عدالت کے اہم فیصلے

   مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ

 

حالیہ چند دنوں میں عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) اور عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) نے بڑے اہم فیصلے کیے ہیں، ان میں سے ایک فیصلہ غیر ضروری گرفتاری سے متعلق ہے، اس فیصلہ میں سپریم کورٹ کے دو معزز جج سنجے کشن کول اور ہریش کیش رائے کی بینچ نے گرفتاری سے متعلق دائر ایک عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے صاف کر دیا کہ فرد کی آزادی مقدم ہے، گرفتاری سے انسان کی عزت اورسماجی وقار کو غیر معمولی نقصان پہونچتا ہے، اس لیے پولیس کو صرف ان لوگوں کو گرفتار کرنا چاہیے جو شرمناک جرم کے مرتکب ہوئے ہوں اور اندیشہ ہو کہ وہ فرار ہو سکتے ہیں یا جرم کے ثبوت مٹانے اور گواہوں کو متاثر کرنے کاکام ان کے ذریعہ ہو سکتا ہے، عدالت نے واضح کیا ہے کہ گرفتار کرنے کی طاقت اور گرفتاری کی ضرورت میں فرق کیا جانا چاہیے، کسی کو گرفتار اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ آپ گرفتار کرنے پر قادر ہیں، صرف الزام متعین کرنے اور فرد جرم سے متعلق کاغذات تیار کرنے کے لیے کسی کو گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے۔

 معاملہ 2014ء کا ہے، دھوکہ دہی اور جعل سازی کے ایک مقدمہ میں اتر پردیش پولیس نے تراسی (83) لوگوں کو گرفتار کرلیا، ایک ملزم بچ گیا اور سات سال تک اس کی گرفتاری نہیں ہو سکی، جب فرد جرم پیش کرنے کا وقت آیا تو پولیس نے اسے گرفتار کرنا چاہا، ملزم نے الٰہ آباد ہائی کورٹ پر دستک لگائی، لیکن اسے وہاں سے راحت نہیں ملی، اس نے سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی، اور سپریم کورٹ نے اسے راحت دیدی۔

 اس سے قبل مارچ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ہی اپنے ایک فیصلہ میں کہا تھا کہ اف آئی آر درج ہوتے ہی من مانے انداز کی گرفتاری فرد کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس قسم کی گرفتاری سے بدعنوانی میں اضافہ ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کی نظر میں گرفتاری آخری کام ہے، جب کہ ہماری پولیس اف آئی آر کے اندراج کے بعد اسے پہلا کام قرار دیتی ہے، پولیس اور تھانہ کی اسی سوچ کے نتیجے میں گرفتاری کا خوف اس طرح ذہن ودماغ میں بس جاتا ہے کہ اس سے بچنے کے لیے نہ جانے اور کتنے گناہ کیے جاتے ہیں، مثال کے طور پر جہیز کے لیے عورتوں پر تشدد کے معاملات میں جو گرفتاریاں ہوتی ہیں، وہ ساٹھ فی صد معاملات میں غیر ضروری اور نا مناسب ہوا کرتی ہیں، اور بہت سارے بے گناہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور ہوتے ہیں، حالاں کہ ان کا قصور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا کہ جس خاندان میں یہ واقعہ ہوا ہے، وہ اس کے ایک فرد ہیں، یہ غیر ضروری طور پر گرفتار لوگ جیل پر بوجھ ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے 2ء43 فی صد جیل کی سہولتیں غیر ضروری افراد پر صرف ہوجاتی ہیں، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ نچلی عدالتیں اس معاملے میں حساس نہیں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کے فرائض پر بھی نظر ثانی کی جائے اور غیر ضروری گرفتاری کو قانونی طور پر ختم کیا جائے۔

 ایک دوسرے اہم فیصلے میں گجرات ہائی کورٹ نے مذہبی آزادی ایکٹ کے کئی دفعات کے نفاذ پر روک لگا دی ہے، ہائی کورٹ نے یہ بات صاف کر دی ہے کہ ایسی شادیاں جو بین المذاہب ہوں، لیکن اس میں جبر، لالچ یا دھوکہ دہی کا کوئی ثبوت نہیں پایا جائے ان پر یہ قانون لاگو نہیں ہوگا، جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس ویرن وشنو کی دورکنی بینچ نے اس قانون کی دفعہ 3

«
»

پہلا شہید صحافی۔۔۔علامہ محمد باقر مجتہد جعفری

آہ! استاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے