سابق وزیر اعظم اور ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں بہت ساری پہل اور فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس میں انہیں نافذ کرنے کی کوئی ترکیب ، ٹھوس ورکنگ پلان اور واضح ہدایات نہیں ہیں ۔انہوں نے دیہی علاقوں میں رہنے والوں اور غریب لوگوں کے لئے فلاحی منصوبوں کے لئے الاٹ کی گئی رقم کو بھی نا مناسب بتاتے ہوئے بجٹ کو مایوس کن بتایا ۔جبکہ تمام اپوزیشن رہنما ایک سر میں بجٹ کو کارپوریٹس کو فائدہ پہنچانے والا بتا رہے ہیں ۔
اچھے دنوں کا خواب سجائے نو جوان ، کسان ، مزدور ، دست کار ، ہاکر ، چھوٹے دکاندار ، غریب ، بے روزگار ، بے گھر ، ملازمین ، خواتین اور عام آدمی بجٹ سے نئی شروعات اور بہتر زندگی کی امید کررہے تھے ۔سوال یہ ہے کہ بجٹ عوام کی خواہشات کا احترام کرنے میں کس حد تک کامیاب ہو سکا ۔ سرسری طور پر دیکھنے میں یہ عام بجٹ سبھی طبقات کی فلاح و بہبود والا بجٹ لگتا ہے اس میں ملک کی شرح نمو بھی 7.5فیصد دکھائی گئی ہے ریل بجٹ میں پریمیم و تیز رفتار اور جدید سہولیات سے آراستہ ٹرینوں کی بات کی گئی ہے ترقی کی باتوں سے بے نیاز عام آدمی پیٹ میں روٹی ، سر پر چھت کا سایہ اور بچوں کو دنیا سے مقابلہ کرنے کے لئے تعلیم چاہتا ہے ۔وہ توقع کرتا ہے کہ سرکا ر اس کے مسائل کو حل کریگی ، مہنگائی کو کم کرے ، ایسی اقتصادی پالییس اختیار کرے جس سے معیشت پٹری پر آجائے ۔ ملک ایک بار پھر تیز رفتار معیشت کے طور پر دنیا کے نقشہ پر ابھرے ، روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے سامان مناسب قیمت پر دستیاب ہوں اور کم از کم قیمتوں میں غیر مناسب اضافہ نہ ہو ۔ اس لحاظ سے بجٹ امید افزاء نہیں ہے کیونکہ اس میں حال کی پریشانیوں کو در کرنے کے بجائے مستقبل کی فکر زیادہ ہے ۔
بجٹ میں شوسل سیکورٹی پر توجہ دیتے ہوئے پردھان منتری سرکچھا بیمہ یوجنا لائی گئی ہے اس کا پریمیم 12روپے سالانہ ہوگا ۔ حادثاتی موت کی صورت میں اس سے دو لاکھ روپے کی ادائیگی ہو سکے گی ۔اور پردھان منتری جیون جیوتی یوجنا کے تحت حادثاتی یا قدرتی موت کی صورت میں بیمہ دھاری کے پسماندگان کو دو لاکھ روپے مل سکیں گے اس اسکیم میں ایک روپیہ یومیہ سے بھی کم 330روپے کا سالانہ پریمیم ادا کیا جائے گا ۔ اٹل پینشن یوجنا میں درخواست گزار کو اس کے کنٹیبوشن اور مدت کے مطابق فائدہ دیا جائے گا اس اسکیم میں سرکار 50فیصد پریمیم اپنی طرف سے ادا کریگی یہ پریمیم ہر سال ایک ہزار روپے کی ادائیگی پر پانچ سال کے لئے دیا جائے گا یہ اسکیم ان تمام افراد کو دی جائے گی جو 31دسمبر 2015تک اپنا نام درج کرالیں گے یہ خوشگوار منگیری لال کے سپنے بظاہر بڑے لبھانے والے ہیں لیکن ان کی حصولیابی اتنی ہی دقت طلب ہے اس کے لئے دوڑتے دوڑتے جوتے گھس جائیں گے ۔
سرکا ر نے سو کنیا سمردھ یوجنا لانچ کی ہے اس پر خوب واہ واہی لوٹی جا رہی ہے ایسا لگ رہا ہے مانو لڑکیوں کی لاٹری لگ گئی ہو اس اسکیم میں ایک سے دس سال کی بیٹیوں کے لئے 21سال کی مدت کا کھاتہ کھولا جائے گا ۔اور اس میں 14برس تک پیسے بھرنے ہیں 15ویں سال سے 21سال تک آپ کو کچھ جمع نہیں کرنا پیسے آپ کو 21سال کے بعد ہی ملیں گے یعنی 14سال تک آپ کی رقم بینک میں ریکرینگ ڈیپازٹ کی طرح رہے گی اور 21ویں سال تک یعنی سات برس فکس ڈیپاذٹ کی طرح 14سال تک اگر ہم 12ہزار روپے سالانہ کسی بھی بنک میں 9فیصد سود کی شرح پر جمع کریں تو آپ کی کل رقم 433563 (168000اصل اور265563 مربع سود) اب اگر اس رقم کو بنک میں 9فیصد پر ہی سات سال کے لئے فکس ڈیپازٹ کردیا جائے تو مدت پوری ہونے پر 792570روپے ہ جائیں گے مودی سرکار کہہ رہی ہے کہ ہمیں ملک کی بیٹیوں کی فکر ہے ہم 21سال کے بعد 6لاکھ روپے دیں گے ۔اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس اسکیم سے کتنا فائدہ ہے ۔یا یہ بھی جن دھن کی طرح مودی اسٹائل میں مارکٹنگ ہے ۔
اس بار 7.9فیصد کے اضافہ کے ساتھ دفاعی بجٹ 40.07بلین ڈالر ہو گیا ہے ملک کا فوکس لڑاکو جہاز ، پانی کے جہاز اور آرٹلری پر ہے اسے بحر ہند میں اپنی طاقت کو بڑھا کر بھارت چین کے درمیان پیدا ہونے والے گیپ کو بھی کم کرنا ہے ۔ بجٹ کا تہائی حصہ افرادی قوت پر خرچ ہوگا اس کی وجہ سے اس سال ہتھیار نہیں خریدے جا سکیں گے بین الاقوامی بازار میں بھارت ہتھیاروں و فاعی ساز سامان کا بڑا خریدار ہے ملک کی آمدنی کا بڑا حصہ دفاع کی نذر ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے عوامی فلاح کے کئی کام پیچھے رہ جاتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی میں بدلاؤ کرکے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر اور جدید جہاز و ہتھیار ملک میں تیار کرکے دفاعی بجٹ میں کمی کی جا سکتی ہے اس کیلئے اپنی گھریلو کمپنیوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔
جہاں دفاعی بجٹ میں اضافہ درج ہوا ہے وہیں تعلیم کیلئے دی جانے والی رقم میں کٹوتی کی گئی ہے ۔ پچھلے سال کے مقابلہ تعلیم پر 13ہزار کروڑ روپے کم خرچ ہوں گے اس کی بڑی وجہ ریاستوں کے ساتھ ٹیکسوں کی ساجیداری نظام کو بتایا جا رہا ہے 16فیصد کی یہ اب تک کی سب سے بڑی کٹوتی ہے جس کا سیدھا اثر اسکولی تعلیم پر پڑیگا ۔ ہر بلاک میں ایک آدرش اسکول کھولا جانا تھا جس سے فی الحال سرکار نے ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔ پچھلے بجٹ میں تعلیم کو 55ہزار کروڑ روپے دےئے گئے تھے جو گھٹ کر 42 ہزار کروڑ روپے رہ گئے ہیں اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں معمولی کٹوتی کی گئی ہے اس رقم کو 28ہزار کروڑ سے کم کرکے 27ہزار کروڑ کردیا گیا ہے مستقبل کے چیلنجوں کا بچے تعلیم کے ذریعہ کی مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن سرکار نے تعلیم کے بجٹ میں کمی کرکے اپنی منشاء ظاہر کردی ہے ۔جبکہ وزارت تعلیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اسکیموں کے بجٹ میں اضافہ کے بجائے رقم کے بہتر استعمال پر زور دیا گیا ہے ادھر سرو سکچھا ابھیان میں ریاستوں کی حصہ داری بڑھائی جا رہی ہے منصوبہ ساز کمیشن کی سفارش کے مطابق مرکز اپنے ٹیکس کی آمدنی سے ریاستوں کا دس فیصد حصہ بڑھا رہا ہے ۔
ملازمیں و عام ٹیکس دہندگان کو فی الحال راحت ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی یہ مانا جا رہا تھا کہ ٹیکس کی مد اور سلیب میں تبدیلی ہوگی لیکن بجٹ سے مڈل کلاس ہو گہری مایوسی ہاتھ آئی ہے اسے یہ نصیحت دی گئی ہے کہ سرمایا کاری کرو پیسے بچاؤ ۔ اب دھائی لاکھ تک کی آمدنی میں چھوٹ کے علاوہ مختلف رعایتوں کے ذریعہ 444200روپے تک کی آمدنی پر ٹیکس میں رعایت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے جیبیں ڈھیلی کرنا پڑیں گی ۔ ملازمین کو ساتویں پے کمیشن کے لئے اگلے سال تک انتظار کرنا ہوگا ۔البتہ ٹرانسپورٹ الانس کو 800سے بڑھا کر 1600فی ماہ کر دیا گیا ہے سال یہ ہے کہ متوسط طبقہ ٹیکس بچانے کے لئے سرکایہ کاری کرے یا اپنی یا اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرے ؟ اوپر سے سروس ٹیکس باڈر ٹیکس اور ایسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرکے عام آدمی پر مہنگائی تھوپ دی گئی ہے ۔دوسری طرف سرکار اور اس کے معاونین بجٹ کو غریبوں کا بجٹ کہتے نہیں تھک رہے ۔
نیشنل اسکل مشن اور منزل اسکیم کا اعلان ایک اچھی پہل ہے اسل مشن وزات برائے اسکل ڈیولپمنٹ اینڈ انٹر پنورشپ کے تحت شروع کیا جائے گا یہ مشن مختلف وزارتوں کے تحت کام میں آنے والے افراد میں ماہرانہ صلاحیتوں کو فروغ دیگا جبکہ منزل اسکیم کے تحت مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو اسکل ٹریننگ دی جائے گی اس سے نو جوانوں میں روز گار کے مواقع بڑھیں گے بجٹ میں غیر روایتی ذمرے کے پانچ کروڑ 80لاکھ چھوٹے و کٹور اڈھیوگو ں کے لئے رقومات مہیا کرانے کا نظم کیا گیا ہے چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والوں کو بنک سے قرض نہیں ملتا انہیں مہاجنوں سے اونچی شرح سود پر قرض لینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے یہ ادھوگ دھندے مر جاتے ہیں جبکہ ان کاموں میں بارہ کروڑ 80لاکھ روز گار کے مواقع موجود ہیں اور اس میں کام کرنے والے دو تہائی دلت و پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ملک کی معیشت کے لئے اتنے اہم زمرے کو صرف چار فیصد حصہ کو بنکوں سے قرض مل پاتا ہے جبکہ روایتی کاروباریوں کو بنک سے قرض لینے میں کوئی دقت نہیں آتی 1991کے بعد سے اس زمرے نے لگ بھگ 54لاکھ کروڑ کا قرض لیا لیکن پچھلی دو دہائی میں صرف ایک دو کروڑ لوگوں کے لئے ہی روز گار کا بندوبست ہو سکا در اصل اس بجٹ میں روایتی و غیر روایتی ادھیوگوں اور سروے سیکٹر و مینو فیکچرنگ سیکٹر میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ساتھ ہی یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ ہر ملک کی ترقی کا ماڈل الگ ہوگا ۔جو وہاں کے وسائل کے بہتر استعمال کے نتیجہ میں وجود میں آئے ۔
زیادہ تر بنکوں کے ذمہ دار بجٹ سے فکسکل ڈیفیسٹ fiscal Deficitبڑھنے ، جی ایس ٹی اور پبلک انسویسمنٹ کی کوشش سے بہتری کی امید کررہے ہیں ان کا ماننا ہے کہ جی اے اے آر ایک مثبت عمل ہے اس سے رقم کا بہاؤ بڑھے گا غیر ملکی کمپنیوں کے معاملہ میں سر چارج میں اضافہ نہ کرکے سرکار کو جو انویسمنٹ آئے وہ واپس نہ جائے اس میں کامیابی ملے گی ۔ بڑی کمپنیوں (کارپوریٹس ) اور صنعتوں کا ٹیکس 30فیصد سے گھٹا کر 25فیصد کرنے و ویلتھ ٹیکس ہٹانے سے گھریلو یا ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے کی دعوت دی گئی ہے اسی طرح گولڈ بانڈ کے ذریعہ گھر میں بند سونے کو باہر نکالنے کا منصوبہ ہے بھارت میں سونے کا استعمال پوری دنیا کا چوتھا حصہ ہے گولڈ بانڈ کے ذریعہ جہاں لوگ اپنے سونے کا اقتصادی فائدہ لے سکیں گے وہیں بھارت گولڈ کے بفر اسٹا ک سے بین الاقوامی سطح پر سونے عالمی بازار میں جگہ بنا سکے گا ۔
ریاستوں کی زیادہ مدد کا اعلان کرکے بجٹ پر سیاست کا رنگ بھی چڑھایا گیا ہے بہار بنگال میں اسمبلی الیکشن ہونے ہیں وہاں ممتا ، نتیش اور لالو کی مضبوط جڑیں ہیں جسے مودی لہر فی الحال ہلا نہیں سکتی اور دہلی کے الیکشن نے بھی ثابت کردیا ہے کہ بھاشن کے بجائے راشن کی سیاست کی ہاوی رہے گی ۔ سرکار نے ہر گاؤں میں صحت کی سہولت ، ہر گھر بجلی پہچانے کا وعدہ غریبی ختم کرنے اور کم آمدنی والے بے گھر لوگوں کو 22لاکھ مکان 2022 تک دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری طرف گڈس و سروس ٹیکس کو جلد لاگو کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ ادیوگ پتیوں کی نظر سے یہ اچھا ہے لیکن ریاستوں کی خود مختیاری مرکز کے ذریعہ مال پر ٹیکس مقرر کرنے سے اثر پڑیگا ۔ ابھی تک ریاستیں طے کرتی تھیں کہ ڈیژل پیٹرول پر کتنا ٹیکس لگانا ہے ۔ ڈیزائنر جوتوں پر کتنا اور ہوائی چپل پر کتنا ، گڈس و سروس ٹیکس لاگو ہونے کے بعد ریاستیں یہ نہیں کرسکیں گی اس سے سیدھے طور پر غریب و کم آمدنی والے عام آدمی متاثر ہوگا اس قدم سے سرکار نے یہ واضح کردیا ہے کہ اسے عام آدمی سے زیادہ خاص کی فکر ہے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ روینیو خواص ہی فراہم کرتے ہیں ۔
بجٹ کو فکس fixedرکھنے کے بجائے لچک دار (Flexible/Dynamic) رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اس طرح کے بجٹ میں موٹی موٹی مدیں طے کی جاتی ہیں ضرورت کے لحاظ سے دوسری مدوں میں رقم کم یا زیادہ خرچ کرنے کی گنجائش رہتی ہے ۔ بجٹ کے اس مختصر جائزے سے ایسا لگ رہا ہے کہ عام آدمی کی خواہشات انقریب پوری ہونے والی نہیں ہیں کیونکہ بجٹ میں عوام کو موجودہ بدحالی کی دلدل سے نکالنے کے بجائے مستقبل کا حسین خواب دکھایا گیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی کو اچھے دنوں کے لئے کتنا انتظار کرنا پڑے گا اس کی اچھے دنوں کی تلاش کب پوری ہوگی ۔ہوگی بھی یا نہیں ۔
جواب دیں