ادھورے خواب کی تصویر ۔

بخشالی گاؤں سے آیا ہوا یہ نوجوان بخشالوی کے لاحقے اور گل کے تخلص کیساتھ ادبی دنیا میں وارد ہوا تو لوگ سبحان الدین کو بھول گئے اور گل بخشالوی کو جاننے اور پہچاننے لگے ’’سوچ رُت‘‘کی ترتیب اور قلم قافلہ کے نام سے بنائی گئی ادبی تنظیم نیز اس نام سے جاری ادبی رسالے سے جو سفر شروع ہوا وہ آج بھی انہیں جوان جذبوں سے جاری ہے اس سفر کی کوئی خاص سمت نہیں گل بخشالوی کایہ سفر شش جہت مسافت پررواں ہے کبھی غزل ،کبھی نظم ،کبھی سفرنامہ ،کبھی تدوین ،کبھی تنقید ،کبھی سیرت نگاری حتیٰ کہ ہر موضوع اور مضمون پر قلم کی روانی نے پٹھان مٹی اور پنجابی فکر کو ایک پیکر میں یکجا کرکے ایک نئے رنگ اور آہنگ کو ادب کے دلداد گان تک پہنچانے کا سلسلہ جس شدومد سے شروع کیا تھا اُس سے کہیں زیادہ وقت کے گزرتے لمحوں کیساتھ اس میں تیزی آگئی ہے ۔
گل بخشالوی کا کلام جو اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے یہ اُس کا اگرچہ خاص رنگ ہے لیکن اس بار کچھ نئے پہلو اُجاگر کرتا ہے یہ رنگ اگرچہ اُس کی فکر سے ابتداء سے ہی اظہار پذیر رہا ہے لیکن تب جذبوں اور محبتوں کا اشارہ کسی اور سمت بھی ہوتا تھا جبکہ آج اس میں وطن کی محبت کا عنصر کہیں زیادہ نمایاں ہے یہ احساس اُن کے ذہن وقلب پر میرے خیال میں اُس وقت براجمان ہوا اور فکر وخیال پر اُس وقت غالب ہوا جب وہ دیار غیر میں کچھ عرصہ رہے تو مٹی کی غیرت اور فکر کے جذبے نے بہت زیادہ شدت اختیار کر لی مجھے گل بخشالوی کا وہ وقت بھی یاد ہے جب اُس نے اپنے خون کی سرخی سے کاغذ کو لہو رنگ کیا تھا سیاسی خدمت کا کام جس کے خون سے لیا اور فکر کا کام اپنے جذبوں سے لیا تھا لیکن آج خون کا کام بھی وہ قلم کی روشنائی سے لے رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ابھی اُس نے اس دھرتی اور دھرتی پر بسنے والوں کیلئے بہت سا کام کرنا ہے اور انہیں کسی مثبت سمت کے تعین میں بہت سے مفید مشورے دینے ہیں ۔
گل بخشالوی کے سامنے ایک کھلا میدان ہے جس میں سیاست بھی ہے سماج بھی قوم کی خستہ حالت بھی اور خوابیدگی بھی ،اُس نے فوج میں رہ کر اُسے بھی قریب سے دیکھا ہے سیاست کے خارزار سے بھی گزرا ہے غربت کی چکی میں بھی پسا ہے ،پیسے کی چکاچوند بھی دیکھی ہے دوستوں کی عداوتوں سے بھی واسطہ پڑا اور دشمنوں کی رقابتیں بھی دیکھیں،اُس نے معاشرے کے تمام رنگ اپنی زندگی میں دیکھے اور اپنی ذات پر اُن کے اثرات کو محسوس کیا لیکن وہ گل کی فطرت سے ہٹ نہ سکا تمام رویوں کو اپنی مجسم ذات میں اُتارتا رہا اور خوشبو بن کر بکھرتا رہا ،۔بار بار مسکرانے کی سزا پاکر بھی کھلتا رہا اور آج گل ایک ایسے پاکستانی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جس کی رگ رگ میں وطن کی سوچ کا لہو رواں ہے اودھ کے حکمران واجد علی شاہ اختر نے لکھا تھا کہ 
وسعتِ خلد سے بڑھ کر ہے کہیں حب وطن 
تنگئی گور سے بدتر ہے فضائے غربت 
گل بخشالوی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے وطن کے حالات دیکھتا ہے تو محبت مزید گہری ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی ہچکیاں بھی بندھ جاتی ہیں اور یہ ہچکیاں فضائے غربت کے باعث ہوتی ہیں اس پر وہ اپنے اندر کے غبار کو سانس کا تسلسل بحال کرنے اور رکھنے کیلئے باہر نکلتا ہے ۔
مجھے مغرب زدوں کی کیا ضرورت 
میں پاکستان بننا چاہتا ہوں 
قوم اور وطن سے وابستگی اگرچہ ایک فطری جذبہ ہے اور یہ جذبہ اُس وقت مزید پختہ اور فزوں ہوجاتا ہے جب ایک حساس آدمی قوم کے بگڑے اور ناروا حالات کو دیکھتا ہے وہ کڑھتا ہے جلتا ہے لمحہ لمحہ موت سے ہمکنار ہوتا ہے لیکن وہ بے بس کچھ نہیں کر سکتا ۔وہ صرف سوچتا ہے اور پھر اگر قلم وقرطاس سے منسلک ہے تو اپنے دکھ کا غذ پر اُنڈیل دیتا ہے اور یہی ادھورے خواب میں ہم دیکھتے ہیں ۔
کھڑے ہیں چاروں طرف اژدھے اُٹھائے سرمیں سرکو ہاتھ میں لے کر قلم اُٹھاتا ہوں 
مرے وجود میں میرا وطن سلامت ہے 
نمازِ عشق میں ایمان گنگنا تا ہوں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذات کی جنت سے باہر سوچتے حاکم نہیں 
سوچتا ہوں کیا بنے گا قوم کی تقدیر کا 
ہے کھڑا دہلیز پردشمن ،کوئی آنگن میں ہے 
رُخ بدل کر دیکھتے پھر بھی نہیں تصویر کا 
بخشالوی حساسیت کا مارا ہوا محبتوں کا شاعر ہے وہ امن تراشی کی سوچتا ہے کیفیات اور اُلجھنوں کو الیکتا ہے زندگی کادرس دیتا ہے وہ ایک فلسفی بھی ہے جو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے ایسا فلسفی جو بقول شخصے ،
’’ترکیب وتشکیل عالم ،جسم وغیرجسم کا تضاد ،جو ہر سکون وثبات ،۔۔۔۔انسان کی حیثیت ،محبت ونفرت ،خود شناسی وخودی ،زمان ومکاں ،اضافیت ،جزوکل ،ارتقاء ،روح کی حقیقت ،وجود اور خیروشر جیسے اہم موضوعات پر فکر کرتا ہے ‘‘لیکن وہ سوچتا ہے اپنے انداز میں ہے اور یہ فکر جب اس کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرنا شروع کردیتی ہے تو گل بخشالوی اس فکر کو جو غم کا روپ دھارلیتی ہے خارج کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے دوسروں کیساتھ شیئر کرتا ہے وہ دوستوں کے دکھ جو اپنے اندر سموئے ہوتا ہے اور جنہیں وہ اپنے وجود اور روح کا حصہ بناچکا ہوتا ہے انہیں دوسروں تک پہنچا کر مثبت سوچ کا موقع فراہم کرتا ہے وہ دوسروں کو اس طرف بُلاتا ہے اور دعوت دیتا ہے کہ سب مل کر ان دکھوں کا مداوا کریں جو کسی فردِ واحد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو آہستہ آہستہ نگل رہے ہیں ۔وہ اپنے ہم وطنوں کو ان دکھوں سے آگاہ کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم معاشرے کو امن وامان سے ہمکنار کرسکتے ہیں ہمیں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے اور اس ناسور کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
گل بخشالوی ایک فکر اور خیال کا شاعر ہے شاعر جس کا مادہ ہی شعور ہے جو اپنے اردگرد اور اپنی زندگی سے اپنی شاعری کا سامان کشید کرتا ہے گل شاعری میں بھی ہر بار ایک نئے موضوع کیساتھ قارئین سے ہم کلام ہوتا ہے اُس کی غزل بھی متنوع موضوعات ومزاح کا امتزاج ہوتی ہے جس میں تازہ کاری شعور کی روشنی اور ایک مضطرب ذہن کا عکس واضح ہوتا ہے وہ آّج کے حالات کا بغور مشاہدہ کرتا ہے تو اب بھی لڑکپن میں سنے ہوئے ان لفظوں کی گونج اپنے ذہن کے نہاں خانے میں سنتا ہے ۔
’’دس کروڑ پاکستانی عوام کی آزمائش کا وقت آگیا ہے ۔۔پاکستان کے ۔۔۔عوام جن کے دلوں میں لاالہ اللہ کے مقدس کلمات بسے ہوئے ہیں اس وق تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک وہ دشمن کی توپوں کے دہانے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش نہیں کردیتے ‘‘آج تو ہم بیس کروڑ ہیں آج ہم میں قوت وطاقت کہیں زیادہ ہونی چاہیے پھر بہر حال گل بخشالوی نے چونکہ وہ لمحے دیکھے تھے اسی لیے آج پر امید ہے کہ یہ قوم ضرور جاگے گی ابھرے گی اور امن وسکون کیساتھ منزل کی طرف گامزن ہوگی وہ آج بھی انہیں توقعات اور اُمیدوں کو اپنے پلو میں باندھے غزل سرائی میں مصروف ہے ایسی غزل سرائی نہیں جو قوم کو سلادے بلکہ اقبال کی غزل کا پرتولے کر قوم کو آئینہ دکھاتے ہوئے الفاظ کو خوبصورتی سے موزوں کرتا ہے ۔
اشک ماتم کیوں کریں دکھ کی دہائی کیلئے 
شاہِ بحر وبر میں جب مشکل کشائی کیلئے 
روشنی گلشن میں ہو اور جگمگائے سرزمیں 
گل بدن میں خون ہے گرروشنائی کیلئے 
آنکھ بھر دیکھے نہ دشمن ،دین وملت کا ہمیں 
زندگی گر بھول جائیں ،خود سرائی کیلئے 
’’ادھورے خواب‘‘میں حب الوطنی امن کی خواہش راہِ راست کا تعین ،قوم کی زبوں حالی پر دکھ درد کے اظہار کے علاوہ اپنے وطن کے باسیوں کو اصلی صورت دکھاکر کئی دیگر موضوعات اور مضامین کا بھی احاطہ کیا گیا ہے ان اشعار میں جمالیات کا عنصر بھی موجود ہے اور حضور نبی کریم ؐکی ذات والا صفات سے محبت وعقیدت جو گل بخشالوی کا موضوع اول ہے بلکہ گل کی شاعری کا محور ومنبع ہے وہ بھی موجود ہے کیونکہ اس موضوع سے الگ رہ کر وہ جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اُس کا نظریہ فن اور نظریہ زندگی ہے کہ 
مجھے عنایت جو زندگی ہے اسی کا محور مرا نبی ؐہے 
جو ہے سلیقہ سجود رب کو ،مرے نبیؐ کی ہی روشنی ہے 
جمالِ فطرت ،نظامِ قدرت ،بفیض احمد ؐملا جہاں کو 
عمل سے اُس نے بتایا ہم کو ،کہ ایک ہستی خدا کی بھی ہے 
گل بخشالوی نے اپنے اشعار میں دعاؤں کے بے اثری کا ذکر بھی کیا ہے غریبوں کی غربت اور اُن کے ارمانوں کے لہو ہونے کا ذکر بھی کیا اس ملک کو لوٹنے والوں کا ذکر بھی کیا قیادت کے فقدان اور حکمرانوں کی بے حسی کا ذکر بھی کیا شہیدوں کا اور غازیوں کا ذکر بھی کیا اس وطن کے ذرے ذرے کو نکھارنے کی بات بھی کی طوفانوں ،زلزلوں ،آفتوں ،مصیبتوں اور اُن کے روپذیر ہونے کی بات بھی کی گل کی شاعری میں اگرچہ بظاہر ان سارے احوال میں ہمیں دکھ ،غم ،افسوس ،بدنصیبی ،اور درد ہی نظر آتا ہے اور وہ یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتا ہے کہ 
میں اپنے درد کی تفسیر بن کر لکھ رہا ہوں 
سسکتے خواب کی تعبیر بن کر لکھ رہا ہوں 
میں زندانی ہوں تم مجھ سے مری حالت نہ پوچھو 
سرپا سوزش زنجیر بن کر لکھ رہا ہوں 
مرے خاموش ہونٹوں پر ہزاروں ہیں فسانے 
کسی گونگے کی میں تحریر بن کر لکھ رہاہوں 
تو اس انداز تخاطب میں بھی قوم اور وطن کیلئے اشک خوں کے قطروں کیساتھ دل کے جذبوں کی تڑپ موجود ہوتی ہے جوکچھ کرنے ،دیکھنے اوربڑھنے کا سندیسہ دیتی ہے اس میں محبت ،امن اور پیار کی خواہش ہوتی ہے اور ان سطور کے ہیں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس سارے سفر میں نااُمیدی کا اظہار کرنے کے باوجود بھی نااُمید نہیں ہوا اُس نے ہمیشہ بہتری کی دعا کی وہ ہمیشہ اس آس میں رہا 
خدا کبھی تو گل ایسی عطاکرے توفیق 
ہر اک برائی کا میں خود ہی سدِ باب کروں 
جب بھی کوئی ایسا وقت آیا کہ دکھ کے بادل چھانے لگے تو اس نے نگاہ آسمان پر مرتکز کی یہی وجہ ہے کہ وہ کل کو یعنی قوم کے مستقبل کو جن پر اُمید نظروں سے دیکھ رہا ہے اور سوچ رہاہے وہ ہر پاکستانی کی خواہش کا اظہار یہ ہے کہ جسے گل نے علامت بنا کر بڑے سادہ اور واضح الفاظ میں پیش کیا ہے ۔
فلک سے خوشبوبکھر رہی ہے ،زمیں کا چہرہ دمک رہا ہے 
سحر نمودار ہورہی ہے ،نقاب رُخ سے سِرک رہا ہے 
بظاہر یہ شعر نبیؐ کی آمد کا منظر پیش کر رہا ہے لیکن آپؐ کی موجودگی آج بھی توہم میں ہے ہم آپؐ کو خود سے کبھی الگ نہیں کرسکتے تو پھر نااُمید بھی نہیں ہوسکتے لہٰذا اس تمنا اور سہارے پر ہر غم ،ہر دکھ بھول کر خوشی کے نغمات گنگناتے ہیں اور بہتری کو تلاش کرتے ہیں اور یہی گل بخشالوی کا نقطہ نظر ہے وہ بھی اسی حقیقت پر نگاہیں جمائے اپنا کام کیے جارہا ہے اُسے یہ اُمید محکم ہے کہ 
مرے چہرے پہ اک گلنار سی توقیر آئے گی 
تری آنکھوں میں جب جاناں مری تصویر آئے گی 
کہااقبال سے ہم نے رہے گا جشن چہروں پر 
ہمارے خواب کی جب دیس میں تعبیر آئے گی
مہک محسوس دل نگری میں ہوگی رنگ نکھریں گے 
جواں جذبوں میں جب احساس کی تنویر آئے گی 

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے