عارف عزیز(بھوپال)
دنیا کے ملکوں اور انسانوں کے درمیان روز افزوں بڑھتی عدم مساوات کی خلیج کو کیسے پاٹا جائے اس اہم مسئلہ کے بارے میں کرہئ ارض کے مختلف حصوں میں غور وفکر ہورہا ہے کیونکہ دنیا کے اعلیٰ طبقہ نے قاعدے اور قوانین کو اپنے مفاد میں تبدیل کرکے عدم مساوات کو اس حد تک پہونچا دیا ہے جس کے نتیجہ میں جمہوریت بے معنی نظر آنے لگی ہے۔ آمدنی اس حد تک محدود ہاتھوں میں جمع ہورہی ہے کہ آج دنیا کے سب سے مالدار ۵۸خاندانوں کے قبضہ میں اتنی املاک ہیں، جتنی دنیا کی نصف آبادی یعنی تقریباً ساڑھے تین ارب انسانوں کے پاس ہیں۔ یہ رجحان کسی فطری طریقہ وعمل کے باعث نہیں ہوا بلکہ مفاد پرستوں کے ذریعہ پالیسی وپروگرام میں شاطرانہ پھیر بدل کا نتیجہ ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ ہندوستان کے بارے میں بتاتی ہے کہ نہایت مہمل ٹیکسوں کا ڈھانچہ اور مالدار لوگوں کا حکومت سے اپنے تعلق کا فائدہ اٹھانے کے باعث گزشتہ دہائی میں ارب پتیوں کی تعداد دس گناہ بڑھ گئی ہے۔ اس کے برعکس سب سے غریب طبقوں پر سرکاری خرچ نہایت کم ہورہا ہے۔ جبکہ اقتدار کے سرچشموں پر مالدار لوگوں کے اثر ورسوخ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے وہ ٹیکسوں کے ڈھانچے قدرتی وسائل کی تقسیم اور دیگر اقتصادی پالیسیوں کو متاثر کرکے قومی آمدنی کا وافر حصہ ہتھیارہے ہیں، عدم مساوات بڑھنے کی یہ ایک وجہ ہے، دوسری بڑی وجہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران ہوئی ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی ہے، کمپیوٹر تیکنک کی برق رفتار توسیع سے صنعت اور خدمات کے زیادہ سے زیادہ کام انسانوں کے بغیر ہونے لگے ہیں لہذا ان شعبوں میں محنت کشوں کی ضرورت مسلسل کم ہورہی ہے اور اس کے نتیجہ میں گھریلو پیداوار میں اضافہ سے ہونے والی آمدنی سماج کے مختلف حصوں تک پہونچنے کے بجائے، ان لوگوں تک محدود ہوتی جارہی ہے، جن کے پاس سرمایہ، تیکنک یا تجارتی صلاحیت موجود ہے۔
تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے بتاتے ہیں جب بھی تیزی سے تیکنک کو فروغ حاصل ہوا ہے تو اس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے اپنے روایتی پیشوں سے بے دخلی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حال کے عرصہ میں ایسا ہی ہورہا ہے جس سے بے روزگاری اور عدم مساوات تیزی سے بڑھی ہے اور اس کا نتیجہ متعدد ممالک میں تحریکات اور افراتفری کی شکل میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ امریکہ میں ہوئے ’آکیو پائی وال اسٹریٹ تحریک‘ نے ۹۹فیصدی بنام ایک فیصدی کی بحث چھیڑی تو اس کا اہم نشانہ بھی عدم مساوات ہی تھا۔ کیاحکومتوں اور کاروباری دنیا کے ضابطوں میں ایسی گہری نظر ہے کہ وہ مسئلہ کی سنگینی کا احساس کرسکیں گے اور ترقیات کی موجودہ سمت کو سب کے مفاد سے جوڑ سکیں گے؟ تیکنک کی توسیع کے ساتھ عہد کی تبدیلی فطری ہے لیکن تکلیف دہ صورت حال کے ساتھ ہو، اس پر مناسب پالیسی وپروگرام کو بروئے کار لاکر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں