عزیز برنی
مائی لارڈ۔ بیحد ادب کے ساتھ میں معزز عدالت کی خدمت میں چند نکات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں قطعاً گریز نہیں کہ عدلیہ نے بہت خوبصورتی کے ساتھ ایک ایسا فیصلہ دیا ھے جو ملک کے امن و اتحاد و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لحاظ سے بہت مناسب،متوازن اور قابلِ تعریف ھے لیکن،یہ فیصلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریخ کے اوراق میں درج ہو گیا ھے۔آج کے حالات اس فیصلے پر زیادہ گفتگو کی اجازت نہیں دیتے لیکن آج سے 50 سال بعد جب نہ ہم ہونگے نہ آپ ہونگے یہ فیصلہ اس وقت بھی محفوظ ہوگا اور شاید زیرِ بحث بھی۔ممکن ھے میری تحریر بھی اس فیصلے کے حوالے سے محفوظ رہ جائے اس وقت رات کے 4 بجے ھیں اور 1045 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ میرے سامنے ہے ۔یقیناً یہ مختصر مضمون ناکافی ہوگا فیصلے کی تفصیلات کی روشنی میں اس تاریخ ساز فیصلے کے ہر پہلو کو سپردِ قلم کرنے میں لہٰذا ایک بار پھر مجھے حالاتِ حاضرہ اور زیرِ نظر فیصلے پر ایک کتاب لکھنا ہوگی۔
تاہم اس وقت جو نکات میرے سامنے ہیں وہ آپکے اور قانون کے رکھوالوں کے سامنے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
1949 میں مسجد یعنی بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنا غلط تھا بہ الفاظ دیگر عدالت تسلیم کرتی ھے کے وہ مسجد تھی اور مورتیاں رکھنا غلط تھا۔عدالت یہ بھی تسلیم کرتی ھے کہ 6 دسمبر 1992 کو مسجد کا شھید کیے جانا غلط تھا،دونوں غلطیوں کے لیے زمیدار کون اور کیا وہ قابلِ سزا نہیں کیونکہ یہ واقعات سینکڑوں بیگناہ لوگوں کے قتل کی وجہ بنے 1949 کی غلطی کے زمیندار یعنی مورتیاں رکھنے والے آج زندہ نہیں ہونگے لیکن 1992 کی غلطی کے زمیدار تو ابھی زندہ ھیں اور قتل و خون کی بڑی وجہ تھی برحال اس پر گفتگو آئندہ۔ ۔
اصل مدّعا یہ ھے جس طرف توجّہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں کہ اب فیصلہ مندر کی تعمیر کے حق میں ھے تو یقیناً اسی مقام پر مورتیاں ہی رکھی جائیگی اگر 1949میں یہ غلط تھا تو اب صحیح کیسے اور اگر اب صحیح تو اس وقت غلط کیسے۔
دوسری بات عدالتِ عالیہ کا فیصلہ رام جنم بھومی یعنی اسی مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کی قانونی اجازت ھے تو پھر 1992 میں مسجد شھید کرنا غلط کیسے کیونکہ مندر کی تعمیر تو مسجد کی شہادت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہاں بس اُس وقت مسجد شھید کرنے کی قانونی اجازت نہیں تھی اور اگر آج مسجد ہوتی تو اس فیصلے کے مطابق مسجد شھید کرنے کی اجازت ہوتی۔
کیا ان باتوں میں تضاد نہیں ھے یہ غور طلب پہلو ھے،ممکن ھے آج کے حالات میں ایسے تمام نکات پر گفتگو نہ ہو جو میرے زیرِ مطالعہ ھیں لیکن میری فکر آج سے 50 سال بعد عدلیہ کے وقار کی ھے،
معذرت عدالت کے فیصلے کو دل سے قبول کرنے کے باوجود جو فکری پہلو میرے سامنے آئے ادب کے ساتھ عدلیہ کی خدمت میں پیش کر دیے ۔
جواب دیں