عبد اللہ دامودی، پیار ومحبت كا متوالا

بقلم : محمد نعمان اكرمی ندوی

( رفیقِ فكر وخبر بھٹكل )

ہم اس مشہور ومعروف، ہر دلعزیز سماجی كار كن كے شكر گزار ہیں، جنہوں نے جی جان سے اپنے وطنِ عزیز كی خدمت كی، جزاہ اللہ خیر الجزاء۔ نام عبد اللہ تھا، تو وہ اپنے نام كی معنویت كی طرح ہر بندہ خدا كے كام آنے كی كوشش كرتے تھے،وہ زندگی كےہر موڑ پر ہمیشہ خوش رہنے اور خوش ركھنے كا ہنر جانتے تھے، وہ حد درجہ متانت اور پر كشش شخصیت كے مالك تھے، اسی پر كشش ذات اور شتصی كا عكس ونقش وطن كے اداروں كے ہر در و دیوار پر عموما اور ماضی كی تحریكِ اسلامی،ادارہ تربیتِ اخوان اور حال كی مجلسِ اصلاح وتنظیم پر بالخصوص منقش ہے، وہ قومِ نوائط كے انتہائی قابل و لائق ، فائق اور ذہین لوگوں میں سے ایك تھے، اگر چہ قوم نے ان كی قائدانہ صلاحیتوں كا كبھی كھل كر اعتراف نہیں كیا،مگر انتظامی اموراور زبان وادب كے حوالے سے ان كی صلاحیتوں كا استعمال ہمیشہ كیا،نا قدرئ قوم وو طن كا احساس ان كو اپنی زندگی كے آخری مرحلہ میں ہوا، تو مادرِ حوا اسلامك اسكول كی صورت میں ظاہر ہوا۔
ہمارا ان كا عہدِ ربط تیس سال كے زمانہ پر محیط ہے اور یہ ربط ان كا دوسروں كے ساتھ بھی ایسا ہی تھا ،جو كسی بڑے اور چھوٹے طالبِ علم اور مشفق استاذ،روحانی باپ اور اطاعت گزار بیٹے ، فكر مند ذمہ دار اور جفا كش ملازم كے درمیان ہوتا ہے، اس طویل زمانئہ ربط اور اس میں پیش آئے احوال وكوائف ، حالات ومشاہدات، حوادث اور واقعات، مجالس اور محفلیں، جلسے اور جلوس، صد سالہ جشن اور تقریبات، بے پناہ محنت اور بے مثال كار كردگی، معتدل اور متوازن زوایئہ نگاہ، فكر ونظر كی وسعتیں ، دلنشیں اندازِ كلام، با وقار روش اور دیگر سرگرمیوں اور خدمات كے پیشِ نظر ہم بجا طور پر یہ كہہ سكتے ہیں كہ عبد اللہ دامودی ہر حلقہ میں نمایاں، ہر طبقہ فكر میں ممتاز اور ہر مكتبِ خیال میں مقبول و محترم رہے، وہ جب بھی اور جس كسی سے ملتے بے انتہا خلوص اور محبت سے ملتے اور اپنے اسی مخصوص لب ولہجہ سے گفتگو فرماتے جو ان كا خود اپنا ایجاد كردہ منفرد اور انمول لب ولہجہ ہے، جس كے بعد ملنے والا اثر وقبول كے تاثرات اور پیار ومحبت اور خلوص وچاہت كے جذبات سے معمور ہو جاتا ، ان كی سب سے بڑی خوبی تھی كہ وہ اپنے ملاقاتیوں میں كبھی اختلافِ فكر ونظر كی كشائش كو درمیان میں نہیں لاتے، جتنااپنے ہم عصر علمائے كرام كا احترام كرتے اسی قدر اپنے چھوٹوں كی بھی ہمت افزائی فرماتے، وہ جس طرح ٹہر ٹہر كر الفاظ ومعانی میں محبتوں كا رس گھول كر میٹھا میٹھا بولتے تھے، اسی طرح ٹہر ٹہر كر چھوٹے چھوٹے جملوں كو پیار ومحبت كی روشنائی سے لكھتے تھے، ان كے بولنے سے آدمی كے دل میں جس طرح خوشی ومحبت كے جذبات امنڈ آتے، ٹھیك اسی طرح ان كی اندازِ تحریر كے مطالعہ كے بعد بھی آدمی انہی احساسات كو محسوس كرنے لگتا ۔ 
ہماری ان سے بہت ساری یادیں وابستہ ہیں، اور اتفاق سے ساری یادیں زبان وادب ، علم وتعلیم ، مشقِ سخن اور خدمتِ لوح قلم سے جڑی ہیں ، پہلی جو ہمارے زمانہ طالبِ علمی میں درجہ ششم عربی كے ایك مشاعرہ كی نشست اور ہفتم عربی میں جامعہ كے پہلے عوامی مقابلہ قرأت منعقدہ پبلك چبوترے سے جڑی ہے ۔ تو دوسری یاد ندوہ سے فراغت كے بعد خلیفہ جامع محلہ كے ۱۹۹۳ كے مشاعرہ اور اس كے بعدالاتحاد میں لكھے گئے مضامین سے جڑی ہے، پھر كانوینٹ سے جڑے واقعات میں مضامین اور اس كے پس منظر میں تبصروں پر ان كی بے باك اور مخلصانہ رائے سے جڑی ہے ۔ پھر ہمارا اور ہمارے دوست فكر وخبر كے ایڈیٹر انچیف سید ہاشم ندوی كا ذوقِ ادب اور شوقِ مطالعہ دیكھ كر تحریكِ اسلامی كے حلقہ ادب سے جڑنے كی ترغیب وتلقین بلكہ باصرار اور مكمل جد وجہد محترم جناب قادر میراں صاحب پٹیل اور جناب سید شكیل صاحب سے مل كر سرپرستوں سے بات چیت تك كی یادیں آج بھی پرانی ہونے كے با وجود تازہ ہیں ، اور ذہن ودماغ میں گردش كر رہی ہیں ۔ پھر اس كے بعد آخری مرتبہ تنظیم كے صد سالہ جشن میں اس كی تیاریوں كے سلسلے میں لكھی گئی چھوٹی بڑی تحریروں اور اس سلسلہ میں آئے ہوئے مضامین ، مراسلات، نثر و نظم، قرار دادیں ، استقبالیہ اور نظامت میں كام آنے والے جملے اور اشعار وغیرہ كے لیے ان كا بار بار ہم جیسے كوتاہ علموں اور نا آشنائے علم و ادب اور نو آزمودہ زبان وسخن كے لیے سرمایہ عز وشرف ہے ۔
دوسروں كی صلاحیتوں اور كمالات كا اعتراف كرنے والا عبد اللہ دامودی ،اپنی عزتِ نفس كو مار كر دوسروں كو اعزاز دینے والا عبد اللہ دامودی، اپنی ذات اور وجود سے نظریں ہٹا كر اوروں كی خوبیوں كو دھونڈنے والا عبد اللہ دامودی، خود نمائی اور خود سری سے دور رہ كر، یا خود كو كوتاہ نظر سمجھ كرا پنے سے كم قدر و كم مایہ، كم نظر و كم قامت كو نمایاں كرنے والا عبد اللہ دامودی، مسكراتی آنكھوں اور تبسم ریز لبوں كے ساتھ اپنائیت اور خلوص ومحبت كا برتاؤ كرنے والا عبد اللہ دامودی، میٹھی پیاری اردو زبان كو اپنے میٹھے پیارے بول سے بولنے والا عبد اللہ دامودی آج سب كی آنكھوں كو اشكبار، اپنے چاہنے والوں كو دلفگار ، سب اداروں كو سوگوار اور اپنے سارے متعلقین ، خویش واقارب اور اہل وعیال كو غم گسار كر گیا ۔ مادرِ حواء تو خود ان كا اپنا خونِ جگر سے سینچا ہوا چمن تھا جو یقینا اپنے پدرِمشفق سے محروم ہو كر یتیم ہو گیا، تو شمس بھی اپنے مخلص كاركن ، انجمن اپنےركنِ ركین، تنظیم اپنے فعال اور سر گرم ممبر، جماعت المسلمین اپنے خدمت گزار ،جامعہ اپنے محبِ مكر م اور دوسرے ادارے اپنے معاون اور مدد گار سے محروم ہو گیا ، اللہ رب العزت ان سب كو نعم البدل عطا فرمائے گا ، مگر عبد اللہ دامودی جیسے لوگ 
ڈھونڈو گے اگر ملكوں ملكوں ، ملنے كے نہیں نایاب ہیں ہم كے مصداق بنیں گے ۔
www.fikrokhabar.com

بتاریخ ، یومِ وفات : ۔ ۱۹/ ذو القعدہ ۱۴۳۹ ہجری ۔ مطابق : یكم اگست 2018 عیسوی

«
»

امت مسلمہ کا تحفظحالات حاضرہ کے تناظر میں

ڈیموکریسی بمقابلہ موبوکریسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے