آیئے کشمیری بھائیوں کی عید کرائیں

اب اہم ترین مسئلہ گوشت کا ہے ہم لکھنؤ میں رہنے والے یا ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے لوگ روزمرہ کے کھانے میں سبزی، دال اور کبھی کبھی گوشت، مچھلی بھی کھانے میں شامل کرلیتے ہیں لیکن ہندوستان کا کشمیر ایسا صوبہ ہے جہاں دال یا سبزی بہت کم کھائی جاتی ہے زیادہ تر چاول اور گوشت کھایا جاتا ہے۔ اندرونی طور پر ہم نے معلومات کی ہیں تو وہاں بچوں کے ٹفن میں بھی چاول کے ساتھ مرغ یا گوشت کے ٹکڑے ضرور ہوتے ہیں۔ انشاء اللہ دس دن کے بعد قربانی کی آپ کو فکر ہوگی کشمیر ریلیف کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے ذمہ دار جتنے بکروں کی قربانی کرتے تھے اس کی آدھی یہاں کریں اور باقی حصے کشمیر میں جاکر کریں تاکہ ہر وقت گوشت کھانے والے بھائیوں کو اور بچوں کو قربانی کا گوشت مل سکے۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ اہتمام کرتے ہیں کہ ایک یا دو بکرے گھر پر ذبح کرائے باقی حصے بلوچ پورہ یا کہیں اور بڑے جانور میں لے لئے۔ اللہ رب کریم معاف فرمائے یہ انتہائی بددلی سے کیا جاتا ہے اور بے گار جیسی ٹالی جاتی ہے۔
ہم اپنے تمام بھائیوں سے اللہ کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ گھر پر قربانی ہونے والوں میں سے آدھے اور بڑے جانور کی قربانی میں حصے لینے والے اپنے بجٹ میں اضافہ کرکے یہ فیصلہ فرمالیں کہ اس سال بڑے جانوروں میں ہونے والے حصوں کے بجائے کشمیر میں سب کے نام کی قربانی کرائیں گے۔ اگر صرف لکھنؤ والے یہ فیصلہ کرلیں تو دوسرے شہر کے مسلمان بھی ضرور اس مشورہ کو قبول کریں گے اور اس طرح ہم کئی ہزار کشمیری بھائیوں کو قربانی کا گوشت کھلا سکیں گے۔
میں ایک کم علم آدمی ہوں یہ بات علماء کرام بتائیں گے کہ انشاء اللہ اس قربانی کا جو ثواب ملے گا وہ کتنا ہوگا؟ اور کس کس شکل میں اس کا اجر ملے گا؟ ریلیف کمیٹی کے دو ذمہ دار اپنے خرچ پر بذریعہ ہوئی جہاز رقم اور نام لے کر جائیں گے اور وہیں مدارس کے علماء کے مشورہ سے بھیڑیں قربان کرکے اس کا گوشت تقسیم کراکے واپس آئیں گے۔ ہمیں اُمید ہے کہ جس طرح چند دن میں چاول اور مصالحوں کا ذخیرہ روانہ کیا ہے اس طرح سو سے زیادہ جانور آپ کی اور آپ کے اہل و عیال کی طرف سے سرینگر میں قربان کردیئے جائیں گے۔ خدا کرے کہ تعداد اور بڑھ جائے۔

«
»

نظر کی کمزوری سے بچاؤ کے فطری طریقے

نریندر مودی کا دورہ امریکہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے