عدلیہ و مقننہ کی میزان پر بابری مسجد کا قضیہ

ڈاکٹر سلیم خان

 

سوال  یہ نہیں  ہونا چاہیے  کہ عدالت کے فیصلے یا حکومت کے قوانین کو لوگ  تسلیم کریں گے  یا نہیں؟ بلکہ یہ استفسار کیا جانا چاہیے کہ ایسے فیصلے کیوں ہوتے ہیں جن پر عوام کو تردد ہو اور ایسے قوانین کیوں وضع کیے جاتے ہیں جن کی بجا آوری لوگوں کے لیے دشوار گذار ہوجائے۔ اس بات کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔ پسماندہ ذاتوں اور قبائلیوں کے خلاف مظالم کی روک تھام کے قانون کی ایک شق  شکایت پر بلا تفتیش گرفتاری کو عدالت عظمیٰ نے خلاف ِانصاف کہہ کر   مسترد کردیا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ اسے ہم جنسی کے فیصلے کی مانند ہنسی خوشی قبول کرلیتی یا آگے بڑھ تین طلاق کے فیصلے کے مطابق  جھوٹی شکایت کرنے والے کے لیے سزا تجویز کردیتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم  قرار دیتے ہوے اس قانون کو اور سخت بناکر نافذ کردیا۔ اس طرح گویا  خود مرکزی حکومت نے عدالت کے فیصلے کو  تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

مرکزی حکومت نے یہ قانون پسماندہ ذاتوں اور قبائل کی خوشنودی کے لیے بنایا تھا تاکہ انتخابی سال میں اس کا نقصان نہ اٹھا نا پڑے۔  اس قانون نے نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کو ناراض کیا اور وہ سڑکوں پر اتر آئے۔ ان کا احتجاج پر تشدد ہوگیا۔ حکومت چونکہ ان کی حمایت پر انحصار کرتی ہے اس لیے سختی کرنے  سے گریز کیا گیا۔ وہ لوگ مرکزی حکومت کے قانون کو تسلیم کرنے کےمنکر تھے۔ اس احتجاج نے صوبائی حکومتوں کو دھرم سنکٹ میں ڈال دیا اور خود بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ نے احتجاجیوں کو یویقین دلایا کہ وہ اس نئے قانون کا بیجا استعمال روکیں گے یعنی نئی ترمیم  پرکما حقہُ  بجا آوری نہیں ہوگی۔  پہلے تو مرکزی حکومت نے عدالت کے فیصلے کو پامال کرکے سیاسی فائدہ حاصل کیا تھا اور پھر صوبائی حکومت نے اپنی ہی پارٹی کی مرکزی حکومت کے قانون  کو ماننے سے عملاً انکار کردیا۔ یہ اس سال  ماہِ اپریل اور اس کے بعد  کی بات ہے۔

 

اس مثال سے ظاہر ہے کہ عدالتوں کے فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ نچلی عدالتوں کے فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں بدل دیئے جاتے ہیں نیز عدالت عظمیٰ  کی تین ججوں والی آئینی  بنچ  کا  فیصلہ پانچ نفری  بنچ کے حوالے کیا جاتا ہے اور وہ اس کو بدل سکتی ہے۔ عوام کے پاس  ان سارے غلط یا صحیح فیصلوں کو تسلیم کرلینے کے سواکوئی چارۂ کار نہیں ہوتا ۔ غلط یا صحیح اس لیے کہ اگر عدالت سے دو متضاد فیصلے آئیں تو وہ دونوں درست نہیں ہوسکتے۔ ان میں ایک  غلط ضرور ہوگا لیکن جب تک اس کے خلاف کوئی  نیافیصلہ نہ صادر ہوجائے اس کو مان لینا شہریوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ اس کے خلاف اپنا اعتراض درج کرا سکتے ہیں۔  یہ حقیقت واقعہ ہے کہ فیصلہ اگر اعلیٰ ترین عدالت کا نہ ہو تو اونچی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے  نیز ذرائع  ابلاغ میں  یا سڑکوں پر اتر کر غم و غصے کے اظہار بھی ممکن ہے۔

 

حکومت کا معاملہ ایسا ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کرتی رہتی ہے۔  آزادی کے بعد مسلسل ترمیمات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ اس کا سبب کبھی اپنی پرانی غلطی کا اعتراف تو کبھی کوئی سیاسی مفاد ہوتا ہے۔  ہم جنسی کو  دستوری اعتبار سے ناجائز قرار دینے پراس کے حامیوں کو اسے تسلیم کرنے پر مجبور کردیا جاتاہے  اور جب ہم جنسی جائز ہوجاتی ہے تو اس کے مخالفین کے لیے بھی  اس نئے قانون کو ماننے کے سوا چارۂ کار نہیں ہوتا۔ انہیں اس کے خلاف اپنی ناراضگی  کے اظہار کا حق حاصل ہوتا ہے وہ چاہیں تو احتجاج بھی کرسکتے ہیں لیکن یہ سوال کوئی نہیں کرتا کہ  اس قانون کو مانیں گے یا نہیں ؟ اس لیے کہ    ہر قانون(اس میں کی جانے والی  ترمیم  کے قبل)  بزور قوت منوا نے کے لیے نافذکیاجاتا ہے الاّ یہ کہ خود حکومت اپنے سیاسی مفاد کے ہاتھوں  مجبور ہو۔  حلال و حرام  کے دائمی اقدار سے محروم   جمہوری نظام سیاست  میں یہ  اتھل پتھل  مسلسل  جاری رہتی  ہے۔

 

اس تناظر میں بابری مسجد کا قضیہ  دیکھیں۔ یہ  معاملہ عدالت میں زیر سماعت  ہے۔ ایک  فریق  کو اندیشہ لاحق ہے کہ فیصلہ اس کے خلاف ہوگا۔ اس  لیے وہ عدالت کے بجائے  قانون بنوا کر اپنا حق منوانا  چاہتاہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا  ہے کہ قطعۂ زمین کی ملکیت کا فیصلہ شواہد کی روشنی میں   عدالت کے ذریعہ ہونا چاہیے یا  سیاسی مفادات کی چادر اوڑھے سیاستدانوں کو قانون  بناکر اس کو سلجھانا چاہیے؟  اس معاملے ابھی تک جو پیش رفت ہوئی اس کو ایک مثال سے سمجھیں ۔  زید نے بکر کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ زید کی زمین  اس کو واپس ملنی چاہیے۔ اس سے قطع نظر  کہ زید کی  زمین پر کون سی عمارت تھی اور بکر اس پر کیا تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ زید نے اپنا آئینی حق  استعمال کرتے ہوئے پرامن طریقہ پر عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت کے فیصلے  سے قبل   حکومت نے اس متنازعہ قطعہ  کے اطراف کی   زمین کو اپنے  قبضے  میں لے کر اس میں شامل کردیا۔

عدالت نے اس وسیع قطعۂ اراضی  کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک حصہ زید کو دیا۔ ایک حصہ بکر اور تیسرا کسی ثمر کو جو سرے سے اس قضیہ کا فریق ہی نہیں تھا۔ زید کو اگر اس کا حصہ لوٹا دیا جاتا تو وہ خاموش بیٹھ جاتا لیکن وہ حصہ  چونکہ بکر کو دے دیا گیا اس لیے اس نے احتجاج کیا۔  غاصب بکر کی حرص میں اضافہ ہوگیا اس نے تینوں پر اپنا دعویٰ ٹھونک دیا۔ اس طرح اعلیٰ عدالت میں پھر وہ دونوں پھر سے  آمنے سامنے ہوگئے۔ اب جبکہ بکر کو یقین ہونے لگا کہ فیصلہ اس کے خلاف ہوگا تو وہ چاہتا کہ حکومت عدالت سے صرفِ نظر کرکے قانون کے ذریعہ یہ زمین اس کو عطا کردے۔ حکومت اگر ایسا کردیتی ہے تو عدالت کی ضرورت ہی کیا ہے؟  ہر قضیہ کو حل کرنے کے لیے  جمہور کے نمائندوں کی جمہوری حکومت، جمہور کی خاطر قوانین وضع کردیا کرے۔

 

اس صورتحال  میں یہ  سوال کہ قانون بنا کر  جن لوگوں کے حقوق پامال  کیے جاچکے ہوں، وہ اسے تسلیم کریں گے  یا نہیں؟ یہ ایسا سوال ہے کہ کوئی بلاوجہ  اپنی طاقت کے زعم میں  کسی کی آنکھیں پھوڑ دے تو وہ  اپنے آپ کو نابینا تسلیم کرے  گا یا نہیں ؟   یہ تو کوئی سوال ہی نہیں ہے اس لیے کہ اس کے انکار کرنے سے  حقیقت حال پر کوئی   اثر نہیں   پڑے گا؟ سوال   تویہ  ہونا چاہیے  کہ  کیا وہ  اس ظلم اور ناانصافی کو ٹھنڈے پیٹوں  برداشت کرلے  گا؟  یا اس کے  خلاف صدائے احتجاج  بلند کرے گا؟      کیا ایسا کرنا اس کا   بنیادی حق ہوگا یا نہیں ؟ اور جب وہ  اپنے  اس انسانی حق کا استعمال کرےگا تو سارے انصاف پسند اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے یا نہیں؟ اور جو لوگ اس کے خلاف  کھڑے ہوں گے کیا  ان کا شمار ظالموں  میں ہوگا یا نہیں ؟ جوخاموش تماشائی بنے رہیں گے وہ غاصبوں کے ہمنوا کہلائیں گے نہیں ؟ ان بنیادی سوالات کا جواب اس سائل کو دینا چاہیے کہ جو یہ  پوچھ رہا ہو کہ بابری مسجد کے قضیہ میں قانون اور عدالت کے فیصلے پر مسلمانوں کا  کیا ردعمل ہوگا؟

قانون کو وضع کرنے کا مطالبہ کرنےوالے اس  کی  پیچیدگی سے واقف نہیں  ہیں ۔ کوئی قضیہ اگر عدالت میں زیر سماعت ہو تو فیصلہ آنے سے پہلے قانون بنادینا دراصل عدالت کو متاثر کرنے کے مترادف ہے نیز اس حقیقت کا اعتراف بھی ہے کہ آئین اس معاملے میں عدالت کی رہنمائی کرنے سےقاصر ہے۔ اس ضرورت  کا اظہار اگر خود عدالت کی جانب سے ہو اور وہ  حکومت سے قانون بنانے کا مطالبہ کردے تو اور بات ہے  لیکن اس کے لیے بھی عدلیہ  کے فیصلے کا انتظار لازمی ہے۔ عدالت کا فیصلہ اگر بکر کے خلاف آجائے اور پھر اس کو حق بجانب قرار دینے کے لیے دستوری ترمیم کی جائے تو اس کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس نئی صورتحال میں  عدالت کے سامنے ایک طرف  اس کا ایک فیصلہ اور دوسری جانب حکومت کا قانون  ہوگا۔ وہ اگر قانون کو مسترد کردے تو حکومت کی سبکی ہوگی بصورتِ دیگر اس کو اپنا فیصلہ بدلنا ہوگا اور ایسا کرنے سے عدلیہ کے وقار کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

 

بابری مسجد کا قضیہ دراصل ملک میں رائج سیاسی نظام کے لیے ایک آزمائش بن کر کھڑا ہوا ہے؟ یہ آئے دن  جمہوری  استبداد کی خوشنما قبا کو تار تار  کرکے اس کا اصلی چہرہ دکھا رہا ہے۔ پنڈت نہرو کے حوالے سے یہ مشہور ہے  کہ انہوں نے کہا تھا جمہوریت دنیا کا دوسرا سب سے اچھا سیاسی نظام ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا پہلا کون ساہے تو انہوں نے جواب دیا اس سے   وہ واقف نہیں ہیں یا وہ ابھی عالم وجود میں نہیں آیا۔ دراصل پنڈت جی یہ تو جان گئے تھے کہ اس نظام میں خامی ہے لیکن اس  کمی کا ادراک نہیں کرپائے۔ دائمی اصول و اقدار کا فقداناس نظام  کو ناپائیدار کرتا ہے اور حکمرانوں کو اس سے کھلواڑ کی کھلی چھوٹ سے نواز  دیتا ہے۔ اس کا حل اسلامی نظام سیاست  میں ہے جہاں اللہ کے عطا کردہ حقوق انسانی کو کوئی حکومت سلب نہیں کرسکتی۔  سب سے اہم  سوال یہ  ہے کیا امت مسلمہ  تیسرے درجہ کی فسطائیت سے گھبرا کر دوسرے درجہ کی جمہوریت پر راضی رہے گی یا متبادل کے طور پر اول درجہ کا اسلامی نظام سیاست پیش کرے گی؟

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
07؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

«
»

تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ ارتداد کے دہانے پر….

مشرق کاجنازہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا دھوم سے نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے