حفیظ نعمانی
بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ جو اپنے کو دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کا صدر بتاتے ہیں انہیں ہم نے 2015 ء کے دہلی کے صوبائی الیکشن میں بھی دیکھا تھا کہ وہ کمل کے پھول کا چھپے ہوئے زعفرانی رنگ کے کپڑوں سے بھرا ہوا ایک بکس اور ہزار ہزار کے نوٹوں سے بھرا ہوا دوسرا بکس لئے بیٹھے تھے اور جوق در جوق ٹکٹ کے بھکاری آرہے تھے اور شاہ صاحب خود ان کے گلے میں پٹکا ڈالتے تھے اور ایک پیکٹ نوٹوں کا تھماکر بتاتے تھے کہ ان کو کہاں سے لڑنا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نئے نئے وزیراعظم بنے تھے وہ ہر مرض کی دوا کے طور پر مسکراتے ہوئے آتے تھے اور مراد پوری کرجاتے تھے۔ بی جے پی کے سامنے اصل مسئلہ اروند کجریوال کے مقابلہ کا تھا کیونکہ ان کا چہرہ انا ہزارے کے لوک پال مطالبہ کے وقت اس طرح سامنے آیا تھا کہ وہ چھا گیا تھا۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ دوسرا چہرہ کرن بیدی کا تھا جو انا ہزارے کی دست و بازو بنی ہونے کے علاوہ دہلی ہی نہیں ملک میں نیک نام پولیس افسر کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں۔ وزیراعظم نے ان کو دہلی کا وزیراعلیٰ بنانے کا خواب دکھایا اور وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر اُمیدوار بن گئیں۔ ایک سال پہلے لوک سبھا کا الیکشن جس اکثریت سے مودی جی نے جیتا تھا پھر ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی کے الیکشن جس طرح جیتے ان کے بعد دہلی تو ان کے لئے ایک بتاشہ تھا جو پانی کی بوندوں سے پگھل سکتا تھا لیکن کجریوال نے جو دکھایا اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور دہلی کے اس خنجر نے اتنا گہرا زخم لگادیا کہ پانچ سال ہوگئے اور ان پانچ برسوں میں نہ جانے مودی جی کیا کیا بھول گئے لیکن کجریوال کے اس زخم سے رستے ہوئے خون کو بند نہ کراسکے۔
ہم نے دہلی کے الیکشن میں دیکھا تھا کہ سب کچھ امت شاہ تھے اور ہر کوئی ان کے سامنے گھٹنے موڑکر بیٹھتا تھا۔ اس کے بعد بھی جہاں کہیں الیکشن ہوئے ضرورتمند ان کے دربار میں ہی آئے۔ مگر گذشتہ پانچ سال میں وزیراعظم نے جو اپنی قابلیت دکھائی اور ان کے فیصلوں سے سارا ملک چیخ پڑا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہار میں نتیش کمار کے گھر جاکر ان کو برابر کا شریک کرنا پڑا اور سیاست کی کٹیا کے بجھتے ہوئے چراغ رام ولاس پاسوان کو پلیٹ میں رکھ کر چھ سیٹیں دینا پڑیں اور خود ان کو راجیہ سبھا کی رکنیت کا تحفہ دینے کا وعدہ کرنا پڑا۔
مہاراشٹر میں شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کی بحث برابر چلتی رہتی ہے۔ بی جے پی بڑے بھائی کے درجہ کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھی اور شیوسینا اس بات پر اَڑ گئی تھی کہ بڑے بھائی کا کردار وہ ادا کرے گی۔ مہاراشٹر میں لوک سبھا کی 48 سیٹیں ہیں۔ کئی روز سے دونوں، خوں خاں کررہے تھے۔ آخر کو امت شاہ خود ٹھاکرے کے در پر حاضر ہوئے اور سودا اس پر ہوا کہ پارلیمنٹ کی 25 پر بی جے پی لڑے گی اور 23 پر شیوسینا۔ لیکن اسمبلی کی آدھی آدھی سیٹوں پر دونوں لڑیں گے لیکن وزیراعلیٰ شیوسینا کا ہوگا۔ ٹھاکرے کا اصل مطالبہ یہی تھا کہ وہ اگر 40 سیٹوں پر لوک سبھا لڑتے تب بھی وزیراعظم تو بن نہیں سکتے تھے۔ اس سلسلہ میں جو خاص بات کہنا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جب ٹھاکرے کے دربار میں جارہے تھے تو ٹی وی دکھا رہے تھے کہ امت شاہ کا قافلہ آرہا ہے اور ایک ہی قسم کی کئی گاڑیاں ان سے رنگ برنگی روشنی بکھر رہی تھی اور ان کے علاوہ سادہ شریفانہ گاڑیاں۔ بظاہر اس تام جھام کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ اگر کسی کے سامنے خوشامد کرنے یا ناک رگڑنے جارہے ہیں تو یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ مودی جی کی غلطیوں کی وجہ سے پتلے ہوگئے ہیں اندر سے کمزور ہونا دوسری بات ہے وہ اوپر سے وزیراعظم کی طرح قافلہ لے کر چلتے ہیں۔ لیکن کوئی یہ معلوم نہ کرے کہ قافلے میں کیوں کوئی آیا ہے جبکہ بات صرف شاہ کو کرنا ہے اور وہ بھی اپنی نہیں۔
بی جے پی کی سب سے بڑی طاقت نریندر مودی ہیں اور سب سے بڑی کمزوری بھی وہی ہیں۔ انہوں نے وزیرداخلہ اور وزیر خارجہ کے علاوہ زیادہ سے زیادہ وزیر راجیہ سبھا کے ممبروں کو بنایا ہے۔ وزیر مالیات ارون جیٹلی جو راجیہ سبھا کے ممبر تھے اور انہوں نے لوک سبھا کیلئے امرتسر سے اس سیٹ سے لڑنے کا فیصلہ کیا جس سے نوجوت سنگھ سدھو کامیاب ہوا کرتے تھے مگر وہ وہاں سے بھی کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کے اوپر بدعنوانی کے الزام لگانے والوں میں کیرتی آزاد بھی تھے اور اخبارات اور ٹی وی نے بھی سب کچھ سامنے رکھ دیا۔ لیکن کیرتی آزاد کے کہنے کے مطابق مودی جی نے ان الزامات کو دیکھا بھی نہیں اور آزاد کو پارٹی سے نکال دیا جنہوں نے راہل گاندھی کے ہاتھوں سے کانگریس کا جھنڈا گلے ہی ڈلوایا۔
جس وزیراعظم نے بھرشٹاچار مکت بھارت دینے کا دعویٰ کیا تھا ان کے خلاف آنے والے الیکشن میں سب سے زیادہ جس کا شور ہوگا وہ بھرشٹاچار ہی ہوگا وہ کس کس کا ہوگا اس کا انتظار کرنے میں ہی عافیت ہے۔ گذارش کا مقصد یہ ہے کہ پانچ سال پہلے ایک کے پیچھے ایک پارٹی بی جے پی کے ساتھ گٹھ بندھن کرنے آرہی تھیں اور پانچ برس میں یہ ہوا ہے کہ بی جے پی کے صدر خود پارٹیوں سے گٹھ بندھن کرتے پھر رہے ہیں مگر اکڑ وہی ہے کہ اترپردیش سے 74 سیٹیں لائیں گے مہاراشٹر سے 45 بنگال سے 35 بہار سے 34 غرض کہ 280 سے چند سیٹ زیادہ۔ اور کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگر بی جے پی کو 100 سیٹیں مل جائیں تو بڑی بات ہوگی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
21؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل
جواب دیں