اور بھروسہ اس لئے نہیں ہے کہ گشت کرنے والے فوجیوں سے یہ کہا گیا ہے کہ دیکھتے ہی گولی ماردینا ۔ (یہ کرفیوکے زمانہ کی بات ہے)لیکن کہیں سے خبر نہیں آئی کہ کوئی نظر آیا اور اس کے کسی فوجی نے گولی ماری۔ یہ اس لئے نہیں ہوا کہ مارنے والے ہندو کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والا ہندوکبھی نظرنہیں آتااس کا مظاہرہ ہر جگہ حد یہ کہ لکھنؤ میں ہر اس موقع پر دیکھا جب کبھی کرفیو لگا تواگرمسلمان نظرآیا توکرفیوکی خلاف ورزی میں فوراً اندر کردیا جاتاتھا اور چوراہوں پر ہندونوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے گھروں سے آئے ہوئے ناشتے اور چائے یا شربت سے پیٹ پوجا ہوتی تھی توکیوں کہ ان کے لئے کرفیونہیں ہوتا تھا ۔
آسام میں بوڈو کی حیثیت بالکل وہی ہے جو ماؤوادیوں اور نکسلیوں کی ہے فرق صرف یہ ہے کہ ماؤوادیوں کی نشانہ پر باوردی اور مسلح جوان ہوتے ہیں اوربوڈوکے نشانہ پر صرف غریب مسلمان ہوتے ہیں جو غریب نہیں انتہائی غریب ہیں اور مسز سونیا گاندھی سب کچھ جانتی ہیں لیکن اس لئے کچھ نہیں کرتیں کہ وہ بوڈوکوناراض نہیں کرناچاہتیں ۔
ہندوستان کے حساس مسلمان آسام کے مسلمانوں کے مسئلہ میں الجھے ہوئے تھے کہ میرٹھ سے وہ خبر آئی جس کے اشارے17؍اپریل سے پہلے ملنے شروع ہوگئے تھے ہمارے دورکے ایک عزیز جو برسہا برس سے میرٹھ میں ہیں انہوں نے 3؍اپریل کو بتایا تھا کہ میرٹھ میں کسی بھی وقت کچھ ہوسکتاہے ۔ اب تک شاید اس لئے خیریت رہی کہ ابھی مظفر نگر کا موضوع بند نہیں ہوا ہے لیکن میرٹھ کے فسادی عنصرکو صبر نہیں ہوسکا اور انہوں نے پولیس کی ڈھیل کا فائدہ اٹھا کر ایک معمولی سے واقعہ کو موضوع بنالیا ۔ بات صرف اتنی تھی کہ مسلمان مسجد کی ہی زمین پر ایک سبیل جسے پیاؤبھی کہا جاسکتاہے بنارہے تھے۔ جین دھرم کے لوگوں نے اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی کہ یہاں پانی پینے والوں کی بھیڑ سے قریب بنے مندر کاسکون ختم ہوجائے گا۔
سبیل یا پیاؤ گرمی ہو یاسردی جسم کی پیاس بجھانے کے لئے بنائے جاتے ہیں یہ خدمت دنیا کے ہر مذہب میں انتہائی قابل قدر اور مبارک سمجھتی جاتی ہے ہوسکتاہے جن جینوں نے اس کی اتنی مخالفت کی کہ مارپیٹ کی نوبت آگئی ان کے دھرم میں پیاسے کی پیاس بجھانا پاپ ہویا ان کے مندر میں جو بھگوان براجمان ہیں ان کے ماننے والوں کے لئے پانی پینا یا پانی پلانا اور پیا س بجھانا پاپ ہو۔ رہی سبیل پر بھیڑ تو یہ پانی کی سبیل ہے نہ شربت کی ہے اور نہ بھانگ کی ٹھنڈائی کی ہم نے زندگی میں اس وقت بھی سبیلیں دیکھی تھیں جس وقت برف صرف بڑے آدمی خرید سکتے تھے اور بڑے دوکان دار اپنی دوکان کے پاس پانی کے مٹکے رکھتے تھے اور ان پر پلانے والے بھی ہوتے تھے ۔ اب زمانہ بہت بدل گیا اور ایسی سبیل بھی لگنے لگی جس میں ہروقت فرج کا پانی آتاہے۔ لیکن آج تک کبھی یہ نہیں سنا کہ سبیل پرپانی پینے والوں کی اتنی بھیڑ ہوگئی کہ قریب بنے مندر میں شردھالوؤں کو پوجاکرنامشکل ہوگیا ۔ ایسی بھیڑ بڑھوامنگل کو ضرورہوتی ہے کہ مندر اور مسجد سب کے راستے تک بند ہوجاتے ہیں لیکن کیوں کہ یہ ایک بہت اچھا کام سمجھا جاتاہے اس لئے کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔
یہ بات حکومت نے بھی تسلیم کی ہے کہ یہ منصوبہ بند تھا اور ہم نے بھی شروع میں کہا تھا کہ 7؍اپریل کو پولنگ کے پہلے راؤنڈ سے پہلے ہی تناؤکی فضاء بن رہی تھی ۔ فی الحال میرٹھ میں جوکچھ ہوا وہ ایسے وقت ہوا کہ ابھی مودی جی کی قسمت کا فیصلہ مشینوں میں بند ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 16؍مئی کو اگرنتیجہ آرایس ایس کی منصوبہ بندی کے مطابق ہواتو جشن کے نام پر کتنا خون بہایاجائے گا؟اوراگرتوقع کے خلاف ہواتواس کا ذمہ دارمسلمانوں کوقراردے کر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتاہے؟۔اس لئے کہ جیسے جیسے الیکشن اپنی منزل کے قریب پہنچتا گیا ویسے ویسے یہ کھلتا گیا کہ مسلمان ہر جگہ یہ فیصلہ کررہے ہیں کہ جو مودی جی کے امیدوار کو ہراتانظرآئے اسے ووٹ دے دیا جائے ۔ مودی جی نے باربار اور ہر موڑپر کہا کہ میں سب کو ساتھ لے کر چلوں گااورمسلمانوں کا کھل کرنام لیا کہ ان کا ہر حق اداکیا جائے گا لیکن بنارس میں جہاں مودی جی کی عزت داؤپر لگی ہے وہاں کھل کر یہ بات کہی گئی کہ مسلمان 11؍مئی کویہ فیصلہ کریں گے کہ کانگریس کے اجے رائے کو ووٹ دیا جائے یا کیجریوال کو یعنی مودی جی کو بالکل نہیں ۔ یہ مسلمانوں کا پھوہڑ پن ہے جو ہمیشہ ان کی راہ میں کانٹے بوتا ہے کیوں کہ وہ ووٹ کم دیتے ہیں اور شورزیادہ مچاتے ہیں اور دوست کسی کو بنائیں یا نہ بنائیں دشمن ضروربنالیتے ہیں ۔
جواب دیں