے کچھ خواب ضرور ہوتے ہیں ،کچھ خواب کی تعبیریں اسے دنیا ہی میں مل جاتی ہیں اور بعض خواب محض خواب رہتے ہیں، لیکن ان خوابوں کی تکمیل میں شریعت کے حدود سے باہر نہیں جانا چاہیے اس لئے کہ موت ہر وقت آسکتی ہے ۔ مولوی عدنان  نے  بھی اپنے زندگی میں یقیناً بعض  حسین خواب دیکھے ہوں گے  ، کچھ عزائم اور  تمنائیں کی ہوں گے  ، لیکن ان کی  وہ تمام تمنائیں خواب اور عزائم جو  ادھورے رہ گئے ،یقیناً اللہ کی ذات سے قوی امید ہیکہ وہ ان کے ان نیک عزائم تمناوں اور خوابوں کے مطابق اپنے فضل سے انہیں بھر پور اجر عطا فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ۔آمین

دوسری طرف ان کے گھر والوں کو محلہ والوں بلکہ شہر والوں کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ یہ دین و ملت کا بڑا  کام انجام دیں گے لیکن ان کی موت کی خبر نے سب کو مبہوت و ساکت کر دیا ۔نوجوانو! کس نے کہا کہ زندگی 60 یا 70  برس کی ہوتی ہیں ،کس نے یہ کہہ دیا کہ ابھی جوانی ہے جو من میں آیا کر گذرو ! کون اس کا داعی ہے کہ ابھی تری عمر ہی کیا ہے ؟ ابھی ذرا موج اڑاؤں ! بڑھاپے میں تسبیح لیکر بیٹھ جائیں گے ۔ کسے پتا کہ اب عدنان خان کی رحلت کے بعد کس کا نمبر آجائے ،کسے رب کا بلاوا آجائے ! اور وہ اس فانی دنیا سے ہمیشگی کی دنیا کا مسافر بن جائے ۔اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آج عمل ہے اور حساب نہیں ،لیکن کل(مرنے کے بعد) حساب ہوگا عمل نہیں ہوگا ۔
آدمی نشہ غفلت میں بھلا دیتا ہے
ورنہ جو سانس ہے پیغام فنا دیتا ہے
اللہ تعالیٰ سے ہم یہی دعا کریں کہ وہ اس کی بال بال مغفرت فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے۔ آمین

«
»

’اندھیر نگری، چوپٹ راجہ‘… نواب علی اختر

یہ کیا،میرے ملک کا دستور ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے