عبدالمتین خاںؒ : چند نقوش و تأثرات

سب خیر یت تو ہے؟ گھبراہٹ میں سلام کر نا بھی بھول گیا۔ بھراتی ہوئی آواز میں ابانے کہاکہ عبدالمتین بابو کا انتقال ہو گیا ہے،یہ سنتے ہی میں نے فون رکھ دیا،دل ودماغ دونوں مجروح ہو گیا۔یقین نہیں آتا تھا کہ بڑے ماموں جناب عبد المتین صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ابھی ہفتہ عشرہ پہلے کی با ت ہے۔ وہ پٹنہ آئے ہوئے تھے کئی رو ز قیام فرمایا جس دن آئے تھے تھوڑ ی مشقت بھری انتظار کے بعد جب مجھ سے ملے تواپنے مخصو ص اندازمیں ہنستے ہوئے جملے کس رہے تھے، بالکل ترو تازہ اورتندر ست تھے، کہیں سے کسی بیماری یا نقاہت کا کوئی اثر نہ تھا۔ سفر کی تھکا وٹ، معمولی کمزوری اور بیماری کو وہ اپنی خوشی طبعی اور بذلہ سنجی سے اپنے او پر غالب نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہنستا، بو لتا ،مسکرا تا چہرہ، دوڑتا ،بھاگتا اور تر وتازہ و تو انا شخص جب اچانک منظرسے غائب ہو جائے تو دل کیسے مانے اور کیو نکر یقین آئے ؟رات جو ں تو ں بسر کی ، فجر کی نما ز پڑ ھکر آخر ی دیدار اور جنا زہ کی نماز میں شرکت کے لئے گھر کیلئے روانہ ہو گیا میرے ساتھ چھوٹے بھائی عزیری بابو ابوالکلام و با بو مظہر الاسلام بھی تھے۔ گھر پہنچا تو دروازہ پر بھیڑ امڈی ہوئی تھی، سبھو ں کے چہرے اترے ہوئے اور آنکھیں اشکبار تھیں۔
بعد میں تفصیلات کا جو علم ہوا اس کے مطابق وہ تین چار دنو ں سے بخارمیں مبتلا تھے، گھر پر ہی دوا علاج ہورہا تھا۔ 25/ستمبر کی دو پہر کو ڈاکٹر نے دربھنگہ لے جانے کا مشورہ دیا، تقریباً چار بجے ان کو در بھنگہ کیلئے لے جا یا گیا۔ پولس اسٹیشن جہا ں سے بس کھلتی ہے، کوسی باندھ کہلاتا ۔ والد محترم جناب عبد السلام صاحب اور اظہاراحمد صاحب وہا ں مو جو د تھے ان سے ملاقات ہوئی، عصر کی نماز وہیں سبھو ں نے ساتھ اداکی ۔ والد صاحب نے ان سے کہا کہ آپ بہت اچھے ہیں ، گھبرا نے کی کوئی بات نہیں ہے، چلئے کر ت پور ہی میں ڈاکٹر سے دکھلا دیتے ہیں۔ کہنے لگے گھر سے تیار ہو کر نکلے ہیں دربھنگہ ہی جانے دیجئے۔ ساتھ میں ان کی اہلیہ، لڑ کا سرور علی، میرے پھوپھا زاد بھائی گلاب اور مولا نا آفتاب احمد تھے۔ بظاہر وہ بہت ٹھیک ٹھاک تھے، راستہ میں دو جگہ گاڑی رکواکر انہو ں نے خود چائے پی اور سبھو ں کوپلوائی۔ شام سات بجے دربھنگہ پہنچے قدرت کا کر شمہ جس ہا سپٹل میں ذہن بنا کر گئے تھے وہا ں ڈاکٹر موجود نہیں تھے، اور جہا ں ڈاکٹر مو جو دتھے وہا ں کوئی بیڈ خالی نہیں تھا۔ با لآخرمیٹرو ہا سپیٹل میں بھرتی کر ا یا گیا، ڈاکٹر نے دیکھا ، دواتجویز کی، پانی چڑھایا جا نے لگا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہورہاتھا، ہو ش وہواش پوری طر ح قابو میں تھا، بے چینی ذرا بڑھی ہوئی تھی، تکلیف کی وجہ کر بار با ر اٹھتے اور پھر بیٹھ جاتے۔ساڑھے بارہ بجے رات میں استنجہ کی ضروت محسوس ہوئی، باتھ روم گئے، لیکن ،لیکن استنجہ نہیں ہو سکا ،گر گئے، پکڑ کر بیڈ پرلایا گیا اور جب نبض کو ٹٹو لا گیا تو روح قفس عنصری سے پر واز کرچکی تھی بے قرار جسم کو قرار آچکا تھا۔ ہاسپٹیل اور ڈاکٹر ی کا روائی کے بعد رات ہی لا ش کو لانے کاانتظام کیاگیا، آبائی وطن جمالپور صبح سادق کے وقت ایمبولینس پہنچا، بعد نما ز مغرب مو لانا قاری ابرار احمدصاحب ، امام و خطیب جامع مسجد باقرگنج دربھنگہ نے جنا زہ کی نماز پڑ ھائی اور ہزارو ں سو گوارو ں کی مو جو د گی میں سپرد خاک ہو ئے ۔ قرب وجوار اور دو سرے گاؤ ں کے لوگو ں نے بڑی تعداد میں جنازے کی نما ز میں شرکت کی ، پوری عید گاہ نما زیو ں سے بھری ہو ئی تھی یہ ان کی محبوبیت اورہردل عزیز ی کا مظہر تھا۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رشتہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ما مو ں جان جناب عبدالمتین خان صاحب 8/ فر وری 1950 کو پیدائے۔پانچ بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے بڑے تھے،میری والدہ بہنوں میں بڑی ہیں ،دوسری بہن عاجزہ خاتون 2005 میں صرف 45 سال کی عمر میں برین ہمرج کی وجہ کر انتقال کر گئیں،میرے ناناامین حسین خان مرحوم صاحب ثروت لو گوں میں شمار ہو تے تھے، ان کے اردگرد ہر وقت لو گوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی،کلکتہ میں نوکر ی کر تے تھے ،بعد میں مستقل گھر ہی رہنے لگے اور یہیں تجارت شروع کی ،کپڑے اور دوا کی دکا ن تھی،بچپن گاؤں کے ما حول میں گذرا ،بڑے ناز ونعم میں پلے، گھر کی پہلی اولاد تھی، لا ڈ پیار محبت ملا ،ابتدائی تعلیم گھر پر رہ کر حاصل کی ،پھر جامعہ رحمانی مونگیر چلے گئے، مگر عالمیت کا کو رس مکمل نہ کر سکے۔ بعد ازاں دیوبند کا رخ کیا اور طبیہ کالج دیو بند میں داخلہ لیا ۔ادھر اسکول سے بھی میٹر ک اور ا نٹر کا امتحان پاس کیا ۔جب رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے تو گھر ہی پر رہنے لگے۔اس وقت تک گاؤں کے زمیندار گھرانوں میں سرکار ی نو کر ی کو معیوب سمجھا جا تا تھا ۔والد کے ساتھ دوا کی دکان پر رہنے لگے اور پریکٹس بھی شر وع کر دی۔1986 میں نانا جان کا انتقال ہو گیا ۔اندر سے ٹو ٹ گئے ،کام کرنے سے جی گھبر انے لگا ،نتیجہ یہ ہو ا کہ دکان بند ہو گئی ،نشیب وفراز سے گذرے، حالات وحوادث کے شکا رہوئے ،مگر صبر وضبط سے کام لیتے رہے ،عزم وحوصلہ کے مضبوط اور حالات سے ٹکڑلینے کی صلا حیت ان کے اندر تھی ،مشکل حالات میں اپنی راہ بنا لینا ان کو خوب آتاتھا ،ٹو ٹ کر اور بکھر اور مضبوط ہوئے ۔جفا کش تھے ،ہمت ہار نا نہیں جانتے تھے۔نرم وگرم انسان تھے ،نہ سختی کم ہو تی اور نہ نرمی کم ہو تی۔ سچائی کے اظہار میں بہت کم دبنے والے تھے ،گرج کر بولتے، بارعب انداز میں گفتگو کر تے ،لہجہ میں سختی تھی اور اس سختی کا شکار اپنے اور پرائے سبھی ہو تے۔
مرحوم صوم وصلاۃکے بہت پابند اوردیندار انسان تھے، علم دوست، ادب نواز اور عالموں کے قدرواں تھے ۔خاندانی روایت اور اخلاقی قدروں کے حامل ۔تہذیب وشرافت اور اخلاق ومحبت جو ہمارے خاندان کا امتیاز رہاہے اس کا وافر حصہ ان کو ملا تھا۔بڑے بزرگوں کا احترام کر تے اور عزیزوں پر شفقت کی نظر ۔گوکہ ان کے رعب کی وجہہ کر خاندان کے بچے کم ہی ان سے بے تکلف ہو تے ۔مجھے بے حد عزیز رکھتے ۔بسا اوقات احترام میں تکلف برتتے۔ مجھے ہمیشہ’’ آپ‘‘ سے خطا ب کر تے ۔بہت سارے امور میں مجھ سے صلاح ومشورہ لیتے کوئی ایسی بات ہو جا تی تو کٹا چٹا بھی سنا نے سے دریغ نہیں کر تے ،لیکن ان کی شفقت کبھی کم نہ ہو تی ۔میرا مضمون جب بھی کسی اخبار میں پڑھتے تو فون کر کے مبارکباد دیتے ،حوصلہ افزائی کر تے ،ملا قات ہو نے پر اس کا ذکر کرتے ۔2011 میں عوامی اردو نفا ذ کمیٹی نے مجھے ایوارڈ سے نوازا،اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر بہت خوش ہوئے ،حسن اتفاق جس روز مجھے یہ ایوارڈ ملنا تھا اس دن آپ پٹنہ میں ہی تھے ۔پر وگرام میں شریک ہو ئے ،اپنے خاندان کے ایک عزیز کی عزت افزائی کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے ،مجھے پانچ سو روپیہ کا نوٹ بطور حوصلہ افزائی دیا اور کہاکہ صاحب (میرا عرفی نام)دوسرے لو گ آپ کو نوازیں اپنوں کا بھی تو کچھ حق بنتا ہے ۔میری کتاب’’رہنمائے صحافت‘‘جب چھپ کر منظر عام پر آئی اور ایک نسخہ میں نے ان کو دیا تو بڑے تحسین آمیز کلمات کہے،مبارکباد دی ،حوصلہ بڑھایا ،اب ایسے مخلص اور بے لو ث انسان کہاں ملتے ہیں؟۔اب انہیں ڈھونڈوچراغ رخ زیبہ لیکر
مرحوم ملی وسماجی انسان تھے ۔عوام وخواص سے ان کا تعلق تھا ،ہر طبقے کے لو گ ان سے متعارف تھے، علاقے کے باعزت اور با اثر لو گوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔علاقائی اور صوبائی سیاست سے دلچسپی تھی، اس میں سر گرم رول ادا کر تے، سیاست کے سر دوگرم سے آگاہ اور مردم شناس تھے۔ اخبار بینی کا شوق تھا ،مطالعہ سے دلچسپی تھی، مطالعہ وسیع تھا، اردو اورفارسی کے بہت سے اشعار یاد تھے ۔بہت سا رے محاورے زبان زد تھے اور دوران گفتگو بہت سلیقگی سے اس کا استعمال کر تے ۔سفر سے ایک گونہ انس تھا ،باہر جانے میں ذرہ برابر ہچکچا تے نہیں ،ہفتہ میں تین چار دن گھر سے باہر ہی رہتے، اخیر دنوں تک سفر کا یہ انہما ک قائم رہا۔ایسی مستعدی ،بلند ہمتی اور مرد انگی بہت کم لو گوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کوئی تقریب ہو ،جلسہ ہو ،میٹنگ ہو ،کسی کا انتقال ہو گیا ہو، خبرملتی اور فوراًروانہ ہو جا تے ۔
پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار لڑ کے اوردولڑکیاں ہیں ۔بچوں کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا ۔دونوں بچیاں شادی شدہ ہیں ۔بڑے لڑکے اشرف علی بھی شادی شدہ ہیں ۔دوسرے لڑکے اسجد علی برسر روزگار ہیں ۔تیسرا سرور علی گھر کی ذمہ داریوں کی دیکھ ریکھ کر تا ہے اورسب سے چھوٹا لڑکا امجد علی حافظ قرآن ہے ۔اللہ ان سبھوں کو صبر جمیل کی توفیق بخشے ، اپنی نگہداشت میں رکھے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے