’برے دن‘ میں ’اچھے دن! مٹھ اور مشن میں جذبہئ خیر سگالی کی پہل

عبدالعزیز
    کہتے ہیں کہ شر میں بھی خیر کا پہلو کبھی کبھی نکل آتا ہے۔ نریندر مودی نے ’اچھے دن‘ کی ہندستانیوں کو خوشخبری دی تھی لیکن اچھے دن کے بجائے برے دن آگئے۔ اور لوگ کہنے لگے کہ یہ اچھے دن آپ لے لیجئے اور میرے برے دن لوٹا دیجئے۔ برے دن اتنے بدتر ہوتے گئے کہ ہندستان کی ہر مظلوم اقلیت اور دلت طبقہ پریشان حال ہوگیا۔ شاہ ولی اللہ ؒنے پیش گوئی کی تھی کہ جب ہندستان میں انتہا پسند ہندوؤں کی حکومت ہوگی تو اسلام تیزی کے ساتھ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تیزی کے ساتھ پھیلنے لگے گا۔ اس کے کوئی آثار ابھی تک تو نظر نہیں آتے لیکن ایک بات ضرور ہوئی ہے کہ مختلف مذاہب کے مابین دوری کم ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ جو لوگ بھی مظلوم ہیں وہ ایک ساتھ مل بیٹھنے کیلئے تیار ہیں اور حالات سے اپنی استطاعت کے مطابق مقابلہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ’دھرم سنسد‘ اور ’سدبھاؤنا منچ‘ جیسی تنظیمیں قائم کی گئی ہیں تاکہ مختلف مذاہب کے مابین ہم آہنگی پیدا ہو۔
     راما کرشنا مشن اور راما کرشنا مٹھ کرسمس کے موقع پر پہلی بار کلکتہ کے آرک بشپ کو گول پارک میں ایک اجتماع کو خطاب کرنے کی دعوت دی ہے۔ جسے آرک بشپ تھومس ڈیسوزا نے خوش دلی کے ساتھ قبول کرلی ہے۔ آرک بشپ نے کہا ہے کہ آج دوسرے مذاہب کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور ہم آہنگی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چرچ آفیشیل نے کہا ہے کہ عام طور پر کرسمس کے موقع پر غیر معمولی مصروفیت کی وجہ سے باہر کے لوگوں کی دعوت قبول نہیں کی جاتی، لیکن حالات کے پیش نظر آرک بشپ نے اجتماع کو خطاب کرنے کی دعوت قبول کی ہے تاکہ ایک دوسرے کے اندر ہم آہنگی پیدا ہو اور پیار و امن کا پیغام عام ہو۔ اس وقت جبکہ ملک ناگہانی صورت حال سے گزر رہا ہے اور عقیدے اور مذہب کے نام پر ہنگامہ اور تشدد پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کرسمس کے تہوار کے موقع پر خیر سگالی کے جذبے کا اظہار بہت ہی قابل ستایش اور قابل تحسین ہے۔
     کہاجاتا ہے کہ شری راما کرشنا ایک رات کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جاگتے رہے اور بہت ہی سوچ وچار کے بعد انھوں نے سنیاس لیا۔ اسی روز رام کرشنا مٹھ اور رام کرشنا مشن کی تشکیل ہوئی۔ وہ دن کرسمس کے تہوار کا تھا۔ یہ بات راما کرشنا مشن کے راہبوں اور سنیاسیوں نے بیان کی ہے۔ 24دسمبر سے راما کرشنا مشن کے انسٹیٹیوٹ آف کلچر میں پروگرام شروع ہوگا اور 25 دسمبر کو آرک بشپ تھومس ڈیسوزا اور گول پارک انسٹیٹیوٹ کے سکریٹری سوامی سپرننداجلسے کو خطاب کریں گے۔ 
    یہ کلکتہ سے جو جذبہئ خیر سگالی کی شروعات ہوئی ہے اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ راما کرشنا مشن کی پورے ملک میں سوامی ویویکا نند اور راما کرشنا کی وجہ سے مقبولیت بھی ہے اور ہندوؤں کا اس ادارے پر اعتماد اور بھروسہ بھی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہر شہر اور ہر علاقہ میں جو بشپ ہوتے ہیں ان کو عیسائی کافی عزت دیتے ہیں اور ان کی باتوں کو مانتے ہیں۔ اس طرح اگر عیسائی مشنری اور راما کرشنا مٹھ کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور مسلمانوں کے پڑھے لکھے لوگوں کو اس میں شامل کرتے ہیں تو اس سے تعلقات میں خوشگواری پیدا ہوسکتی ہے اور فرقہ پرستی کو مات دی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کی تنظیموں میں جماعت اسلامی اور جمعیۃ علماء بہت پہلے سے ہی ہندو دھرم اور دیگر مذاہب کے سربراہوں کو عید ملن کے موقع پر اور سمپوزیم اور سیمینار میں اکثر و بیشتر دعوت دیتے رہے اور ان کی دعوت کو دیگر مذاہب کے سربراہ قبول کرتے رہے۔ جماعت اسلامی نے دھرم سنسد اور سدبھاؤنا منچ قائم کیا ہے جس میں ہر مذہب کے مذہبی پیشوا شامل ہیں۔ ریاستی اور ملکی دونوں سطحوں پر یہ منچ کام کر رہا ہے۔ گوپال کیتھری نے بھی مغربی بنگال میں ’ورلڈ برادر ہوڈ‘ (عالمی برادری) کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے جس میں گزشتہ چار پانچ سال سے راقم کو بھی دعوت دی جاتی ہے۔ اس تنظیم کی بعض تقریبات میں شری شری روی شنکر نے بھی شرکت کی ہے اور دیگر مذاہب مثلاً جینی، عیسائی، بودھ مت کے پیشوا شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں چھوٹے پیمانے پر یہ چیزیں ہوتی رہی ہیں اور ہورہی ہیں لیکن راما کرشنا مشن جیسے عالمی ادارے کا عیسائی مذہب کے رہنما کو کرسمس کے تہوار کے موقع پر اپنے یہاں دعوت دینا اور عیسائی مذہب کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنا ایک اچھا قدم ہے اور اس پیش قدمی کی ملک بھر میں ستائش ہونی چاہئے۔ 
    اسلام میں غیر مسلموں تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے اور اسلام اور مسلمانوں کے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کے ساتھ بہتر حکمت عملی کے ساتھ دعوت دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دعوتی کام بعض جماعتوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ بعض جماعتیں تو ایسی ہیں جو دعوت کا نام تو لیتی ہیں لیکن وہ اصلاح کا کام کرتی ہیں۔ ایسی اصلاحی جماعتیں جو مسلمانوں میں موجود ہیں ان کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ غیر مسلم دنیا کو خطاب کرسکیں۔ جماعت اسلامی میں ایسے لوگ ہیں جو عصر حاضر کے خیالات و افکار سے واقف ہوتے ہیں اور دینی علوم سے بھی آراستہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ غیر مسلم انسانیت کو خطاب کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ جماعت کے اندر لٹریچر اور رسائل و اخبارات جو ہندستان کی مختلف زبانوں میں نکالے جاتے ہیں اس سے بھی دعوتی کام میں مدد ملتی ہے۔ 
    1971ء میں مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کلکتہ تشریف لائے تھے تو ہم نے ان سے سوال کیا تھا کہ آپ جماعت اسلامی کی تشکیل کے ابتدائی دنوں میں رہے اور اس کے بانیوں میں سے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد جماعت سے نکل کر آپ تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئے۔ آخر دونوں جماعتوں میں کیا ایسی کمیاں اور خامیاں تھیں کہ آپ نے اس سے نکل کر ایک تیسری جماعت ’حلقہ ئ پیام انسانیت‘ کے نام سے قائم کی۔ جواب میں انھوں نے فرمایا کہ جہاں تک تبلیغی جماعت کا معاملہ ہے وہ غیر مسلم دنیا کو خطاب کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اور جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو اس میں سیاست زدگی آگئی ہے۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ جماعت اسلامی خدمت خلق کے کام کو بڑے پیمانے پر کرتی ہے اور اس کے ذریعے غیر مسلموں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تو موصوف نے کہاکہ انھوں نے بھی مشاہدہ کیا ہے، خاص طور پر سفر کے دوران جب وہ غیر مسلموں کے ساتھ مل جل کر کچھ کھاتے پیتے ہیں پھل وغیرہ یا کوئی اور چیز۔ یا مختلف اسٹیشنوں میں ان کے عقیدت مند ان کو پہنچاتے ہیں تو مل بانٹ کر کھاتے ہیں جس سے غیر مسلم قریب آجاتے ہیں اور ایک تعلق پیدا ہوجا تا ہے۔ تو ایک طرح سے خدمت خلق کے کاموں کے ذریعے غیر مسلموں تک پہنچنے کو معاون و مددگار سمجھا۔ انھوں نے بتایا کہ حلقہ پیام انسانیت کا مقصد غیر مسلم دنیا کو خطاب کرنا ہے اور مختلف مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کے عقیدت مند ہندستان کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے ذریعے کچھ نہ کچھ کام ہر علاقے میں ہوتا ہے لیکن حلقہ پیام انسانیت تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کا نہ مقابلہ کرسکتی ہے اور نہ اس کے برابر ہوسکتی ہے۔ کمیاں اور خامیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں لیکن ان دونوں جماعتوں کا نیٹ ورک ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ میں ان کی یونٹیں ہیں اس لئے ان جماعتوں سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ 
    جہاں تک تبلیغی جماعت کا معاملہ ہے بعض کوششوں کے باوجود وہ اپنا دائرہ بڑھانے سے قاصر ہے لیکن پاکستان میں تبلیغی جماعت کا دائرہ پہلے سے بڑھا ہے۔ اور ان کا دعوتی کام بھی بڑھا ہے۔ خاص طور پر مولانا طارق جمیل کی پرکشش شخصیت کی وجہ سے عوام و خواص اور یہاں تک کہ سرکاری محکموں کے ذمہ داروں میں بھی کام بڑھا ہے۔ غیر مسلموں کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے کہ ان کا کام کیا ہے۔ اگر ہندستان کی تبلیغی جماعت پاکستان کی تبلیغی جماعت کے نقش قدم پر چلے تو غیر مسلم دنیا کو بھی کچھ فائدہ پہنچ سکے۔ 
    تبلیغی جماعت کے جو بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں ان کو دعائیہ اجتماع سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ عبادت اور دعا کے موضوع کے سوا کوئی اور موضوع نہیں ہے۔ آج کل کی صورت حال میں بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد خطرے سے خالی نہیں ہے۔ خاص طور پر تبلیغی جماعت کے اجتماعات کے بارے میں غیر مسلم آبادی کو کوئی علم نہیں ہوتا۔ یہ اجتماعات کیوں ہورہے ہیں اور ان کے موضوعات کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور غیر مسلموں کی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ یہ اجتماعات ان کے خلاف ہورہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے بلند شہر میں لاکھوں لوگ جمع ہوئے۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے فساد کا منصوبہ بنایا تھا لیکن مقامی تھانے کے افسر سبودھ کمار سنگھ کی چوکسی اور سمجھانے بجھانے سے معاملہ آگے نہیں بڑھا۔ اس کوشش میں ان کو اپنی جان نچھاور کرنی پڑی۔ اس لئے اب ضروری ہے کہ چھوٹا اجتماع ہو یا بڑاہو اس میں غیر مسلموں کو بلایا جائے اور اجتماع سے پہلے جو موضوعات اور مقاصد ہوں ان سے غیر مسلم آبادی کو باخبر کیا جائے۔ اورایک پروگرام ضرور ایسا ہو جو مختلف مذاہب کے مابین خیر سگالی کا موضوع ہو اور اس میں دیگر مذاہب کے پیشوا کو ضرور دعوت دی جائے تاکہ فرقہ پرستوں کو غلط فہمی پھیلانے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔ 
    کل ہند مسلم مشاورت قائم ہوئی تھی کہ مختلف مذاہب کے درمیان خیر سگالی کا جذبہ پیدا کرے گی اور اس کا ابتدائی کام بہت ہی اچھا رہا لیکن اس وقت جبکہ حالات بہت نازک ہیں مسلم مجلس مشاورت کا کام مقدمہ بازی کی وجہ سے ٹھپ ہوگیا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلم مجلس مشاورت کی سرگرمیوں کو شروع کی جائے اور اس میں مسلمانوں کی جو مختلف تنظیمیں جو شامل ہیں ان کے سربراہوں کی کوششوں سے مقدمہ بازی سے مشاورت کو بچایا جائے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ جس طرح راما کرشنا مشن نے ایک بڑے کام کا آغاز کیا ہے، مسلم تنظیمیں بھی اس طرح کے بڑے کام کی شروعات کریں تاکہ فرقہ پرستی کا زہر ختم ہو اور پھیلنے سے رک جائے۔ فلمی فنکار نصیر الدین شاہ نے ایک بڑی سچی بات کہی ہے کہ زہر اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس کے جن کو بوتل میں بند کرنا مشکل ہے۔ اس سے بہت ملتی جلتی بات مشہور و معروف صحافی عارفہ خانم شیروانی نے کلکتہ کی ایک مجلس میں کہی ہے۔ انھوں نے کہاکہ ساڑھے چار سال میں اس قدر فرقہ پرستی اور نفرت پھیلا دی گئی ہے کہ اس کو ختم ہونے میں بیس سال سے بھی زیادہ صرف ہوسکتے ہیں۔ جس قدر نفرت کی جڑیں گہری ہوئی ہیں اسی قدر سخت ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔ جو کام کلکتہ سے شروع ہوا ہے اور جو کام مسلم تنظیمیں خیر سگالی اور بھائی چارگی کا کر رہی ہیں اسے تیز تر کرنا ہوگا  جبھی فرقہ پرستی اور نفرت انگیزی کے جن کو بوتل میں بند کیا جاسکتا ہے۔ (یو این این)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
یکم فروری 2020

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے