یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قرآن پاک کسی مخصوص قوم کے لیے ہدایت کا منبع نہیں بلکہ تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لیے سرچشمۂ بصیرت و ہدایت ہے۔ ساری کائنات ، ساری مخلوقات اور ساری انسانیت اللہ کی ہے۔ اس نے وضاحت کردی ہے کہ دنیا میں جس عقل و شعور سے انسانی اختیارات کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے وہ پوری طرح ودیعت کردی گئی ہے۔ جو قوم ان ہدایات سے استفادہ کرتی ہے اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرسکتی ہے۔ اس ضمن میں سورۂ فیل میں ابابیلوں کے ذریعہ طاغوتی طاقت کو تہس نہس کردینے کی تفصیل کسی تعارف کی محتاج نہیں، لیکن جس قوم کو اس واقعہ سے سبق لے کر کبرونخوت کا سرکچلنا تھا اسی قوم نے خود کو عاجز سمجھا اور پورے واقعہ کو معجزہ سمجھ کر خود کو لاتعلق کرلیا۔ قرآن پاک مستقل طور پر مطالبہ ہی نہیں تقاضا کرتا ہے کہ اس کی علامات پر غور و فکر کیا جائے۔ کیوں کیا جائے تاکہ سمجھا جائے۔ کیوں سمجھا جائے تاکہ عمل کی تحریک پیدا ہو۔ قرآن پاک استعارات و علائم کی زبان میں بات کرتا ہے اور دعوت فکر و عمل دیتا ہے۔ غور و فکر کا مقصد عمل کے لیے حکمت عملی طے کرنا اور طریقۂ کار کا تعین کرنا ہے۔
سورۂ فیل مستقل طور پر قرآن پاک کا ایک اہم جزو ہے۔ جو واقعہ اس سورہ میں موجود ہے اس کی اہمیت اور حیثیت بھی دائمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کو قرآن پاک میں کیوں شامل کیا گیا ہے۔ صرف ایک تاریخی واقعہ کی حیثیت سے یا کسی معجزہ کی حیثیت سے جیسا کہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے، اگر اس واقعہ کو آسمانی معجزہ سے منسوب کیا جائے اس بنیاد پر تاکہ قادر مطلق کی ذات میں اس کے بندوں کا یقین و ایمان مستحکم ہو تو زلزلہ، آندھی ، طوفان ، سیلاب ، آتش فشاں منجملہ کائنات ہی ایک معجزہ ہے۔ بالفرض اگر اس سورہ کو قرآن پاک میں شامل نہ بھی کیا گیا ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے استناد میں کوئی کمی واقع ہوتی، ہرگز نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بے حد اہم تحریک کا حامل ہے۔ اس کا معجزہ سمجھنا مقصد خداوندی کی حکمت و ہدایت سے صریحاً بغاوت ہے اور ساتھ ہی زندگی کے پُرآشوب حالات میں اس ہدایت سے برگشتگی کی وجہ سے اس کی افادیت سے محروم اور ایک طرح سے حکم خداوندی کی نافرمانی ہے۔ اس کے برعکس جس قوم نے اس سورہ کے مفہوم کو سمجھا، عمل کیا، گویا پیرویِ رب کی اور فرماں برداری کے صلہ میں جو کامرانیاں اور کامیابیاں حاصل کیں وہ قوم ہماری نظروں سے پوشیدہ نہیں ۔ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس سورہ کا تفصیلی جائزہ لینا ناگزیر ہے۔
اَلَم تَر ’’ کیا نہیں دیکھا تو نے ‘ ‘ اس سورہ کی ابتداء ہی ڈرامائی انداز سے ہوتی ہے۔ یعنی انگریزی میں (Dramatic Opening) ہے۔ جس کے تخاطب میں دیکھنے پر اصرار موجود ہے۔ گویا یہ ایک ایسا اہم واقعہ ہے جس کو نہ دیکھنا ممکن ہی نہیں۔ یہ تخاطب ہر دور کے ہر فرد ہر قوم سے براہِ راست ہے۔ ’’دیکھنا‘‘ ایک ایسا عمل ہے جو انسانی ذہن کو علم الیقین فراہم کرتا ہے Seeing Seeing is believing کا Perception-Process سے گزرتا ہوا understanding تک پہنچتا ہے۔ یعنی بصارت کا عمل شعور کی وادیوں سے گزرتا ہوا فہم تک رسائی کرتا ہے۔ یہ تخاطب بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عراق پر امریکہ نے حملہ کردیا ہے۔ یا تمہیں نہیں معلوم کہ پاکستان کا ایک حصہ بنگلہ دیش بن گیا ہے۔ یعنی کسی اہم واقعہ کی اہمیت کو جتانا اور اسی پر شہادت طلب کرنا۔ قرآن پاک کے اسلوب میں عموماً نفی سے اثبات کو استحکام دیا گیاہے۔ گویا تو نے بہت غور اور توجہ سے observe کیا ہوگا کہ تیرے رب نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا تدابیر، کیا لائحہ عمل اور کیا طریق کار اپنائے۔ کیفَ فعالَ رُبّک میں ہی وہ دعوت عملی موجود ہے جو ایک تحریک پیدا کرتی ہے۔ جیسے ایک کوچ (Coach) اپنے شاگرد سے کہتا ہے ک جو میں کررہا ہوں اور جس طرح کررہا ہوں تو بھی بعینہہ اس کی تقلید کر۔ یہاں کیفَ فعال ہی سب اہم پیغام ہدایت ہے۔ غور سے دیکھ اور عمل کر، کی تحریک اپنی پوری توانائی کے ساتھ ’’کیف فعل‘‘ میں مضمر ہے۔ یعنی اصحاب فیل کی سرکشی کو کچلنے کے لیے تیرے رب نے کون سی Strategy کو اپنایا۔ اس فعل کی تدبیر کو غور سے دیکھ اور اس سے علم حاصل کر۔ وگرنہ ’’اَلَم تَر‘‘ کے ساتھ ’’کیفَ فعالَ‘‘ کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
یہاں اس فعل کے طریق کار کو نہ صرف غور سے دیکھنا مراد ہے بلکہ واضح طور پر اس طریق کار کو سکھانے کے لیے مخاطبہ ہے جو اصحاب فیل کی رعونت کی سرکوبی کے لیے بروئے کار لایا گیا۔
’’اصحاب فیل‘‘ سے مراد صرف ابرہہ یا اس کی ہاتھیوں سے مسجع طاقت ور فوج ہی نہیں یا صرف تاریخی حوالہ ہی نہیں بلکہ یہ ایک جامع علامت ہے ایک Symbolہے، نخوت و تمکنت اقتدار و حشمت ، جاہ وثروت اور تکبر و رعونت کی جس کو کچھ ڈالنا اللہ کی سنت ہے کیونکہ یہ آسمانی مشن سے بغاوت ہے۔
اسی طرح اس سورہ کی دوسری آیت میں بھی متوجہ کرکے غور کرنے کا مطالبہ ہے۔ ’’الم یجعل کیَدہُم فی تضلیل‘‘ کہ ہم نے کس طریقہ کار سے کس حکمت عملی کو اپنا کر اصحابِ فیل کی شاطرانہ چالوں اور شیطانی منصوبوں کی بیخ کنی کی۔ قرآن پاک کی یہی وہ معجز نگاری ہے جس میں مؤثر طریقہ پر تفصیلات کو مقید کردیا گیا ہے۔ اس لائحہ عمل کو ایک Modelیا مثال کے طور پر Emphasise کیا گیا ہے تاکہ انسان آگاہ ہوسکے کہ ایسے سنگین حالات میں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ ورنہ کیوں ضروری ہو کہ اللہ اپنے طریقِ کار کی طرف انسان کی توجہ اس قدر اصرار کے ساتھ مبذول کرے۔
’’کیف فعالَ‘‘ اور ’’یجعل‘‘ کا فاعل ’’رَبُّکَ‘‘ یعنی تیرا رب ہے جو اس سورہ میں اپنے سیاق و سباق اور معنی کی وسعت میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔رب صرف آب و ہوا اور غذا کی فراہمی تک محدود نہ ہوکر انسانی زندگی کی ہمہ گیر جہالت کا احاطہ کرتا ہے جس میں انسانی عقل و فراست، شعور و ادراک ، فہم و ذکاء ، امتیاز نیک و بد، تعمیر و تخریب کی صلاحیت اور تفکر و تصور کے عناصر کو سرشت کا ایک حصہ بنا کر خمیر میں شامل کردیاگیا ہے اور اس کی نگہہ داشت کی ذمہ داری بھی لی ہے۔ اس ضمن میں فرمانِ الٰہی خود توثیق کرتا ہے۔ ’’وتِلَک الامثال نضر بہا للناس لعلہم یتفکرون‘‘ انسانوں کے لیے علامات اور امثال کے ذریعہ تفکر و سوجھ بوجھ کا سامان مہیا کردیا گیا ہے۔ سوجھ بوجھ اور سوچ کا مادہ اس لیے دیا گیا ہے کہ انسان اپنی ہستی کی بقاء کے لے سامانِ خیر اور امن و سکون مہیا کرے جو اس میں میں فراہم کردیے گئے ہیں اور اسی طرح اپنے دفاع کے لیے اپنے دماغ سے کام لے کر ظلم و جبر کو نیست و نابود کرے۔ اسی لیے ’’کیف فعال‘‘ اور ’’یجعل‘‘ دونوں الفاظ ان تدابیر کی وضاحت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی ماہیت کو بذریعہ علم سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوا جائے۔ کیونکہ اسی طرح کی طاغوتی سرکشی کے واقعات دنیا میں پیدا ہوتے رہیں گے اور ہوتے رہتے ہیں جن سے نبردآزما ہونے کے لیے سنتِ الٰہی کی پیروی ضروری ہے۔ ابرہہ ہر دور میں زندہ رہتا ہے اور کسی نہ کسی روپ میں معصوم انسانیت کہ تہہ و بالا کرنے اور حق کو مٹانے پر آمادہ رہتا ہے۔ یہاں یعنی اس سورہ میں یہ بات زیادہ قابل غور ہے کہ اس مادی دنیا میں تکبر کی سرکوبی کے لیے مادی وسائل کا ہی سہارا لیا گیا ہے جس سے اس سورہ کی افادیت اور مقصد کا عقدہ کھلتا ہے۔
اگر اس واقعہ کے تذکرہ سے مراد معجزہ کا اظہار ہوتا تو قدرتِ خداوندی ابرہہ کی فوج کے تمام سپاہیوں اور ہاتھیوں کو سنگی مجسموں میں تبدیل کردیتی تاکہ ہر عہد میں لوگ عبرت حاصل کرنے کے لیے اس مقام کا مشاہدہ زندہ آنکھوں سے کرتے رہیں یا پوری فوج کو ہوا میں تحلیل کردیتی یا سب فوجی پانی بن کر زمین میں جذب ہوجاتے۔ جو انسانیت طاقت و قوت کے دائرہ عمل سے باہر ہوتا۔ یہاں جو کچھ بھی کیا گیا اس کی تقلید کے لیے انسانی ذہن کو اختیار و قدرت بھی عطا کی گئی ہے اگر وہ اس علامت کی رمز کو Decodeکرسکے تو Divine Strategy کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جس کی مزید تفصیل اس آیت میں موجود ہے۔
’’فارسل علیہم طیراً ابابیل‘‘ ہم نے ان کی مکارانہ چالوں کو برباد کرنے کے لیے ابابیل پرندوں کو فضا میں اڑتے ہوئے وہاں بھیجا۔ یہ منظر ہوبہو اسی طرح ہے جیسے دشمن کی فوج کو مسمار کرنے کے لیے جنگی ہوائی جہازوں کو بھیجا جاتا ہے۔ لیکن جہاز خالی نہیں جاتے بلکہ ان میں میزائیلوں اور بموں کا ذخیرہ بھی موجود رہتا ہے۔ اسی طرح ابابیلوں کے پاس بھی سجیل پتھر موجود تھے تاکہ وہ ان پتھروں کو غنیم کے لشکر پر پھینکیں۔ ’’ترمیہم بججارۃِ من سجّیل‘‘ ایک ایسے منظر کی تصویر کشی ہے جہاں دور حاضر میں فائٹر پلین کے ذریعہ بموں اور میزائلوں سے دشمن کو Strikeکیا جاتا ہو۔ یہاں ’’بججارۃِ من سجّیل‘‘بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہ پتھر صرف معمولی اور عام پتھر نہیں تھے بلکہ آگ میں پکے اور تپے ہوئے پتھر تھے۔ جن کی ضرب ہلاکت خیز تھی۔ جس کا واضح اشارہ انسان کی صنعت و حرفت سے ہے۔ آگ میں تپانا ایک ٹیکنالوجی (Technology) ہے جو اس مادی دنیا میں انسان کے لیے اہم ضرورت ہے۔
میزائل اور بم دونوں میں آگ موجود ہے اور دونوں آگ میں ہی تپا کر بنائے جاتے ہیں۔ اور غالباً آگ میں تپانے کا استعارہ ان ہی بموں اور میزائل دونوں کا انسان کے ذریعہ وجود میں آنا ہے۔ وگرنہ ’’من سجیل‘‘ کی اس آیت میں وضاحت کی ضرورت ہی نہ تھی صرف ’’حجارۃ‘‘ یعنی پتھر سے بھی مقصد پورا ہوسکتا تھا۔ ’’من سجیل‘‘ انسان کی سوچ اور شعور کو انتہائی احتیاط کے ساتھ اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہر صرف علم واقف ہے کہ لوہا زمین سے برآمد ہوتا ہے۔ جو Iron ore کہلاتا ہے جس کو بھٹیوں میں پگھلا کر آگ میں تپا کر مختلف Process سے گزارا جاتا ہے اور پھر حسب ضرورت شکلوں میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ میزائل ، بم، کارٹریج اور دیگر آلات حرب و ضرب اسی زمین سے نکلے ہوئے اور آگ میں تپی ہوئی شکلیں ہیں۔
اس آیت میں ’’ترمیہم‘‘ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہ جواب ہے اس سوال کا جو ’’کیف فعل‘‘ میں متحرک ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ کی روح اسی لفظ میں موجود ہے اگر اس لفظ کو سورۃ سے خارج کردیا جائے تو پوری سورۃ بے معنی ہوجائے گی۔ ’’ترمیہم‘‘ ایک ایسا actionہے جس میں Speed Striking force اور Target بیک وقت موجود ہے۔ جس کے لیے ہوا یا فضا کو راستہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حج کے ارکان میں سے ایک رکن ’’رمی‘‘ کے نام سے سنتِ ابراہیم کی تقلید میں آج بھی جاری ہے۔ ’’ترمیہم ‘‘ اور ’’رمی‘‘ دونوں کا مادہ ایک ہے ۔ رمی کا مقصد بھی شیطانی طاقت کو پتھروں کی ضرب سے مضروب کرنا ہے۔ لاکھوں فرزندان توحید ہر سال اس فعل کو بڑی تن دہی کے ساتھ انجام دیتے ہیں، لیکن مقصد وہیں چھوڑ آتے ہیں۔ ابابیلوں کے ذریعہ دشمنان اسلام کی تباہی بھی ایک مستقل اشاریہ ہے کہ فضا سے بھی دشمنوں کو نیسب و نابود کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اس علامتی اشارہ کو سمجھ کر زندہ قوموں نے لوہے کی ابابیلیں اور سجیل کی میزائل اور بم بنالیے ہیں اور دنیا پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہیں۔
سورۂ فیل میں ’’الم تر‘‘ کا مخاطب کون ہے؟ کیا مسلم قوم نہیں اور اگر ہے تو کیا یہ تحریک اور رہنمائی نہیں کہ دنیا میں اسباب و علل کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی سے طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا جائے۔ (قرآنی تراجم میں ’’الم تر‘‘ کا مخاطب عموماً رسول کو بنایا گیا ہے۔ حالاں کہ رسول کی بعثت اس واقعہ کے بعد ہوئی ہے۔ حقیقتاً قرآن رسول کے لیے نہیں بلکہ رسول کے ذریعہ انسانوں کے لیے نازل کیا گیا ہے۔
اس سورہ کی پہلی آیت میں تہدیدی انداز اختیار کرتے ہوئے رب نے دفاع کے طریقِ کار پر غور و فکر کرنے پر بندوں کی توجہ مبذول کی ہے جس کو Thinking Process سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
دوسری آیت میں طاغوتی منصوبوں کو تاراج کرنے کے لیے جس حکمت عملی کو اختیار کیا گیا ہے اس کی وضاحت موجود ہے جس کو Planning کہا جاتا ہے۔
تیسری آیت میں جس جنگی حکمت عملی کی صراحت کی گئی تھی۔ اس پر عملی اقدام کیا گیا ہے جسے جنگی اصطلاح میں Action کہتے ہیں۔ یہاں Striking Force کو ابابیلوں اور Lethal Magazine کو حجارۃ من سجیل کے ذریعہ نمایاں کیا گیا ہے۔
آخری اور چوتھی آیت میں کبرو نخوت کے نشہ میں خدائی طاقت سے مبارزت طلب کرنے کے نتائج کو واضح کیا گیا ہے۔ جو مکمل تباہی کے سوا کچھ بھی نہی۔
علامہ اقبال نے اس سورہ کی روح کو اس شعر میں نمایاں کیا ہے۔
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملانی سبیل اللہ فساد
یہ سورہ انسان کو فکر یعنی غورو خوض، اس کے بعد تدبیر یعنی حکمت عملی تیار کرنا اور جہاد یعنی پوری کوشش اور توانائی کے ساتھ عمل کرنے کا پورا طریق کار سکھاتی ہے۔ اقبال کے شعر کا مصرعہ اولیٰ اس کی تفسیر ہے۔ دورِ حاضر کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ جو دین مسلم ہونا چاہیے تھا اور جو اللہ کی سنت بھی ہے اس کو کافر نے اپنا دین یعنی محکم عقیدہ سمجھا اور اس پر عمل پیرا ہوکر سرفراز ہے۔ برعکس جو دین کا دعویٰ کرتے ہیں وہ فکر، تدبیر اور جہاد کی برکتوں سے محروم ہے۔ سنت ابراہیمی کی طرح سورۂ فیل اک عملی تمثیل کے روپ میں سنت الٰہی بن کر ابھرتی ہے اور ’’کیف فعل‘‘ کی تقلید پر پورے اصرار کے ساتھ آمادہ کرتی ہے۔ تاکہ انسان خود مکتفی ہوسکے اور ابابیلوں کا انتظار نہ کرے۔
جواب دیں